مریم شہزاد
تم تو اچھی بچی ہو نا۔۔۔ تم کہنا مان لو،یہ بڑی والی پینسل بھائی کو دے دو،شاباش۔‘‘ امی نے مہک کو پیار سے سمجھایا تو اس نے ایک نظر پینسل کو دیکھا اور پھر امی کو جنہیں یقین تھا کہ وہ ان کی بات مان لے گی،کیونکہ وہ اچھی بچی ہے۔
اس نے بھائی کو بڑی پینسل دے دی اور خود چھوٹی پینسل سے اسکول کا کام کرنے لگی۔
بھائی بڑی دیر سے اس کی پینسل لینے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس نے پینسل ہاتھ میں آتے ہی امی کے سامنے تو شکریہ کہا، مگر جیسے ہی امی اُٹھ کر گئیں مہک کو منہ چڑایا اور بولا: ’’اب تم دیکھنا میں تمہاری چہیتی پینسل کے ساتھ کیا کرتا ہوں۔‘‘ دوسرے ہی دن اس نے پینسل چھیل چھیل کر برباد کر دی اور خود دوسری لے آیا۔مہک کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
یہ پینسل اس کو تحفے میں ملی تھی اور یہ تحفہ وہ بہت احتیاط سے استعمال کرتی تھی۔اس نے امی کے کہنے پر اسے دے دی تھی۔
وہ اچھی بچی جو تھی۔
ایک دن اسکول میں فضا نے کہا: ’’مہک!تم مجھے اپنی کاپی دے دو،میں دو دن اسکول نہیں آ سکی تھی۔ ‘‘
’’ بھئی تم نے پہلے بھی میری کاپی پھاڑ کر واپس کی تھی۔‘‘ مہک نے اپنا بیگ بند کرتے ہوئے کہا۔
’’ اچھا پکا وعدہ اب خراب نہیں ہو گی تمہاری کاپی۔‘‘ فضا نے کہا تو مہک سوچنے لگی۔
فضا نے پکا وعدہ کر لیا تو مہک نے کاپی بیگ سے نکال کر اسے دے دی۔
’’ تم میری بہت اچھی سہیلی ہو مہک!بہت بہت شکریہ۔‘‘ فضا نے کہا تو وہ مسکرا دی۔
دوسرے دن فضا نے چھٹی ہی کر لی جس کی وجہ سے مہک کا کام نامکمل رہ گیا،لیکن شکر ہے کہ وہ مس کی ڈانٹ سے بچ گئی،کیونکہ مس کو معلوم تھا کہ وہ اچھی بچی ہے۔
کبھی بھائی اس کی کوئی چیز ہتھیا لیتا تو کبھی بہن اس کے پسندیدہ سوٹ پر قبضہ کرلیتی اور اس کو سمجھ نہیں آتا کہ وہ کیا کرے۔مہک نہ اسکول میں شرارتیں کرتی نہ گھر میں۔کبھی کبھی اس کا بھی بہت دل چاہتا کہ خوب اُچھلے کودے،اُدھم مچائے، شرارتیں کرے،مذاق مذاق میں کسی کو بوکھلا دے،زور زور سے قہقہے لگائے۔
وہ اپنے ساتھ دوسروں کے سلوک سے گھبرا گئی تھی۔جب وہ سوچتی، کاش!میں بھی عام سی بچی ہوتی۔آج کل اس کو یہ احساس اور زیادہ ہورہا تھا۔اب وہ چپ چپ رہنے لگی تھی۔کوئی کچھ کہتا تو چڑجاتی،امی اس کی کیفیت دیکھ رہی تھیں۔
’’ کیا بات ہے مہک!میری شہزادی کچھ پریشان ہے؟‘‘ ایک دن امی نے پیار سے پوچھا۔
امی کے اس طرح پوچھنے پر اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔امی نے گلے لگا کر پیار کیا: ’’میری پیاری بیٹی!کیوں رو رہی ہے؟ ‘‘
’’ میں بھی اب عام بچوں کی طرح بننا چاہتی ہوں۔‘‘ مہک نے روتے ہوئے کہا تو امی چونک گئیں۔
انہوں نے حیران ہو کر پوچھا: ’’ارے،تم اچھی بچی کیوں نہیں رہنا چاہتی ہو؟ ‘‘
’’ سب میری چیزیں لے لیتے ہیں،میں شرارتیں بھی نہیں کرتی،چھوٹے بھائی کو بھی نہیں مارتی،آپ کے اور دادا،دادی کے بھی سب کام کرتی ہوں اور دوسرے سب تو ضدیں بھی کرتے ہیں،شور بھی مچاتے ہیں گھر بھی پھیلا دیتے ہیں تو میں کیوں ایسی نہیں ہوں۔‘‘ مہک نے افسردہ لہجے میں کہا۔
امی نے اسے پیار کیا اور کہا: ’’اللہ تعالیٰ نے سب کی فطرت الگ الگ بنائی ہے۔کوئی لااُبالی ہوتا ہے، کوئی سنجیدہ۔ کوئی شرارتی تو کوئی جھگڑالو،سب الگ الگ مزاج کے انسان بنائے ہیں،تم اچھی بچی ہو اور اچھی ہی رہو گی اور یہ کس نے کہا کہ اچھے بچے ہنس نہیں سکتے یا شرارت نہیں کر سکتے۔
اگر دل چاہے تو تم زور زور سے ہنس بھی سکتی ہو،تم ہنسی مذاق بھی کر سکتی ہو۔مجھے پتا ہے کہ تم کسی کو نقصان پہنچانے کا سوچو گی بھی نہیں اور تم تو ہر کلاس میں بہترین طالبہ کی سند لیتی ہو۔سب بچوں میں تم خاص ہو،اس لیے سب تم کو پسند کرتے ہیں۔اگر نک چڑھی بن جاؤ گی تو سب تم سے دور ہو جائیں گے۔ ‘‘
مہک کی سمجھ میں امی کی بات آگئی۔وہ اب بھی اچھی بچی ہے۔سب کے کام آنے والی،مگر چھوٹی چھوٹی شرارتیں بھی کرلیتی ہے اور دل کھول کر ہنستی بولتی بھی ہے،کیونکہ وہ سمجھ گئی ہے کہ اسے ہنستے مسکراتے رہ کر سب کے کام آنا ہے۔
rvr
وہ اچھی بچی ہے
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS