آصف تنویر تیمی: شوہر پر بیوی کے چند اہم حقوق

0

آصف تنویر تیمی
حسن معاشرت: شوہر کو چاہئے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ نیکی اور بھلائی کا رویہ اختیار کرے۔ اس کی تکریم وعزت کی ہر ممکن کوشش کرے۔اس کی دل جوئی کرے ،دل آزاری سے بچے ۔اس کے جائز حقوق کی تکمیل میں کوئی کسر نہ چھوڑے۔ اس پر ناحق ظلم او ر زیادتی نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’اے ایمان والو! تمہیں حلال نہیں کہ زبردستی عورتوں کو ورثے میں لے بیٹھو انہیں اس لئے روک نہ رکھو کہ جو تم نے انہیں دے رکھا ہے، اس میں سے کچھ لے لو ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ کوئی کھلی برائی اور بے حیائی کریں ان کے ساتھ اچھے طریقے سے بودوباش رکھو، گو تم انہیں ناپسند کرو لیکن بہت ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو برا جانو، اور اللہ تعالیٰ اس میں بہت ہی بھلائی کردے‘‘۔( النساء: ۱۹) حسن معاشرت کے تعلق سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بے شمار ہدایات موجود ہیں۔ ایک حدیث میں آپ نے فرمایا:’’عورتوں کے بارے میں میری وصیت کا ہمیشہ خیال رکھنا ، کیوں کہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے۔ پسلی میں بھی سب سے زیادہ ٹیڑھا اوپر کا حصہ ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص اسے بالکل سیدھی کرنے کی کوشش کرے تو انجام کار توڑ کے رہے گا اور اگر اسے وہ یونہی چھوڑ دے گا تو پھر ہمیشہ ٹیرھی ہی رہ جائے گی۔ پس عورتوں کے بارے میں میری نصیحت مانو، عورتوں سے اچھا سلوک کرو‘‘۔( صحیح بخاری، ۳۳۳۱)دوسری حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو او رتم سب کی نسبت میں اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہوں‘‘۔( سنن ابن ماجہ، ۱۹۷۷)
(۲) بیوی کو دین پسند بنایا جائے: جس طرح شوہر کے لئے دین کا پابند ہونا ضروری ہے، اسی طرح اس کے اوپر یہ بھی لازم ہے کہ وہ اپنے بال بچوں خصوصا اپنی بیوی کو شریعت کا پابند بنائے۔ نیکی اور بھلائی کی طرف اس کو راغب کرے۔ ایسا نہ ہو کہ خود صوم وصلاۃ کا عادی ہو اور بیوی دین بے زار ہو۔اس دین بے زاری کا نقصان یہ ہوگا کہ اس عورت کے بطن سے پیدا ہونے والا ہر بچہ ماں کی غلط تربیت کی وجہ سے دین اور شریعت سے دور ہوگا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر جس پر سخت دل مضبوط فرشتے مقرر ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ وہ حکم دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو حکم دیا جائے بجالاتے ہیں‘‘۔( التحریم: ۶) جب یہ آیت نازل ہوئی تو عمر رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! اپنے آپ کو جہنم سے بچانے کی بات تو سمجھ میں آگئی مگر اپنے اہل وعیال کو بچانے کا مطلب کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا: جن چیزوں سے اللہ نے تمہیں روکا ہے انہیں چیزوں سے تم انہیں(بال بچوں کو) بھی روکو، اور جن چیزوں کے کرنے کا اللہ نے تمہیں حکم دیا ہو انہیں چیزوں کے کرنے کا حکم تم انہیں دے، یہی مطلب اپنے بال بچوں کو اللہ کے عذاب سے بچانے کا ہے۔ ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اللہ تعالیٰ اس آدمی پر رحم فرمائے جو رات کو اٹھا اور اس نے نماز(تہجد) پڑھی، پھر اس نے اپنی بیوی کو جگایا، اس نے بھی نماز(تہجد) پڑھی اگر وہ(اٹھنے سے ) انکار کرے تو اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اس عورت پر جو رات کو اٹھی اور نماز پڑھی، پھر اپنے خاوند کو جگایا اور اس نے بھی نماز پڑھی اور اگر اس نے انکار کیا تو اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے‘‘۔( سنن نسائی،۱۶۱۱)
(۳) عدل وانصاف: اگر کسی کے پاس کئی ایک بیویاں ہوں تو ان سبھوں کے مابین انصاف ضروری ہے۔ شریعت میں ان لوگوں کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے جو اپنی بیویوں کے درمیان انصافی یا ظلم وزیادتی کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’اور اگر تمہیں ڈر ہو کہ یتیم لڑکیوں سے نکاح کرکے تم انصاف نہ رکھ سکوگے تو اور عورتوں میں سے جو بھی تمہیں اچھی لگیں تم ان سے نکاح کرلو، دو،دو،تین تین، چار چار سے، لیکن اگر تمہیں برابری نہ کرسکنے کا خوف ہو تو ایک ہی کافی ہے یا تمہاری ملکیت کی لونڈی یہ زیادہ قریب ہے، کہ ( ایسا کرنے سے ناانصافی اور) ایک طرف جھک پڑنے سے بچ جاؤ‘‘۔ آیت میں عدل کا مطلب ظاہری معاملات میں عدل ہے، اگر دلی اعتبار سے کسی کی جانب کم اور کسی کی جانب زیادہ میلان ہے تو یہ قابل گرفت نہیں۔ اس لئے کہ دلوں کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ انسان کی گرفت اس چیز پر ہوتی ہے جو وہ بظاہر کرسکتا ہے مگر اس کے باوجود نہیں کرتا۔
(۴) بیوی کی چوک اور ناسمجھی سے صرف نظر کیا جائے: بسااوقات مرد حضرات معمولی باتوں پر بیوی کا شدید مواخذہ کرتے ہیں۔برا بھلا کہتے ہیں۔ خوف زدہ کرتے ہیں ، اور طلاق دینے کی دھمکی تک دی جاتی ہے۔ حالانکہ یہ عادتیں کسی اچھے شوہر کی پہچان نہیں ہیں۔ غلطی اور چوک فطری عمل ہے۔ کوئی اس سے بچ نہیں سکتا۔ بالخصوص بیوی جو ہمہ وقت اپنے شوہر کے ساتھ رہتی اور ان کے ناز نخرے کو برداشت کرتی ہے۔ اس سے غلطی ہوجانا خلاف توقع نہیں ۔ اس لئے شوہر کو چاہئے کہ اگر غلطی کا تعلق کسی شرعی حکم سے نہ ہوتو بات بات پر بیوی کی سرزنش کرنے سے گریز کرے تاکہ گھر کا ماحول خراب نہ ہو۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ کوئی مومن مرد کسی مومنہ عورت کو نہ دھمکائے ، اگراس کے کسی کام کو ناپسند کرتا ہے تو عین ممکن ہے کہ وہ(عورت) کوئی ایسا عمل کرے جس سے وہ(مرد) خوش ہوجائے‘‘۔(صحیح مسلم، ۱۴۶۹)
(۵) بلا کسی سبب کے بیوی کو مارا نہ جائے: بیوی کے مارنے سے متعلق قرآن وحدیث میں جو دلائل مذکور ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ شوہر بطور تادیب بیوی کو مارسکتا ہے۔ لیکن مار نے کے حدود ہیں جن کو صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔ عام طور مغلوب الغضب لوگ ان چیزوں کا خیال نہیں رکھتے۔ حالانکہ کے مارنے سے قبل بیوی کو سمجھانے بجھانے اور مصالحت کی پوری کوشش ہونی چاہئے۔ اور مار کا مقصد اصلاح ہونا چاہئے نہ کہ انتقام ۔ بالخصوص شریعت میں بیوی کو چہرے پر مارنے اور گالی دینے سے منع کیا گیا ہے۔لیکن عام زندگی میں ایسا نہیں ہوتا ہے۔ بہت سارے مسلمان بلاوجہ بیوی کو مارکر اپنے حق میں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کو مول لیتے ہیں۔ بھدی بھدی گالیاں بھی بکتے ہیں۔جو کسی بھی طور کسی مسلمان کے شایان شان نہیں۔معاویہ قشیری کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا او رکہا: آپ( ہمیں) ہماری عورتوں کے بارے میں کیا ارشاد فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جو کھاتے ہو اس سے انہیں کھلاؤ، جو پہنتے ہو اس سے انہیں پہناؤ، انہیں مارو نہیں اور قبیح ہونے کی گالی (یا بددعا) نہ دو‘‘۔(سنن ابو داود، ۲۱۴۴)میاں بیوی کے معاملات کو خوش اسلوبی کے ساتھ حل کرنے سے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’ مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں، پس نیک فرماں بردار عورتیں خاوند کی عدم موجودگی میں بہ حفاظت الٰہی نگہداشت رکھنے والیاں ہیں اور جن عورتوں کی نافرمانی اور بددماغی کا تمہیں خوف ہو انہیں نصیحت کرو اور انہیں الگ بستروں پر چھوڑ دو او رانہیں مار کی سزا دو پھر اگر وہ تابعداری کریں تو ان پر کوئی راستہ تلاش نہ کرو، بے شک اللہ تعالیٰ بڑی بلندی اور بڑائی والا ہے‘‘۔( النساء: ۳۴)
(۶) بیوی کی باتیں سنی اور اسے اپنی باتیں سنائی جائیں: میاں بیوی کے تعلقات کو بہتر رکھنے کے حوالے سے یہ بھی ضروری ہے کہ دونوں ایک دوسرے کو اہمیت دیں۔ شوہر بیوی کی بات سنے اور بیوی مرد کی بات سنے۔ آپس میں صلاح مشورہ کرے۔ لوگوں کی مشغول زندگی نے آج میاں بیوی کے لطف کو بھی ختم کردیا ہے۔ دونوں کی زندگی بھی آفیشیل ہوکر رہ گئی ہے۔ ضرورت کے مطابق گفت وشنید بقیہ کوئی توجہ نہیں۔ سوشل میڈیا نے اس تعلق سے خاص نقصان پہنچایا ہیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود امہات المومنین کو وقت دیا کرتے تھے۔ ان سے دل کی باتیں شیئر کرتیں۔ ہنستے اور ہنساتے۔ ایک دفعہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بڑا طویل قصہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بغور سنتے رہے، ذرہ برابر بھی تھکاوٹ کا اظہار نہیں کیا۔
(۷)ناراضگی کی صورت میں گھر سے نکلے نہ نکالے: زوجین کے مابین ناچاقی فطری بات ہے۔لیکن اس ناچاقی کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ شوہر گھر سے نکل بھاگے یا بیوی کو مارے غصہ کے گھر سے نکال دے۔ گھر سے نکلنا یا نکالنا شیطان کو موقع فراہم کرتا ہے کہ دونوں کے رشتہ کو بد سے بدتر بنا دے۔ اختلاف اور ناراضگی کے باوجود دونوں کو گھر میں رہنا چاہئے تاکہ میل ملاپ کی کوئی صورت نکل سکے۔ زیادہ سے زیادہ شوہر گھر میں رہتے ہوئے اپنی ناراضگی کا اظہار اس طرح کرسکتا ہے کہ بیوی سے بات چیت نہ کرے یا اپنا بستر کچھ دنوں کے لئے الگ کرلے۔
(۸) شوہر ،بیوی کو ضروریات کی تکمیل کی اجازت دے: ہر انسان کی ضرورت ہوتی ہے، جسے وہ پورا کرنا چاہتا ہے۔ اگر بیوی شریعت کے دائرہ میں رہ کر شوہر سے کسی کام کے لئے گھر سے باہر جانے کی اجازت طلب کرتی ہے، یا اپنے کسی رشتہ دار سے ملاقات کرنا چاہتی ہے تو شوہر کو اس بات کی اجازت دینی چاہئے۔ بہت سارے مرد بلاوجہ اس معاملے میں بیوی کو پریشان کرتے ہیں۔ انہیں ان کے والدین سے ملنے یا کسی بیمار کی عیادت سے روکتے ہیں۔ جس کی وجہ سے میاں بیوی میں تناؤ پیدا ہوتاہے اور گھرکا سکون واطمیان کاختم ہوتا ہے۔
(۹) شوہر، بیوی سے متعلق اچھا گمان رکھے: کسی بھی رشتے کو بحال رکھنے کے لئے حسن ظن ضروری ہے۔ بالخصوص میاں بیوی کے درمیان حسن ظن بنیادی حیثیت کا حامل ہے۔ اس وقت بے شمار رشتے صرف بدظنی کی وجہ سے ختم ہورہے ہیں۔ ہزاروں شاد یاں سوء ظن کی وجہ سے ٹوٹ گئیں۔ بدظنی شیطان کا کامیاب حربہ ہوتا ہے جس کے ذریعہ وہ میاں بیوی کے پاک رشتے کو ناکام بناتا ہے۔ اس لئے زوجین کو اس اعتبار سے محتاط رہنا چاہئے۔ اور بدگمانی کا ہرگز شکار نہیں ہونا چاہئے۔ اعتماد کی بحالی میں نکاح کی پائیداری ہے۔ اس زمانے میں سوشل میڈیا نے بد گمانی کے وسائل کو بہت وسیع کردیا ہے۔ چنانچہ میاں بیوی کو کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہئے جس سے شیطان کو راہ ملے اور باہم تعلقات خراب ہوں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS