ایم اے کنول جعفری
دہشت گردی بدترین گناہ ہے۔ اسلام سمیت کسی بھی مذہب میں دہشت گرد اور دہشت گردی کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس کے باوجود شدت پسندی کے واقعات انجام دیے جانے کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ حال ہی میں دہشت گردی پر قدغن لگانے اور اس کے فروغ کے لیے کی جانے والی مالی معاونت کے انسداد کے لیے نئی دہلی میں ’ نو منی فارٹیررازم‘(این ایم ایف ڈی) کے نام سے دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ کانفرنس میں93ممالک کے مندوبین اور قومی اداروں کے نمائندوں نے شرکت کرتے ہوئے دہشت گردی کے مقابلے کے لیے بین الاقوامی تعاون کو مضبوط بنانے کے عہد کا اعادہ کیا۔ کانفرنس کو 2020میں نئی دہلی میں منعقد ہونا تھا،لیکن عالمی وبا کورونا وائرس کے تحت اسے آگے بڑھا دیا تھا۔
وزیراعظم نریندر مودی نے18نومبر2022کو نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی کے زیراہتمام ’دہشت گردی کے لیے پیسہ نہیں‘ کے موضوع پر تیسری دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے دہشت گردی کو انسانیت کے لیے سب سے بڑا خطرہ بتاتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کو کئی دہائیوں سے دہشت گردی کا سامنا ہے۔ سرکار نے شدت پسندی کا خاتمہ ہونے تک آرام سے نہیں بیٹھنے کا عہد کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردانہ واقعات کا غریب عوام اور مقامی معیشت پربرا اثرپڑتا ہے۔اس سے عام لوگوں کی روزی روٹی تو تباہ ہوتی ہی ہے، سیاحت و تجارت بھی متاثر ہوتی ہے۔ دہشت گردی کے عالمی خطرے سے نمٹنے کے وقت غیر مبہم طریقہ اختیار کرنا مناسب نہیں ہے۔ دہشت گردی انسانیت،آزادی اور تہذیب پر حملہ ہے۔ دہشت گرد ایک فرد ہوتا ہے،لیکن دہشت گردی افراد اور تنظیموں کا بڑا نیٹ ورک ہوتا ہے۔ کچھ ممالک اپنی خارجہ پالیسی کے حصے کے طور پر دہشت گردی کی حمایت کرتے ہیں۔ بین الاقوامی تنظیموں کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ اگر کہیں جنگ نہیں ہو رہی ہے تو وہاں امن ہے۔ درپردہ لڑائیاں بھی خطرناک اور پرتشدد ہوتی ہیں۔ دہشت گردی کا ایک ذریعہ منظم فنڈنگ ہے۔فنڈ فراہمی کے ذرائع کا پتہ لگانے کے ساتھ اس پر روک لگانے کی بھی ضرورت ہے۔ وزیراعظم نے بین الاقوامی برادری سے چوری کا رویہ چھوڑ کردہشت گردی کے خلاف صفر برداشت کی پالیسی اپنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے اسے جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے پرزور دیا۔ انہوں نے دہشت گردی کی سیاسی، نظریاتی اور اقتصادی معاونت کو اپنی خارجہ پالیسی کا حصہ بنانے اور دہشت گردی کی بالواسطہ حمایت کرنے والے ممالک کی زبردست نقطہ چینی کرتے ہوئے اسے نا انصافی قرار دیا۔ وزیراعظم نے بدلتے وقت کے ساتھ دہشت گردی کی جہتیں بدلنے اور جدیدترین ٹیکنا لوجی کے استعمال کو بڑا چیلنج بتایا۔انہوں نے مشورہ دیا کہ اگر عالمی برادری متحد ہوکر دہشت گردی کے لیے رقوم کی آمد کو روکنے کے لیے ’ ٹریک ‘، ’ٹریس‘ اور ’ٹیکل‘ کی پالیسی اپنائے تو بڑی حد تک دہشت گردی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ یہ کانفرنس 2018میں پیرس اور 2019میں ملبورن میں ہونے والی سابقہ کانفرنسوں کے خطوط پر منعقد ہوئی، جس میں دہشت گردی کے عالمی رجحان اوراِس کے لیے مالی معاونت فراہم کرنے والے تکنیکی، قانونی، ضابطہ جاتی اور امداد باہمی کے تمام تر پہلوؤںپرگفتگو کی گئی۔ ہر سال ایسی کانفرنس کے انعقاد پر زور دیتے ہوئے شدت پسندی کے خطرے اور اس کی معاونت سے نمٹنے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور دہشت گردی کے خلاف پابندیوں کے نفاذ کی اہمیت کی نشان دہی کی گئی۔
دہشت گردی کے واقعات ہنگامہ خیز جغرافیائی،سیاسی عدم استحکام، کمزور حکمرانی، اقتصادی تنگدستی اور طویل مسلح فرقہ وارانہ تنازعات کے سبب پیدا ہوتے ہیں۔عام طور پر کسی معاشرے، ملک،شہر، گاؤں، قصبے، گلی،محلے،خاندان کے افراد اور فرد واحد میں خوف و ہراس اور دہشت پھیلانے کے عمل کو دہشت گردی کہا جاتا ہے،لیکن برسوں غوروفکر کے بعد یو این او کے ذریعہ دہشت گردی کی تعریف متعین نہیں کی جا سکی۔ اس کی ایک وجہ سپر طاقتوں کا راہ میں حائل ہونا ہے۔تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ یو این او کے اُوپر سپر طاقتوں کا قبضہ ہے، ان کی خواہش کے مد نظر ملت اسلامیہ کو ہدف بنایاگیا۔ اسے ’اسلامی دہشت گردی ‘ کا نام دے کر مذہب خاص کو نشانہ بنایا گیا،تاکہ افغانستان اور عراق وغیرہ پرحملوں کا بہانہ تلاش کیا جا سکے۔شمالی عراق اور مغربی سیریا پر قبضہ کرنے والی ابو بکر البغدادی کی تنظیم اسلامک اسٹیٹ (آئی ایس آئی ایس)،9/11میں امریکہ کا جڑواں عمارتوں پر حملے کی ذمہ دار اُسامہ بن لادن کی تنظیم القاعدہ، افغانستان میں پانچ برس تک حکومت کرنے والی ملا محمد عمر کی تنظیم طالبان، پاکستان افغانستان سرحد پر سرگرم اور پاکستان کو نشانہ بنانے والی بیت اﷲ محسود کی تنظیم تحریک طالبان پاکستان، نائیجیریا کی تنظیم بوکو حرام، سیریا اور لبنان میں القاعدہ کی شاخ کی طرح کام کرنے والی ابو محمد الجلانی کی تنظیم النصرہ فرنٹ، ایران اور سیریا کی حمایت یافتہ لبنانی تنظیم حزب اﷲ، فلسطین کی سماجی و سیاسی تنظیم حماس، ترکی، ایران، سیریا اور عراق میں سرگرم ترکی کی تنظیم کردستان ورکرس پارٹی(پی کے کے) اورکولمبیا کی مارکس وادی، لینن وادی دہشت گرد تنظیم ریولیوشنری آرمڈ فورسیس آف کولمبیا شدت پسندوں کی دنیا میں10بدنام تنظیمیںہیں۔ امریکہ نے اپنے مقاصد پورے کرنے کے لیے مسلم ممالک میں تباہی مچائی اور قتل وخون،لوٹ کھسوٹ و غارت گری کو اپنے لیے جائز قرار دیا۔ اُدھر اسرائیل امریکہ کی پشت پناہی پاکر فلسطین میں عربوں کا قتل عام کر رہا ہے۔ دہشت گردی کا ایک نمونہ ’ہو لوکاسٹ‘ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جرمنی میں ہٹلر نے یہودیوں کے ساتھ جوسفاکانہ سلوک اور بہیمانہ قتل عام کیا تھا، اُس کا بدلہ عربوں سے لیا جا رہا ہے۔ اسرائیل میں جرمنی سے بدلہ لینے کی طاقت نہیں ہے، اس لیے وہ اپنا غصہ کمزور فلسطینیوں پر اُتار رہا ہے۔
آزادہندوستان میں پہلا قتل بابائے قوم مہاتما گاندھی جی کا ہوا۔30جنوری1948کو ناتھورام گوڈسے نے بڑلا بھون میں اُنہیںگولی مار کر موت کے گھاٹ اُتاردیا تھا۔ اس کا تعلق ہندو تنظیم آر ایس ایس سے تھا۔ 31اکتوبر 1984 کو وزیر اعظم اندرا گاندھی کا قتل ان کے تین سکھ محافظوں نے کیا۔ وزیر اعظم کے اعلیٰ عہدے پرفائز رہتے ہوئے خاتون آہن کا قتل کر آپریشن بلو اسٹارکا بدلہ بتایاگیا۔ سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی بھی دہشت گردی کا شکار ہوئے۔ 21مئی 1991 کوسری پیرمبدور میں ایک خاتون نے خود کو بارود سے اُڑاکراُن کا قتل کیا۔ 22جنوری 1999کو اڑیسہ میں بجرنگ دل اور بی جے پی کے کارکنان نے آسٹریلیا کے عیسائی پادری گراہم اسٹیورٹ اسٹینس اور ان کے دو بیٹوں 10 سالہ فلپ اور آٹھ سالہ ٹموتھی کو زندہ جلاکر مار ڈالا تھا۔ عدالت میں مقدمہ زیرغور ہونے کے باوجود6؍دسمبر 1992 کو بابری مسجد کو شہید کر دیا گیا۔ گودھرا سانحہ کی آڑ میںگجرات میں2002کے فسادات میں مسلموں کی نسل کشی کی گئی۔ الزام ہے کہ مہاراشٹر، ناندیڑ،پربھنی،عمر کھیڑ وغیرہ میں بم دھماکوں کے مجرموں کی تحقیق تک نہیں کی گئی۔ متعدد واقعات میں ہندو شدت پسندوں کا ہاتھ ہونے کی بات سامنے آنے کے بعد ’ہندو دہشت گردی‘ کا نیا اور متنازع استعارہ استعمال ہوا۔اُدھر’مسلم دہشت گردی ‘کے تعلق سے بی جے پی رہنما لال کرشن اڈوانی نے کہا تھا کہ یہ تو سچ ہے کہ مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں، لیکن دہشت گردی میں گرفتار ہر شخص مسلمان کیوں ہوتا ہے؟ مذکورہ بالا چند مثالیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ دہشت گردی کے معاملوں میں غیر مسلم شدت پسند بھی شامل رہے ہیں۔ہم یہاں مسلمان مجرموں کی حمایت نہیں کررہے ہیں بلکہ یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کسی شخص یا تنظیم کی دہشت گردی کے لیے اسلام یاپوری قوم کو الزام دینا مناسب نہیں ہے۔ہندو اور سکھ بھی دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث رہتے آئے ہیں۔
دہشت گردی مجرمانہ فعل ہے۔ دنیا کاکوئی مذہب اس کی اجازت نہیں دیتا۔ جرائم کرنے والے افراد کا کوئی مذہب،کوئی ذات اور کوئی ملک نہیں ہوتا۔دہشت گردی کے ذمہ دار افراد کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے،لیکن اس کارروائی میں مذہب و ملت کا امتیاز نہیں ہونا چاہیے۔ دہشت گردی کے تحت 2005 میں 66لوگ،2006میں227 افراد، 2007 میں 117لوگ،2008 میںسب سے زیادہ 429افراد، 2010 میں 16 لوگ، 2011 میں 20 اشخاص اور 2013 میں 12 افراد بم دھماکوںمیں ہلاک ہوئے۔اُس وقت کے قومی سلامتی کے مشیر ایم کے نارائن کے مطابق 2008 میں 800 سے زیادہ دہشت گرد گروہ سرگرم تھے۔ مرکزی وزارت داخلہ کی 15؍ فروری2021 کو جاری تازہ فہرست میں 42دہشت گرد تنظیمیں شامل ہیں۔ کئی بار کچھ ممالک دہشت گردوں یا دہشت گرد تنظیموںکو پناہ ہی نہیں دیتے،بلکہ ان کی پشت پناہی بھی کرتے ہیں۔ امریکہ کی جاسوسی تنظیم سی آئی اے نے اُسامہ بن لادن کی تنظیم ’القاعدہ‘ اور طالبان تنظیم کو افغانستان پر رُوس کے قبضے کے دوران تربیت دے کررُوس کے خلاف افغانستان میں کام کرنے کیلئے تیار کیا۔ اسرائیل کی جاسوسی تنظیم ’موساد‘ نے بھی اسی طرح کی تنظیموں کا استعمال اپنے مفاد میں کیا۔ شدت پسندوں اور عسکریت پسند تنظیموں کے ذریعہ مقصد پوراہونے کے بعد یہی افراد نہ صرف امریکہ کی آنکھ کی کرکری بن گئے بلکہ دہشت گرد بھی قرار دیے گئے۔ سی آئی اے اور موساد شدت پسندوں کو تربیت دینے کے بعد دنیا بھر میں اُن کا دہشت گردی کے لیے استعمال کرتی رہی ہیں۔ 11 ستمبر 2001 کودو بوئنگ 767طیارے امریکہ کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے110منزلہ ٹوئن ٹاورس سے ٹکرائے۔11سیکنڈ میں عمارتیں زمیں بوس ہوگئیں۔ ٹاوروں پر دہشت گردانہ حملے میں2606لوگ ہلاک ہوئے۔اُسامہ بن لادن کو اس دہشت گردانہ کارروائی کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ اُسامہ بن لادن کو سبق سکھانے کے نام پر افغانستان پرزبردست حملہ کیا گیا۔ یہ دہشت گردانہ حملہ یقینی طور پر ایک بزدلانہ کارروائی تھی۔ اتنی تعداد میں بے گناہ لوگوں کی ہلاکت کے اس حملے کی پورے عالم میں مذمت کی گئی۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد تقریباً 22کروڑ اور پورے عالم میں 197کروڑ ہے۔اس کے باوجود مسلمان پست،بے وزن اور بے توقیر ہو کر رہ گئے ہیں۔ آخر کیوں؟ کسی رہنما، کسی ملک اور کسی تنظیم کے پاس اس پر غوروفکرکرنے کا وقت نہیں ہے۔ مسجد کا گوشہ نہ سہی گھر کے کسی کونے میں کچھ دیرتنہائی میں بیٹھ کرسوچیں کہیں یہ اﷲ تبارک وتعالیٰ کا حکم نہ ماننے، پیغمبر اسلام حضرت محمدمصطفیؐ کے طریقے کو خیرباد کہنے اور من مانی زندگی گزارنے کا نتیجہ تو نہیں؟ ملت اسلامیہ کو اس پر سنجیدگی سے غور کرکے اپنا محاسبہ ضرور کرنا چاہیے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور ادیب ہیں)
[email protected]