ڈاکٹر سعید اللہ ندوی: اردو کے بے مثال نقیب جوش ملیح آبادی

0

ڈاکٹرسعیداللہ ندوی

جوش کی پیدائش 5 دسمبر 1896 میں ملیح آباد کے محلہ مرزا گنج کے ایک متمول و ادبی گھرانہ میں صبح چار بجے ہوئی۔آپ کانام شبیر حسن خاں تھا آپ نے اپنے ابتدائی دورمیںشبیر تخلص اختیار کیا بعد میںجوش تخلص کرلیاجو وفات تک باقی رکھا آپ اپنی پشت کے چوتھے شاعر تھے آپ کے والد بشیراحمدخاں اپنے دور کے مشہورشاعر تھے اورآپ کے دادامحمد احمد خاں احمد، صاحب دیوان شاعر تھے، ان کے دیوان کا نام’مخزن آلام‘ہے، ان کے پر دادا فقیر محمد خاں گویاا بھی اپنے دور کے عظیم ادبا میں شمار ہوتے تھے اور ‘’دیوان گویا‘ ان کا مجموعہ کلام ہے۔جوش ملیح آبادی کو اردوادب، وراثت میں ملاتھا، اس لیے ان کا شاعری سے شغف پیدا ہوجانا بالکل فطری سی بات تھی، چونکہ گھرانہ شاعرانہ فضا سے معمور تھا اسی سبب انہوں نے نو برس کی عمر سے ہی شاعری کا آغاز کردیا۔
بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں جو معروف شاعر منظر عام پر آئے، اُن میں ایک نام جوش ملیح آبادی کا ہے۔ وہ اپنے خالص اُسلوب کے باعث اپنے ہم عصروں میں ممتاز رہے۔ جوش کی جوانی کا زمانہ بر صغیر پاک و ہند کی سیاسی ابتری کا زمانہ تھا۔اس زمانے میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کا بازار گرم تھا۔ ایک طرف تو وعدے وعید کیے جارہے تھے، تو دوسری طرف انھیں کچلنے کی سازشیں بھی جاری تھیں۔ ایک بیدار مغزشاعر چونکہ معاشرے کے اتارچڑھاؤ سے متاثر ہوتا ہے لہٰذا معاشرے کے تغیر و تبدل کا بلا واسطہ یا بالواسطہ اثر قبول کرتا ہے اور پھر اسی خاصیت کے سبب معاشرے کا عکاس بھی بن جاتا ہے۔اسی تناظر میں اگر دیکھا جائے تو گزشتہ صدی میں شاعری بھی ایک نئے انداز میں ہمارے سامنے آئی اس کا سبب وہ حالات و واقعات ہیں جن سے اس کا سامنا ہوا۔ ان حالات میں شاعر جب اپنے خیالات کا اظہار کرتے تو انھیں تنگ دامانی کا احساس ہوتا؛ چنانچہ انہوں نے اپنے جذبات و احساسات کے اظہار کیلئے غزل کے مقابلے میں نظم کے دامن کو وسیع پاتے ہوئے اس میں طبع آزمائی کی۔
جوش ملیح آبادی کا شمار میں بھی ان شعراء میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنی شاعری کا آغاز غزل سے کیا اور بعد میں نظم کی طرف مائل ہوئے۔ نظم کی طرف مائل ہونا ان کی طبعی مناسبت کا تقاضا تھا۔ ان کی شاعری جدید میلانات و رجحانات سے معمور ہے اور عصری تقاضوں کی عکاس بھی۔جوشؔ نے کچھ غزلیں بھی کہیں لیکن ان کی شہرت کا دارومدار نظموں پر ہے۔ انہوں نے تحریک آزادی کی حمایت میں نظمیں کہیں تو انہیں ملک گیر شہرت حاصل ہوگئی اور انہیں شاعرانقلاب کے لقب سے یاد کیا جانے لگا۔
ان کی تعلیم دراصل گھر سے شروع ہوئی مگر اعلیٰ تعلیم کے حصول کی غرض سے سیتا پور، آگرہ، لکھنؤ اور علی گڈھ کا سفر کرنا پڑا۔1914 میں آگرہ کا رخ کیا اور وہاں سینٹ پیٹرز کالج آگرہ سے سینئر آگرہ کیمبرج کا امتحان پاس کیا، اس کے بعد کچھ مدت کے لیے عربی و فارسی کی تعلیم میں مشغول ہوگئے اور تقریباً چھ ماہ کی مدت، سنسکرت تمدن سے متعلقہ امور کو سمجھنے کے واسطے ٹیگور یونیورسٹی میں بسر کئے مگر دو برس بعد یعنی 1916 میں والد کی وفات نے ان پر مصائب کے پہاڑ توڑ دیئے اور یوں تعلیمی راہ میں بہت ساری رکاوٹیں حائل ہوگئیں، اس لیے وہ اپنی تعلیمی سرگرمی کو مزید آگے نہ بڑھا سکے، چنانچہ انہوں نے اپنے ماسلف آباء و اجداد کی روش پر چلتے ہوئے شعر و شاعری کی سخنوری کے ساتھ ساتھ انگریزی اور فارسی مضامین کو اردو قالب میں ڈھالنا شروع کیا۔
جوشؔ حصول ملازمت کی غرض سے اقبال، عبدالماجد دریا آبادی، اکبر الہ آبادی، سلیمان ندوی کے سفارشی خطوط کے ساتھ 1924 میں حیدر آباد گئے اور آئندہ برس 1925 میں دارالترجمہ حیدرآباد میں ناظر ادب کے عہدے پر فائز ہوگئے۔وہاں انہوں نے میڈیسن کی کتابوں کا انگریزی سے اردو ترجمہ کیا اور دیگر خدمات میں بھی مصروف ہوگئے۔ قریب قریب دس برس وہاں خدمات انجام دیں مگر ورثہ میں ملی انقلابی طبیعت کو ہیجان پیداہوا اور آخر کار نظام حیدرآباد کی طرز حکمرانی کے خلاف ایک نظم کہہ ڈالی، جس کی پاداش میں انہیں ریاست بدر کردیا گیا۔
ریاست بدری کے بعد انہوں نے دہلی کی جانب سفر کیا اور وہاں سے 1936 میں ماہنامہ رسالہ ’کلیم‘ کا اجراء کردیا۔رانا عبدالباقی اپنے مضمون ‘’اردو کے بے مثال نقیب جوش ملیح آبادی‘ میں رقمطراز ہیں کہ :(اس رسالہ میں )اُنہوں نے تواتر سے اُردو زبان کی ترقی اور ہندوستان کی برٹش راج سے آزادی کی حمایت میں مضامین لکھے۔ اِسی ارتقائی دورمیں جوش کی شاعری میں نکھار آتا چلا گیا۔ ہندوستان میں آزادی کی تحریکیں شروع ہونے پر انہوں نے اپنے انقلابی کلام کے ذریعے ہندوستان میں آزادی کی اُمنگ بیدار کرنے کیلئے کئی مضامین اور نظمیں لکھیں۔ سیاسی اتار چڑھاؤ کے اِسی دور میں جوش کی طبیعت مرثیہ نگاری پر مائل ہوئی ،چنانچہ انہیں شہرہ آفاق نظمیں بالخصوص ، حسین اور انقلاب، لکھنے پر شاعر انقلاب کا درجہ دیا گیا لیکن بہرصورت اُردو زبان کی ترقی اورشاعری سے جوش کا دامن ہمیشہ ہی جڑا رہا۔
جوشؔکی شاعری میں سب سے زیادہ قابل توجہ چیز ہے۔ ایک دلکش اور جاندار زبان! جوشؔکو زبان پر مکمل عبور حاصل ہے۔ انہیں بجا طور پر لفظوں کا بادشاہ کہا گیا ہے۔ مترنم الفاظ کے انتخاب کا انہیں بہت سلیقہ ہے۔ ان کی تشبیہوں اور استعاروں میں بے حد لطافت پائی جاتی ہے۔برصغیر کے ادبا بلکہ ترقی پسند تحریک کے نمائندے اور نقیب صدائے انقلاب کا اگر تذکرہ کیا جائے تو جوش ملیح آبادی کاشمار صف اول میں ہو گا۔انہوں نے آزادی ہند کی خاطر زبان و قلم سے وہ انقلاب برپا کر دیا تھا کہ غاصب انگریز کی نیندیں حرام ہو گئیںاور ان کے پرجوش وانقلابی کلام نے وطن کے متوالوں میں اس طرح روح احرار جگادی کہ موالیان ہندنے غاصب حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجا ڈالی۔
جوش کے یہاں زندگی کی بے ثباتی کا پہلو یک لخت پیدا نہیں ہوا۔ جوش زندگی کو جس رنگ ڈھنگ سے دیکھتے تھے، جب اسے اس طرح گزار نہیں سکے تو ان کے اندر ایک ایسی ضد پیدا ہو گئی جو انھیں لحظہ لحظہ وادیٔ موت کی طرف لے گئی اور پھر وہ اس وادی میں یوں اتر گئے جیسے سورج سرِ شام دور سمندروں میں اتر جاتا ہے۔جوش تقسیم کے بعد بھارت سے ترکِ سکونت کر کے 1956ء میں جب پاکستان آئے تو اپنے ساتھ یادوں کی ایک بیاض لائے اور پھر وہ سلسلہ چل نکلا کہ جس کا انجام قید و بند کی صعوبتیں اور حکام کی طعن و تشنیع نکلا۔یارِ زنداں فیض احمد فیضؔ کی طرح جوش ملیح آبادی کو بھی کئی بار اپنے خاندان کی جدائی سہنا پڑی۔ وہ جس سر زمین کے لیے مہاجر ہوئے، اس سر زمین کی بستیاں ان پر تنگ کر دی گئیں۔ردِ عمل کے طو رپر ایک ایسے جوش ہمارے سامنے آئے کہ جن کے ساتھ بغاوت کا نام لازم و ملزوم ہو گیا۔بالآخر 1882ء میں یہ اُردو کا مایہ ناز شاعر اپنی بہت سی یادوں کو چھوڑکر عالم فانی سے عالم بقا کی طرف رخصت ہوگیا۔
)ناظم جامعۃ الحسنات دوبگا ،لکھنؤ(

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS