محمد حنیف خان: خواتین کیلئے دنیا کب بنے گی خوبصورت؟

0

محمد حنیف خان

خواتین معاشرے کا نصف بہتر ہیں،یہ جملہ اب بے معنی سا ہوگیا ہے کیونکہ کوئی بات بار بار دہرانے کی ضرورت اس وقت ہوتی ہے جب اس کو قبول کیے جانے میں شکوک و شبہات ہوں لیکن پوری دنیا میںہر شعبۂ حیات میں خواتین نے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ کسی بھی طرح مردوں سے پیچھے نہیں ہیں۔دنیا کی سبھی ترقی یافتہ افواج تک میں خواتین اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں جس سے ان کی جسمانی اور ذہنی قوت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔اب خواتین کو ان کی نسوانیت کے دائرے میں قید نہیں کیا جاسکتا ہے بلکہ نسوانیت ان کے لیے خداکی طرف سے ایک اضافی ودیعت کردہ نعمت ہے،جبکہ جسمانی اور ذہنی قوت کے ساتھ ہی جوش و جذبہ اور عزم و استقلال میں وہ مردوں سے کسی طرح پیچھے نہیں ہیں،جب بھی اور جس میدان میں بھی ان کو موقع دیا گیا، انہوں نے اپنی اہمیت ثابت کردی۔تعلیم اور طب کے میدان میں خواتین پہلے سے زیادہ مضبوطی کے ساتھ قدم جمائے ہوئے ہیں،کاروبار کی دنیا میں بھی وہ کسی بھی طرح سے پیچھے نہیں ہیں۔سیاست کے میدان میں بھی ان کی نمائندگی کرنے والی خواتین کی اپنی ایک شناخت رہی ہے۔
فوج ایک ایسا شعبہ ہے جس میں نہ صرف سخت جسمانی مشقت کی ضرورت ہوتی ہے، ذہنی مضبوطی بھی از حد ضروری ہے۔ہندوستانی فوج میںبھی جذبۂ حب الوطنی سے سرشار خواتین اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں،فوج نے ان کو اہم عہدوں پر تعینات بھی کیا ہے۔اعداد و شمار کے مطابق اس وقت فوج میں 6807 خواتین مامور ہیں۔جو فضائیہ، بحری اور بری افواج میں ہیں،یہ وہ خواتین ہیں جو افسر کے عہدے پر مامور ہیں۔وزارت داخلہ کی ایک رپورٹ کے مطابق سی آر پی ایف میں 5928،سی آئی ایس ایف میں 5896، بی ایس ایف میں2640،آئی ٹی بی پی میں 1091 خواتین تعینات ہیں۔ان سب کے باوجود آج معاشرے میں اگر سب سے زیادہ کسی کا استحصال ہو رہا ہے تو وہ خواتین ہی ہیں۔اس کے اسباب ومحرکات کیا ہیں،ان پر توجہ دینا بہت ضروری ہے،جب تک اس نکتے تک رسائی حاصل نہیں ہوگی، اس وقت تک خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم اور ان کے استحصال کو روکا نہیں جا سکے گا۔
جب کوئی خواتین سے متعلق لفظ ’استحصال‘ بولتا ہے یا پڑھتا ہے تو سب سے پہلے انسان کے ذہن میں جسمانی یا جنسی استحصال آتا ہے لیکن کیا صرف استحصال کی یہی دو صورتیں ہیں؟ایسا نہیں ہے کہ استحصال کی صرف یہی دو صورتیں ہوں، ان کے علاوہ بھی استحصال کی نوعتیں ہیں جو جگہ اور حالات کے اعتبار سے اپنی شکل و شباہت اور اپنا رنگ بدل لیتا ہے۔ دنیا میں سب سے بڑا استحصال یہ ہے کہ کسی کے ساتھ ناانصافی اور نابرابری کا سلوک کیا جائے۔ حکومت اور معاشرہ دونوں سطحوں پر اگرہم دیکھیں تو یہ سامنے آتا ہے کہ یہ دونوں ادارے کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں۔معاشرہ اور حکومت دونوں خواتین کو دستاویزی سطح پربرابری کا درجہ دیتے ہیں لیکن عملی سطح پر ایسا نہیں ہوتا، اگر ایسا ہوتا تو خواتین کو آج استحصال کا شکار نہ ہونا پڑتا۔ ملازمت سے لے کر گھر تک ہر جگہ جو رویہ ان کے ساتھ اختیار کیا جاتا ہے، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔اس کے باوجود سب خاموش رہتے ہیں۔
استحصال کی ایک صورت دیکھئے کہ خواتین فوج میں اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہی ہیں،وہ سینئر ہیں اس کے باوجود ان کو پہلے ترقی نہیں دی جاتی ہے بلکہ مرد فوجیوں کے لیے سلیکشن بورڈ بنادیا جاتا ہے،جس پر عدلیہ کو کہنا پڑا کہ اگر مرد فوجیوں کے لیے سلیکشن بورڈ بنادیا گیا ہے تو خواتین فوجیوں کے لیے کیوں نہیں؟عدلیہ میں فوج پر یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ جونیئر مرد فوجیوں کو ترقی دے دی گئی مگر عورتوں کو ان کے حق سے محروم رکھا گیا جس پر عدلیہ نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا۔ اس سے قبل بھی عدلیہ کئی مواقع پر خواتین سے متعلق حکومت پر ناراض ہوچکی ہے۔ فروری 2020میں سپریم کورٹ نے فوج میں خواتین کو کمانڈ پوسٹ (فوجی ٹکڑیوں کی قیادت)دینے کا اہم فیصلہ سنایا تھا جس کے بعد خواتین کا اہم عہدوں پر پہنچنا آسان ہوا۔اس وقت موجودہ چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ اور جسٹس اجے رستوگی کی بنچ نے کہا تھاکہ خواتین کے کمانڈ پوسٹ پر تقرر پر امتناع غیر منطقی ہے اور مساوی حقوق کے خلاف ہے۔معاشرے کی یک رخی فکر کی بنیاد پر خواتین کو مساوی مواقع نہ ملنا پریشان کرنے والا اور ناقابل قبول ہے، خواتین فوجی افسران کو پرمانینٹ کمیشن نہ دینا حکومت کی ذہنیت کو واضح کرتا ہے،مرکزی حکومت کو خواتین سے متعلق اپنی ذہنیت تبدیل کرنی ہوگی اور فوج میں مساوی برتاؤ کو یقینی بنانا ہوگا۔جس کے بعد ان خواتین کو کمانڈ پوسٹ دی گئی لیکن خواتین کے تئیں حکومت کی اسی ذہنیت کی وجہ سے آج پھر فوجی خواتین کو عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خواتین کو آگے بڑھانے اور ان کی صلاحیتوں سے ملک و قوم کو مستفید کرنے کی ذمہ داری حکومت کی ہے یا عدلیہ کی؟کیا خواتین کی ترقی ہمیشہ عدلیہ کی ہی مرہون منت رہے گی؟حکومت کو اس بارے میں بہر حال غور و فکر کرنا چاہیے۔
معاشرے کی سطح پر خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ جو برتاؤ کیا جاتا ہے، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔شردھاہو یا پھر آیوشی یادو جس کی لاش سوٹ کیس میں یمنا ایکسپریس وے پر ملی، ان دونو ں کی عمریں بیس بائیس برس سے زیادہ نہیں تھیں۔ان کے علاوہ بھی روزانہ گھریلو تشدد کے واقعات ہوں، ہر جگہ نشانہ خواتین اورلڑکیاں ہوتی ہیں۔ہندوستان چونکہ مرد اساس معاشرہ رہا ہے، جس کی ذہنیت شروع سے یہی رہی ہے کہ عورتیں کسی لائق نہیں ہوتی ہیں۔زمانہ قدیم سے عورت نے زندگی میں ہر موڑ پر مرد کا ساتھ دیا، کھیت اور کھلیان سے لے کر ماہی گیری اور عنان حکومت سنبھالنے اور حکومت کی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھانے تک میں وہ اس کی ساتھی رہی ہے، اس کے باوجود عورت کو سوائے ذلت، رسوائی اور استحصال کے کچھ نہیں ملا۔دراصل ہندوستانی معاشرے میں مرد اور معاشرہ دونوں نے عورت کو رسوا کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی، عورت جب مرد اور معاشرہ دونوں کی اخلاقی بندشوں سے آزاد ہوئی تو اس نے ترقی کی جانب قدم بڑھائے لیکن اس کے قدموں کو ہمیشہ روکنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
خواتین کے استحصال کو دیکھتے ہوئے تو کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ یہ دنیا ان خواتین کے رہنے کی جگہ ہی نہیں ہے کیونکہ ہر جگہ ان کے ساتھ بھیدبھاؤ کا برتاؤ ہوتا ہے بس فرق اتنا ہے کہ کہیں کم ہے اور کہیں زیادہ۔اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتیریس نے ایک رپورٹ کے تناظر میں کہا کہ ہر گیارہ منٹ میں ایک خاتون کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے اور یہ واردات کوئی اور نہیں خود اس کا اپنا کوئی قریبی ہی انجام دیتا ہے۔خواتین پر تشدد اور ان کے استحصال سے بڑی حقوق انسانی کی خلاف ورزی کوئی نہیں ہے۔انہوں نے حکومتوں سے اپیل کی ہے کہ ان مسائل سے نمٹنے کے لیے نیشنل ایکشن پلان نافذ کرنا چاہیے۔
عالمی یوم برائے انسداد استحصال خواتین ہر 25 نومبر کو منایاجاتا ہے جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ خواتین کو ہر طرح کے استحصال سے بچاکر ان کو پرامن زندگی گزارنے کا موقع دیا جائے۔ اس بار اس کی تھیم ’’خواتین اور لڑکیوں کے استحصال کو ختم کرنے کیلئے سرگرمی‘‘ ہے۔ ہمیں معاشرے اور حکومت دونوں سے یہ امید کرنی چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں گے اور خواتین کے لیے زندگی کو آسان بنانے میں اپنا اپنا کردار اداکریں گے کیونکہ حکومت اور معاشرے کی اپنی ذمہ داریوں سے چشم پوشی کی وجہ سے ہی خواتین کو معاشرے میں مساوی حقوق نہیں مل رہے ہیںاور ان کو استحصال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشرے کا ہر فرد اپنے حصے کا دِیا جلائے تاکہ خواتین اور لڑکیوں کو بھی زندگی میں خوشگواری کا احساس ہو اور ان کو بھی مساویانہ حقوق ہر جگہ مل سکیں،اس سے ملک اور قوم دونوںکی ترقی وابستہ ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS