عبیداللّٰہ ناصر
مسلم دانشور طبقہ اور عام مسلمان ہی نہیں اس ملک کے سیکولر انصاف پسند عناصر بھی پسماندہ مسلمانوں کے لیے بھارتیہ جنتا پارٹی وہ بھی یوگی آدتیہ ناتھ اور ان کے وزرا کے دلوں میں محبت کیوں جاگ اٹھی اور وہ اس طبقہ کی مبینہ بدحالی کو لے کر فکر مند کیوں ہو گئے۔ اس کا آغاز تو یوگی جی کے دوبارہ وزیراعلیٰ بننے سے ہوا تھا جب انہوں نے محسن رضا جیسے وفادار بھاجپائی کی جگہ غیر معروف دانش انصاری کو اپنی کابینہ میں جگہ دی تھی۔ اس کے بعد گزشتہ دنوں لکھنؤ میں پسماندہ مسلمانوں کا ایک اجلاس ہوا جس میں ریاست کے نائب وزیراعلیٰ اور وزیر صحت نے شرکت کی اور پسماندہ مسلمانوں کی زبوں حالی پر آنسو بہائے مگر اس طبقہ کی زبوں حالی کیسے دور کریں گے، اس کاکوئی روڈ میپ نہیں پیش کیا۔ اس سے بھی بڑا قدم مرکزی حکومت نے اٹھایا ہے۔اس نے سابق چیف جسٹس بالاکرشنن کی قیادت میں ایک کمیشن تشکیل کیا ہے جو دلت مسلمانوں اور عیسائیوں کو ریزرویشن کے دائرہ سے باہر رکھنے کے1950کے ایک صدارتی حکم نامہ کا جائزہ لے کر ان طبقوں کو ریزرویشن کے دائرہ میں لانے اور اس کے سماجی اثرات کا جائزہ لے گا۔ اگر ان اقدام سے حکومت کے دل میں خلوص اور ایماندری کا ذرا سا بھی شائبہ ہے تو اس کا خیرمقدم کیا جانا چاہیے کیونکہ پسماندہ مسلمانوں کی تعداد مسلمانوں کی کل تعداد کا قریب 85فیصد ہے اور ان کے مفاد میں اٹھایا جانے والا کوئی بھی قدم مسلمانوں کے عمومی مفاد میں ہوگا۔ یہاں اس تلخ حقیقت کا اعتراف کرنا ہوگا کہ اگر چہ اسلام میں ذات برادری کا کوئی تصور نہیں ہے لیکن ہندوستانی مسلمانوں میں ذات برادری کی تفریق ہے حالانکہ یہ تفریق چھواچھوت جیسی نہیں ہے نہ ہی دسترخوان پر بیٹھنے کی ہے لیکن شادی بیاہ کے معا ملہ میں ہڈی دیکھنے کی روایت اب بھی قائم ہے۔ اس کے علاوہ پسماندہ طبقہ کے دانشوروں کی جانب سے اکثر یہ سوال اٹھتا ہے کہ مسلمانوں سے متعلق جتنی بھی تنظیمیں ہیں، ان پر نام نہاد اعلیٰ ذات یا اشراف مسلمانوں کا ہی قبضہ کیوں ہے۔ اس سلسلہ میں مسلمانوں کو دو اہم تنظیموں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اور جمعیۃ علماء ہند کا نام سامنے کرتے ہیں جن پر ان کے تشکیل ہونے سے لے کر آج تک اشراف مسلمانوں کا ہی قبضہ رہا ہے، اس کے علاوہ اوقاف کی قیادت بھی عام طور سے اسی طبقہ کے ہاتھ میں رہی ہے۔ سیاست کے میدان میں بھی اسی طبقہ کا اثر رہا ہے مگر آج کا پسماندہ مسلمان جو نہ صرف زیو ر تعلیم سے آراستہ ہے بلکہ سیاسی طور سے بیدار بھی ہو چکا ہے اور معاشی طور سے مضبوط بھی ہے، وہ اس تفریق کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔شہروں میں تو کوئی خاص احساس نہیں ہوتا لیکن جن کا تعلق گاؤں سے ہے اور جو وہاں کی سیاسی سرگرمیوں سے واقف ہیں، وہ جانتے ہیں کہ اشراف مسلمانوں کی سیاست کے سب سے بڑے دشمن یہی پسماندہ طبقہ کے مسلمان ہیں اور کہیں کہیں تو اتنا آگے جا چکے ہیں کہ بی جے پی کی حمایت سے بھی پیچھے نہیں ہٹتے تاکہ نام نہاد اشراف مسلمان کی سیاسی حیثیت ختم کر سکیں ۔
پسماندہ مسلمانوں میں یہ سیاسی بیداری لانے میں سب سے اہم کردار منڈل کمیشن کی سفارشات کے نفاذ نے ادا کیا ہے جس میں پسماندہ مسلمانوں کو بھی ریزرویشن کے دائر ہ میں رکھا، اس کے ساتھ ہی تعلیم کے فروغ اور معاشی مضبوطی نے بھی اپنا پارٹ ادا کیا ہے۔ اتر پردیش کے ایک سینئر وزیر آنجہانی بینی پرساد ورما تو کھلے عام کہتے تھے کہ ہمیں شیروانی والے(اشراف)مسلمان نہیں لنگی تہبند والے(پسماندہ) مسلمان چاہئیں لیکن جب منڈل کمیشن کی سفارشات سے مسلم پسماندہ طبقہ کو کوئی خاص فائدہ نہیں ملا اور پروفیسر نہال الدین کی قیادت میں آل انڈیا مسلم فورم نے مسلمانوں کا کوٹہ الگ کرنے کا مطالبہ کیا تو سبھی منڈل وادی پارٹیوں کو سانپ سونگھ گیا تھا -ایسی ہی ناانصافی1950میں کی گئی تھی جب ایک صدارتی فرمان کے ذریعہ دلتوں کے ریزرویشن سے دلت مسلمانوں، عیسائیوں اور تمام غیرہندوؤں کو الگ کیا گیا تھا جبکہ یہ صدارتی فرمان آئین ہند کے برابری کے اصول کے خلاف تھا۔منڈل کمیشن کے نفاذ کے اعلان کے بعد آنجہانی وی پی سنگھ کی سرکار دلت بودھوں اور سکھوں کو تو اس دائرہ میں لے آئی لیکن اپنی حلیف بھارتیہ جنتا پارٹی جس کی حمایت پر ان کی حکومت ٹکی ہوئی تھی کی سخت مخالفت کی بنا پر مسلمانوں اور عیسائیوں کو اس دائرہ سے الگ رکھا تھا۔بی جے پی کا کہنا تھا کہ اگر دلت مسلمانوں کو اس دائرہ میں رکھا گیا تو اس سے تبدیلی مذہب کو فروغ ملے گا۔آج وہی بی جے پی کی سرکار اس مطالبہ کا جائزہ لینے کے لیے کمیشن تشکیل کر رہی ہے۔ دلت مسلمانوں اور عیسائیوں کو اس دائرہ میں لانے کا مطالبہ بہار کے ڈاکٹر اعجاز احمد نے قریب 30 سال پہلے اٹھایا تھا، لالو یادو نے اس کی حمایت کی تھی اور بہار اسمبلی نے یہ قرار داد منظور کر کے مرکزی حکومت کو بھیجی تھی مگر بی جے پی کے دباؤ میں اس پر غور بھی نہیں کیا گیا تھا۔
پسماندہ اور دلت مسلمانوں کو لے کر بی جے پی کے دل میں ہمدردی اور انصاف کا جو جذبہ پیدا ہوا ہے، اس میں اگر خلوص شامل ہے تو اس کا خیرمقدم ہے لیکن اس طبقہ کے مسائل مسلمانوں کے درمیان باہمی تفریق کی حد تک تو ٹھیک ہیں لیکن آج بی جے پی کی سرکاروں نے مسلمانوں کے خلاف جو ماحول بنایا ہے اور بحیثیت مجموعی مسلمانوں کو جن مظالم نا انصافیوں اور تفریق کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، کیا پسماندہ مسلمانوں کو ان سے محفوظ رکھنے کی کوئی گارنٹی بی جے پی کی حکومتیں دیں گی؟کیا ماب لنچنگ کے وقت پسماندہ مسلمانوں کو بخش دیا جائے گا؟ کیا ان کی آبادی میں جو مسجدیں ہیں، انہیں مسمار نہیں کیا جائے گا یا ان مسجدوں کے سامنے فرقہ وارانہ نعرہ بازی اور دیگر سماج دشمن حرکتیں نہیں کی جائیں گی؟ کیا پسماندہ مسلم نوجوانوں پر جابرانہ طریقہ سے یو اے پی اے نہیں لگایا جائے گا؟، تھانوں میں ان کی ہڈی پسلی نہیں توڑی جائے گی،انہیں جیلوں میں نہیں سڑایا جائے گا؟ ان کو ضمانت دینے میں تفریق نہیں برتی جائے گی؟کیا منموہن سنگھ کی سرکار نے رنگ ناتھ مشرا کمیٹی کی سفارش تسلیم کرتے ہوئے پسماندہ مسلمانوں کے لیے جو4.5 فیصد ریزرویشن دیا تھا اور بی جے پی نے اپنے کارکن سے مفاد عامہ کی ایک عرضی سپریم کورٹ میں دائر کر کے اس پر حکم امتناعی لے لیا تھا، وہ یہ ریزرویشن بحال کر دے گی؟ پسماندہ مسلمانوں سے ہمدردی جتاتے وقت بی جے پی کو ان سب سوالوں کا جواب دینا چاہیے ورنہ چند طالع آزما پسماندہ لیڈران بی جے پی کی دلالی کر کے سیاسی حیثیت حاصل کرلیں گے مگر مجموعی طور سے اس طبقہ کا کوئی بھلا نہیں کر سکیں گے۔ اس طبقہ کو ان مفاد پرست طالع آزما لیڈروں سے ہوشیار رہنا ہوگا۔
مگر پسماندہ طبقہ کے بیدار مغز عناصر کی جو شکایتیں ہیں ان پر سنجیدگی سے غور کر کے ان کے ازالہ کی سخت ضرورت ہے، مسلم تنظیموں اور سیاسی پارٹیوں کو اس جانب ایمانداری سے توجہ دینی چاہیے۔مسلم پرسنل لاء بورڈ ہو یا امارت شرعیہ یا جمعیۃ علماء ہند، یہ سب ٹھہرے ہوئے پانی کے تالاب جیسی ہو گئی ہیں، ظاہر ہے ایسے پانی میں بدبو ضرور آئے گی۔جمعیۃ علماء ہند تو خاندانی تنظیم بن چکی ہے۔ امارت شرعیہ بھی خاندانی جماعت بن چکی ہے۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ پر ایک خاندان نہیں لیکن ایک مسلک کا ہی قبضہ ہے، ان سب خرابیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ ان تنظیموں کی قیادت جمہوری طریقہ کیوں نہیں اختیار کرتی، کیوں ان کی قیادت کسی قابل با صلاحیت پسماندہ مسلمان کو نہیں دی جا سکتی؟سیاسی پارٹیاں خاص کر کانگریس کو بھی اس طبقہ کی جانب خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ 85فیصد مسلمانوں میں حق تلفی کا احساس ہونا کوئی اچھی بات نہیں، ان کی جائز شکایتوں کا ازالہ ضروری ہے تاکہ وہ گڈریے سے ناراض ہو کر بھیڑیے کی ماند میں جانے کی غلطی نہ کریں ۔
ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ اچانک بی جے پی کے لیڈروں کے دل مسلمانوں کے ایک طبقہ کے لیے وہ بھی جو نفری طاقت میں بہت زیادہ ہے، پیار کیوں امنڈ پڑا۔بی جے پی کی پوری طاقت مسلم دشمنی میں مضمر ہے، خاص کر مودی دور کے آغاز کے بعد تو یہ دشمنی خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے جس کا زبردست سیاسی فائدہ اسے مل رہا ہے پھر یہ پیار کیوں۔سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ بی جے پی کی نفرت، تشدد، نا انصافی کی سیاست اپنے بام عروج پر پہنچنے کے بعد رو بہ زوال ہو رہی ہے۔ نفرت یا کوئی بھی منفی جذبہ کچھ دنوں تک ہی انسانوں کو ورغلائے رکھ سکتا ہے لیکن پھر اس کی فطری موت شروع ہوجاتی ہے کیونکہ نفرت کرتے کرتے انسان اوب جاتا ہے، اس کی شیطانی جبلت ایک حد تک ہی اس کے ساتھ رہ پاتی ہے اور دس سال کا وقفہ اس کی فطری موت کا پیغام ہے۔ بی جے پی کا یہ رویہ اس کی سیاسی حکمت عملی کا ایک حصہ ہے وہ مسلمانوں کا سیاسی اتحاد ختم کرنے کی حکمت عملی پر کام کر رہی ہے۔ حد بندی کے ذریعہ جہاں کہیں بھی مسلمانوں کی تعداد20فیصد سے زیادہ ہے، اس کے حصے بخرے اس انداز سے کیے جا رہے ہیں کہ اس کے ووٹ بے اثر ہوجائیں۔ جموں و کشمیر میں یہی کھیل کھیلا گیا اور ابھی اترپردیش کے بلدیاتی انتخابات میں یہی کیا گیا ہے۔ سننے میں آیا ہے کہ مغربی اتر پردیش کے ان اضلاع کو تین حصوں میں تقسیم کرنے پر کام چل رہا ہے جہاں مسلمانوں کی آبادی25فیصد سے اوپر ہے، ایسے کچھ اضلاع کو اتراکھنڈ کچھ کو نیشنل کیپٹل ریجن دہلی میں شامل کرنے کا ارادہ ہے۔ اس سازش کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے پسماندہ مسلمانوں کے لیے بی جے پی کی محبت ایسی ہی ہے جیسے ذبح کرنے سے پہلے قصائی جانور کو پانی پلاتا ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی و سیاسی تجزیہ نگار ہیں)
[email protected]