نایاب ترین شہابی پتھر اور اس سے دریافت نئی معدنیات

0

فضائے بسیط میں موجود دم دار سیارے یا سیارچوں کے وہ شہاب ثاقب کے ٹھوس ٹکڑے جو قشر ارض تک پوری طرح بھسم ہوئے بغیر پہنچ جاتے ہیںانہیں شہابی پتھر کہتے ہیں۔ حال ہی میں برطانوی سائنس دانوں نے زمین پر گرنے والے ایک نایاب ترین شہابی پتھر کے ماخذ کی نشان دہی کی ہے۔ آئی ویونا شہابی پتھر تنزانیہ میں دسمبر 1938 میں گِرا تھا اور ٹوٹ کر متعدد ٹکڑوں میں بکھر گیا تھا جن میں سے ایک لندن کے نیچرل ہِسٹری میوزیم میں موجود ہے۔ ریوگو نامی سیارچے کا جائزہ لینے والے ماہرین کا ماننا ہے کہ آئی ویونا چٹان ممکنہ طور پر نظام شمسی کے کنارے سے آئی ہو۔ میوزیم کی ٹیم کا کہنا تھا کہ جرنل سائنس ایڈوانسز میں شائع ہونے والی تحقیق کے نتائج نظامِ شمسی کے ابتدائی دور کے متعلق مزید جوابات دے سکتے ہیں اور زمین پر زندگی کیسے وجود میں اس معاملے پر مزید روشنی ڈالی جاسکتی ہے۔ تحقیقی مقالے کی شریک مصنفہ پروفیسر سارا رسل کا کہنا تھا کہ یہ ایک دلچسپ دریافت ہے کیوں کہ یہ بتاتا ہے کہ ہمارے میوزیم اور دنیا بھر میں موجود شہابی پتھر ممکنہ طور پر خلاء میں دور دراز موجود کسی چٹان کا اندرونی حصہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سائنس دان ان کو استعمال کرتے ہوئے اپنے اصل اور ہمارے ساتھ کے سیاروں کے متعلق مزید جان سکیں گے۔ آئی ویونا کو ایک انتہائی نایاب شہابی پتھروں میں شمار کیا جاتا ہے جن کو سی آئی کونڈرائٹس کہا جاتا ہے۔ یہ کاربن کے حامل پتھر چار ارب سال قبل نظامِ شمسی کی تشکیل کے دور کی کیمسٹری اپنے اندر رکھتے ہیں۔
خیال رہے کہ صومالیہ میں گرنے والے غیر معمولی بڑے شہابی پتھر سے دو نئی معدنیات دریافت ہوئی ہیں اور غالباً اس میں ایک اور تیسری معدن سائنس کے لیے بالکل نئی ہوسکتی ہے۔ مشرقی افریقہ کے ملک صومالیہ کے ایک کم آبادی والے گاؤں میں گرنے والے دو میٹر طویل اور 15 ٹن وزنی شہابی پتھر کا ایک ٹکڑا کاٹ کر جامعہ البرٹا کے پروفیسر کرِس ہرڈ اور ان کے ساتھیوں نے ایک عرصے تک اس کا مشاہدہ کیا اور بتایا کہ اس میں دو بالکل نئی معدن موجود ہے اور تیسری نئی معدن کا شبہ بھی ہے۔ یہ شہابی پتھر صومایہ کے صوبے ہیران کے گاؤں ال علی میں گرا تھا اور اسی مناسبت سے اسے ’ال علی‘ کا کا نام دیا گیا ہے۔ صومالیہ کے اس خطے میں برسوں سے شہابی پتھر ملتے رہے ہیں۔ اس سے 70 گرام ٹکڑا توڑ کر کینیڈا بھجوایا گیا تھا جس کے حیران کن نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ اس پتھر پر لوہا غالب ہے تاہم اس میں نئی معدنیات ملی ہیں۔ ڈاکٹر کرس کے مطابق یہ ایک غیرمعمولی دریافت ہے کیونکہ ان میں ایلالائٹ اور ایلکنسٹینٹونائٹ نامی معدنیات ہیں جنہیں اس سے قبل مصنوعی طور پرتجربہ گاہ میں بنایا گیا تھا لیکن اب آسمانی پتھر میں یہ قدرتی حالت میں ملی ہیں۔تاہم اب سائنسداں اسی شہابی پتھر کے مزید کچھ گوشے دیکھ رہے ہیں اور ان کا مفصل جائزہ لیں گے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS