عبیداللّٰہ ناصر
ہندوستان کو یکم دسمبر سے گروپ-20کی صدارت مل گئی ہے۔ ویسے دیکھا جائے تو واقعی یہ ایک اہم موقع ہے اور ملک کو اس پر خوش ہونا بھی چاہیے لیکن در اصل یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے، گروپ20کی صدارت روٹیشن میں چلتی ہے اور انڈونیشیا کے بعد انڈیا(ہندوستان) کا نمبر آنا فطری ہے لیکن مودی جی کی حکومت ہر موقع کو ایونٹ بنا کے اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے میں مہارت رکھتی ہے ،اس لیے جی20 کی صدارت کا ایسے پرچار کیا جا رہا ہے جیسے ہندوستان واقعی وشو گرو بن گیا ہو۔خارجی امور ہوں یا داخلی امور ہر موقع کو ایونٹ بنا دینے سے اس موقع کی سنجیدگی اور بردباری ختم ہوجاتی ہے اور وہ تماشہ بن کے رہ جاتا ہے۔ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ ہندوستان نے عالمی امور میں اس وقت قائدانہ کردار ادا کیا تھا جب دنیا دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاری جھیل چکی تھی اور سرد جنگ کے ماحول میں ٹھٹھر رہی تھی۔ ادھر ہندوستان بھی نیا نیا آزاد ہوا تھا، وہ معاشی اور فوجی طور سے بہت کمزور تھا۔ بدنصیب بٹوارے نے اندرونی حالات بہت خراب کر رکھے تھے۔ ملک میں امن اور استحکام قائم کرنا حکومت کی اولین ذمہ داری تھی، اس وقت بھی ہندوستان نے پہلی افرو ایشیائی کانفرنس کی صدارت کی تھی لیکن اسے کوئی ایونٹ نہیں بنایا گیا تھا بلکہ ملک میں وگیان بھون جیسی شاندار عمارت برق رفتاری سے تعمیر کر کے اس موقع کو تاریخ کے اوراق میں محفوظ کر دیا گیا تھا۔اس کے بعد اقوام متحدہ کے بعد دوسری سب سے بڑی عالمی تنظیم نا وابستہ ملکوں کی چوٹی کانفرنس بھی ہندوستان میں ہوئی تھی مگر اسے بھی کوئی ایونٹ نہیں بنایا گیا تھا، ہاں کانفرنس کے انعقاد میں مہمان سربراہان مملکت کا شاندار استقبال اور پرخلوص مہمان نوازی ہندوستانی کلچر، تہذیب اور روایات کے عین مطابق کی گئی تھی۔
اطلاعات کے مطابق بی جے پی کے صدر جے پی نڈا نے پارٹی کی کور کمیٹی کے ممبروں کی میٹنگ میں مودی حکومت کے مختلف فلاحی کاموں کا جائزہ لیا اور انہیں مزید موثر بنانے کے طریقوں پر غور کیا لیکن سب سے زیادہ توجہ جی20کی صدارت کو مودی حکو مت کی ایک بہت بڑی کامیابی کے طور پر پیش کرنے کے لیے ملک بھر میں جشن منانے اور اس کا سلسلہ اگلے سال کے اواخر تک جاری رکھنے کے طریقوں پر غور کیا گیا تاکہ عوام کے دیش بھکتی اور فخر کے جذبہ کو ابھار کر اسے ووٹوں میں تبدیل کر کے نہ صرف 2023میں مختلف ریاستی اسمبلیوں کے الیکشن میں اس کا فائدہ اٹھایا جائے بلکہ 2024 کے پارلیمانی الیکشن میں بھی وہی گرمی جنون اور فخر کا جذبہ برقرار رکھ کر سیاسی فصل کاٹی جائے۔جی20کا جو لوگو بنایا گیا ہے، وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بی جے پی اس موقع کو مودی جی کی امیج بنانے، اپنے نظریات کے فروغ اور اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے استعمال کرے گی۔یہ لوگو جو وزیراعظم نے جاری کیا ہے، اس میں بھگوا اور ہرے رنگ میں کمل کا پھول دکھایا گیا ہے جو بی جے پی کا انتخابی نشان ہے مگر بی جے پی اسے ہندوستان کی ثقافتی وراثت اور آستھا کی علامت بتا رہی ہے۔پارٹی یہ پرچار کرنا چاہتی ہے کہ مودی جی کی صدارت میں ملک ہندوستان کے ثقافتی ورثہ کو بین الاقوامی برادری کے سامنے پیش کرنا چاہتی ہے۔جی20کے اس لوگو پر کانگریس سمیت حزب اختلاف نے اعتراض کیا ہے مگر حکومت کی صحت پر اس کا کیا اثر پڑے گا ۔
جی20کی صدارت ملنے کے بعد ملک کے مختلف اخباروں میں وزیراعظم کا ایک مضمون چھپا تھا جس کا لب و لباب یہ تھا کہ ہندوستان جمہوریت کی ماں ہے، اس وجہ سے ہندوستان کا قومی اتفاق رائے کسی کے حکم پر نہیں بلکہ کروڑوں مختلف آوازوں کی ہم آہنگی سے ایک نغمہ بن کر ابھرتا ہے۔ بات تو بہت اچھی کہی وزیراعظم نے مگر زمینی حقیقت کیا ہے ؟ مودی بھکت کے طور پر مشہور کالم نویس اور سینئر صحافی تولین سنگھ نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں وزیراعظم کے اس دعوے کی بخیہ ادھیڑ کر رکھ دی ہے ۔انڈین ایکسپریس کے اتوار کے اپنے ہفتہ وار کالم میں تولین سنگھ لکھتی ہیں کہ گزشتہ ہفتہ کثرت میں وحدت جیسے الفاظ خوب اچھالے گئے مگر زمینی حقیقت کیا ہے، اس کا اندازہ بی جے پی کے دو وزرائے اعلیٰ کے حالیہ بیانوں سے ظاہر ہوتی ہے جو انہوں نے ٹیلی ویژن کے پروگراموں میں دیے ہیں اور سب نے جو بات کہی اس کا مافی الضمیر یہی ہے کہ ہندوستانی مسلمان ہوش میں آ جائیں اور تمیز سے رہنا سیکھیں۔اس سلسلہ میں انہوں نے نہ صرف آسام کے وزیراعلیٰ ہیمنت بسوا سرما اور مدھیہ پردیش کے وزیراعلیٰ شیوراج چوہان کے قابل اعتراض بیانوں کا حوالہ دیا بلکہ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کے اس بیان کا بھی حوالہ دیا جس میں انہوں نے 2002کے گجرات فساد کا حوالہ دیتے ہوئے فخریہ کہا تھا کہ ایسا سبق پڑھا دیا کہ تب سے گجرات میں کوئی دنگا نہیں ہوا۔ ہندوستان کے اندرونی حالات کیسے ہیں، خاص کر یہاں دلتوں اور مسلمانوں کے ساتھ کیسا سلوک ہو رہا ہے، اظہار رائے کی آزادی کا کیا حال ہے، مذہبی آزادی کا کس حد تک پاس و لحاظ کیا جا رہا ہے اور بحیثیت مجموعی ملک میں حقوق انسانی کے کیا حالات ہیں، حکومت لاکھ پردہ پوشی کی کوشش کرے، لاکھ میڈیا کے ذریعہ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کرتی رہے، حقیقت چھپا نہیں سکتی۔ ہندوستان میں حقوق انسانی کے حالات پر عالمی برادری کی نظر لگی ہوئی ہے اور انٹرنیشنل رینکنگ میں وہ ہر معاملہ میں رو بہ زوال ہے ایسے میں جی20یا کسی بھی عالمی تنظیم کی صدارت مل جانے سے عالمی برادری میں ہندوستان کی توقیر میں اضافہ نہیں ہوگا۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل صاف الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ دنیا ہندوستان کی بات تبھی سنجیدگی سے سنے گی جب وہ اپنے یہاں حقوق انسانی کے حالات درست کرے گا اور اس کے لیے اسے گاندھی نہرو کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا ہوگا۔ مودی حکومت اور بی جے پی کی مجبوری یہ ہے کہ ان دونوں کا نام آتے ہی وہ بھڑک جاتی ہے۔ مگر مجبوری یہ ہے کہ عالمی برادری ہندوستان کو گاندھی نہرو کے حوالہ سے ہی جانتی ہے اور کوئی اس شناخت کو مٹا نہیں سکتا۔اس لیے ضروری ہے کہ مودی حکومت ہوا میں لاٹھی بھانجنے کے بجائے حقیقت کا ادراک کرے اور اپنے طرز حکمرانی کو آئین ہند کے الفاظ ہی نہیں روح کے مطابق تبدیل کرے ۔
ویسے تو جی-20کی تشکیل کا مقصد دنیا میں معاشی استحکام لانا اور سائنسی نیز تکنیکی ترقی سمیت ترقی کے سبھی مواقع کو دنیا کے ہر شخص تک پہنچانا ہے، خاص کر کووڈ کی مہاماری کے بعد دنیا میں جو تباہی آئی ہے اور دنیا کے ہر ملک کی معیشت کی چولیں ہل گئی ہیں اور اس ماحول میں عالمی کساد بازاری ایک بار پھر حقیقت بن کر ابھر رہی ہے، اس میں باہمی تعاون کے ذریعہ ضرورت مند ملکوں کی کیسے مدد کی جائے یہ سب سے اہم مسئلہ ہے لیکن روس یوکرین کی جنگ نے عالمی ماحول کو یکسر بدل دیا ہے۔خام تیل جو آج بھی توانائی کا سب سے اہم ذریعہ ہے، اس کی سپلائی محدود ہورہی ہے، اس کے ساتھ ہی اجناس، کھاد،ادویات کی سپلائی بھی متاثر ہو رہی ہے۔ یہ حالت حفظان صحت اور غذائی خود کفالت کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔ ستم بالائے ستم ہندوستان اور چین نیز چین اور امریکہ کے درمیان تنازع عالمی ماحول کو اور تلخ بنا رہا ہے۔چین کی توسیع پسندانہ پالیسی سے نہ صرف ہندوستان بلکہ ویتنام اور جاپان بھی پریشان ہیں۔جی20کے صدر کے طور پر ہندوستان کو تلوار کی دھار پر چلنا ہوگا، یہ اس کی سفارت کاری کا امتحان بھی ہے، اسے اپنے قومی مفاد ،سرحدوں کے تحفظ کے ساتھ ساتھ عالمی برادری میں اپنی ساکھ بھی بچائے رکھنی ہے اور قائدانہ کردار بھی ادا کرنا ہے۔ فی الحال یوکرین روس کی جنگ معاشی تباہی کے ساتھ انسانی المیہ بن چکی ہے، اسے رکوانا ہر ملک، ہر تنظیم اور ہر عالمی ادارہ کی ذمہ داری ہے۔ مودی جی برا نہیں مانئے گا، نہرو کا ہندوستان کوریا کانگو اور سوئز نہر کے تنازع میں نا ممکن کو ممکن کر کے دکھا چکا ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی و سیاسی تجزیہ نگار ہیں)
[email protected]