صبیح احمد
آخرکار مہینوں کی رسہ کشی اور ریشہ دوانیوں کے بعد پاکستان کو نیا آرمی چیف مل گیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے طاقتور ملٹری انٹلیجنس ایجنسی آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل سید عاصم منیر کو چیف آف آرمی اسٹاف اور اسی کے ساتھ لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف مقرر کردیا ہے۔ اور جنرل عاصم منیر نے پاکستانی فوج کے 17 ویں سپہ سالار کی کمان سنبھال بھی لی ہے۔ سبکدوش ہونے والے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کمان ان کے سپرد کی۔ لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر اس وقت سب سے سینئر ترین جنرل ہیں۔ اس خبر سے پاکستانیوں کو یقینی طور پر بڑی راحت کا سانس لینے کا موقع ملا ہوگا کیونکہ اس تقرری سے کچھ دنوں کے لیے ہی صحیح، انہیں ایک نئے سیاسی بحران سے نجات مل گئی ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان فوجی قیادت کے ساتھ ٹکرائو کی پالیسی پر چل رہے تھے جس سے اس بات کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ کہیں فوج مارشل لا کا اعلان نہ کر دے۔ فی الحال کم از کم یہ خطرہ ٹل گیا ہے۔ پاکستان کے سیاسی امور میں فوج کی مداخلت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ اور یہ بات ہمیشہ سے بحث کا موضوع رہی ہے کہ حکومت کے کاموں میں فوجی مداخلت ہونی چاہیے یا نہیں، اگر ہاں تو کس حد تک۔
اس وقت جب پاکستان میں جمہوریت نئی نئی قائم ہوئی تھی اور آج جب یہ کئی تلخ تجربات سے گزر چکی ہے، ایک سوال نہیں بدلا یعنی نئے آرمی چیف کا سیاسی جھکاؤ کس طرف ہو گا۔ کسی بھی جمہوری معاشرے میں سروسز چیفس یعنی فوجی سربراہان کی تعیناتی ایک معمول کی کارروائی ہوتی ہے۔ پاکستان میں درجنوں افسران مختلف اداروں میں تعینات ہوتے رہتے ہیں مگر ان کی تعیناتی خبروں میں کم ہی جگہ بناتی ہے۔ فضائی اور بحری افواج کے سربراہان کی تعیناتی کا علم بھی ایک پریس ریلیز سے ہوتا ہے مگر بری فوج کے سربراہ کا معاملہ خاصا مختلف ہے۔ یہاں تک کہ نیا آرمی چیف تعینات ہوتے ہی ’اگلا سربراہ کون ہو گا‘ کی بحث شروع ہو جاتی ہے۔ ایک طرف صحافی اس سوال کے جواب تلاش کرتے پھرتے ہیں کہ آئندہ فوجی سربراہ کے لیے کون سینئر ہو گا، کس نے کس تاریخ کو کون سی کمان سنبھالی اور کس کو کب، کتنے بجے ریٹائرمنٹ کے باعث فوج کی سربراہی کی دوڑ سے باہر ہو جانا ہے تو دوسری طرف سیاستداں یہ خبریں جمع کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں کہ کون سا لیفٹیننٹ جنرل کس سیاستدان کا رشتہ دار ہے، یا کس سیاسی خاندان کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہے۔ افواہوں کا ایک بازار گرم ہوتا ہے اور یہ افواہیں بعض اوقات ایسے فیصلے بھی کراتی ہیں جن کے بارے میں سابق وزیر اعظم نواز شریف نے ایک بار کہا تھا کہ ’میں نے جنرل مشرف کو تعینات کرنے کا فیصلہ جلد بازی میں کیا تھا، مجھے غلط مشورہ دیا گیا تھا۔‘
جب عمران خان 2018 میں منتخب ہو کر وزیراعظم بنے تھے تو انہیں ’سلیکٹڈ‘ وزیراعظم کا لقب دیا گیا تھا اور اس وقت کے عام انتخابات کو ملک کی تاریخ میں سب سے زیادہ بدعنوانیوں سے پر اور ووٹوں کی دھاندلی والا الیکشن ہونے کا الزام لگایا گیا تھا اور یہ عام رائے قائم کی گئی تھی کہ فوج کی حمایت سے ان کا انتخاب ہوا ہے ، اس لیے انہیں ’الیکٹیڈ‘ کے بجائے ’سلیکٹڈ‘ وزیراعظم کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ عمران خان کے اہم سیاسی حریف سابق وزیراعظم نواز شریف نے تو اپنی حکومت کے گرنے کے لیے اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو راست طور پرمورد الزام ٹھہرادیا تھا۔ حالانکہ اب پانسہ بالکل ہی پلٹ گیا ہے۔ اب تحریک انصاف والے موجودہ حکومت کو ’امپورٹیڈ‘ قرار دے رہے ہیں۔ بہرحال اقتدار سنبھالنے کے ایک مہینہ تک عمران خان کا فوج کے ساتھ تال میل خوب اچھا رہااور کئی مورچے پر اہم پیش رفت بھی ہوئی۔ اس دوران لیے جانے والے فیصلوں میں ہندوستان کے ساتھ جنگ بندی بھی شامل ہے۔ لیکن اس کے بعد ان کے درمیان اختلافات پیدا ہونے لگے۔ اعلیٰ فوجی عہدوں پر تقرریوں کے سلسلے میں فوجی قیادت اور عمران خان کے درمیان اختلافات کھل کر سامنے آگئے۔ اپوزیشن کو اس بات کی بھنک لگتے ہی کہ عمران خان اب فوج کی حمایت سے محروم ہو گئے ہیں، انہوں نے ان (عمران) کی بے یاری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں تحریک عدم اعتماد کے ذریعہ اقتدار سے بے دخل کر دیا۔ فوج سے عمران خان کی ناراضگی کی اصل وجہ یہ ہے کہ انہیں اس بات کا یقین ہو گیا ہے کہ ان کے سابق حامی (فوج) نے سیاسی طور پر ان کے ساتھ دھوکہ کیا اور اس کا بدلہ لینے کے جذبے کے تحت نئے آرمی چیف کی تقرری کو متنازع بنانے کے لیے گزشتہ کچھ ہفتوں کے دوران جو کچھ بھی ممکن ہو سکا، انہوں نے کوشش کی۔ یہ نہیں فراموش کرنا چاہیے کہ عمران خان کوئی غیر معمولی اپوزیشن لیڈر نہیں ہیں۔ ان کی پارٹی تحریک انصاف 2 اہم ریاستوں پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے علاوہ پاک مقبوضہ کشمیر اور گلگت- بلتستان میں برسراقتدار ہے۔ صدر مملکت عارف علوی پاکستان تحریک انصاف کے سابق رکن ہیں اور وہ فی الحال مسلح افواج کے سپریم کمانڈر ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آرمی چیف کے تقرر کے معاملے میں وزیراعظم کو رسمی طور پر ہی صحیح، علوی سے مشورہ کرنا ہی تھا۔ لیکن صدر مملکت نے بہت ہی احتیاط اور دانشمندی سے کام لیتے ہوئے عمران خان کو نئے فوجی سربراہ کو بدظن نہ کرنے کا مشورہ دیا۔ عمران خان فوج سے اتنے نالاںہو گئے کہ آخر میں انہوں نے فوج پر اپنے قتل کی کوشش کرنے کا الزام تک عائد کر دیا، حالانکہ ابھی تک اس حوالے سے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا ہے۔
دراصل وہ خود کو صحیح ثابت کرتے ہوئے پھر سے اقتدار کے مسند پر سرفراز ہونے کے لیے کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے دینا نہیں چاہتے۔ فوج کے ساتھ جھگڑے کو وہ دانستہ طور پر اس حد تک لے جانا چاہتے ہیں کہ عدم استحکام کی صورتحال پیدا ہو جائے اور فوج تنگ آ کر مارشل لا لگا دے کیونکہ وہ بدعنوانی کے الزامات کے تحت نااہل ہونے سے بچنے کے لیے خود کو سیاسی طور پر شہید کہلانا چاہتے ہیں۔ جب یہ بھی کام نہ آیا تو 3نومبر کو وزیر آباد میں کنٹینر پر حملے کے نتیجے میں زخمی ہونے کے بعد پہلی بار ہفتہ کے روز راولپنڈی میں لانگ مارچ کے شرکا سے براہ راست خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے اپنے سیاسی حلیفوں اور مخالفین کو یکساں طور پر ’سرپرائز‘ دیتے ہوئے بظاہر ’موجودہ کرپٹ سیاسی نظام‘ سے علیحدگی اختیار کرنے کے ارادے کا اظہار کرتے ہوئے خیبر پختونخوا اور پنجاب کی اسمبلیوں سے نکلنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن یہ حربہ بھی ناکام ثابت ہو گیا ہے کیونکہ الیکشن کمیشن پاکستان نے اپنے بیان میں واضح کر دیا ہے کہ صوبائی اسمبلی تحلیل ہونے کی صورت میں قومی نہیں بلکہ صرف متعلقہ صوبائی اسمبلی کا الیکشن ہی دوبارہ منعقد کیا جائے گا، جتنے اراکین مستعفی ہوں گے، ان کی نشستوں پر 60 روز میں ضمنی انتخابات کرائے جائیں گے۔اب تمام پاکستانی سانس تھامے منتظر ہیں کہ آگے کیا ہوگا؟
[email protected]