عمیر کوٹی ندوی
’’ ہم نے یہ دوڑ جیتی کیونکہ ہم اس گفتگو میں مصروف تھے‘‘یہ کہنا ہے امریکہ میں الینوائے جنرل اسمبلی کے 51 ویں ہاؤس ڈسٹرکٹ کے لیے ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار کے طور پر الیکشن جیتنے والی نبیلہ سید کا۔ 23 سالہ ہندوستانی نزاد امریکی مسلم خاتون نبیلہ سید نے سب سے کم عمر نمائندہ کے طور پر تاریخ رقم کی ہے۔ صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ پورے ایشیا کے لئے یہ خوشی کی بات ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے وسط مدتی انتخابات کی خبر ان دنوں چرچا میں ہے۔ 8 ؍نومبر کو ہوئے ان انتخابات میں 85 مسلمان وفاقی، ریاستی، مقامی اور جوڈیشل آفس کے لئے منتخب ہوئے۔ مردم شماری کے مطابق الینوائے کی مجموعی آبادی 12,812,508 ہے۔ اس میں ایشیائی آبادی کا تناسب 5.8 فیصد ہے۔ مسلم آبادی کا تناسب صرف1فیصد ہے۔ پھر بھی نبیلہ سید کی کامیابی کیوں کر ممکن ہوئی،اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ نبیلہ سید نے 9؍نومبر کو ٹوئٹر پر کہا ہے کہ ’’میرا نام نبیلہ سید ہے۔ میں ایک 23 سالہ مسلمان، ہندوستانی نزاد امریکی خاتون ہوں۔ ہم نے ابھی ریپبلکن کے زیر قبضہ مضافاتی ضلع پر اقتدار کو تبدیل کر دیا ہے‘‘۔
انہوں نے اپنی کامیابی کے بارے میں بتاتے ہوئے جو باتیں کہی ہیں در اصل وہی ان کی کامیابی کا راز ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’جب ریاستی نمائندے کے لیے اعلان کیا، تو میں نے لوگوں کے ساتھ حقیقی طور پر بات چیت میں مشغول ہونے کو اپنا مشن بنایا تھا ،تاکہ انہیں ہماری جمہوریت میں شامل ہونے کی وجہ فراہم کی جا سکے اور بہتر قیادت کی امید ہو جو ان کی اقدار کی نمائندگی کرتی ہو۔ ہم نے یہ دوڑ جیتی کیونکہ ہم اس گفتگو میں مصروف تھے‘‘۔
گفتگو لوگوں سے کن کن مسئلہ پر ہوئی وہ یہ بھی بتاتی ہیں اور اس تعلق سے خاص طور پر درپیش سماجی ، معاشی اور اخلاقی مسائل کا ذکر کرتی ہیں۔ وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ ’’ہم نے یہ ریس جیتی کیونکہ 51 ویں ضلع کے لوگ ایک ایسا نمائندہ چاہتے ہیں جو ان کے اور ان کے خاندانوں کے لیے لڑنے کے لیے تیار ہو‘‘۔ لوگوں کے سامنے ان کی باتیں ہی نہیں ان کا کام بھی تھا۔ جیسے کہ غیر منافع بخش ادارے کے لیے وقت دینا، ڈیجیٹل حکمت عملی میں لوگوں کی مدد کرنا، شہری مصروفیت کے متعدد اقدامات کی حمایت، ووٹرز کو متحرک کرنا، کالج کیمپس میں جنسی حملوں کو روکنا، صنفی مساوات کو بڑھانا، یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، برکلے سے پولیٹیکل سائنس اور بزنس میں گریجویشن کرنے کے بعد اپنی تعلیم سے لوگوں کو فائدہ پہنچانا، مقامی کاروبارمیں لوگوں کی مدد کرنا وغیرہ۔ کامیابی کے بعد اپنے پہلے پیغام میں ان کا یہ کہنا کہ ’ میں ایک 23 سالہ مسلمان، ہندوستانی نزاد امریکی خاتون ہوں‘ مذہب کے تئیں ان کے میلان اور اس کے اظہار میں کسی بھی طرح کی جھجھک محسوس نہ کرنے کو ظاہر کرتا ہے۔ وہ اسلامک سوسائٹی آف نارتھ ویسٹ سبربس میں بھی سرگرم ہیں جس کا مقصد نوجوان مسلم خواتین کو قیادت کے لیے بااختیار بنانا ہے۔ وہ بین المذاہب مکالمے کی ضرورت پر بھی زور دیتی ہیں۔ اس وقت یہ بات دیکھنے میں آرہی ہے کہ عمومی طور پر امریکی مسلمان محض تماشائی بننے، آہ وبکا کرنے، شکوہ شکایت کرنے اور الزام تراشیوں میں اپنا وقت اور توانائی ضائع کرنے کی جگہ چاہتے ہیں کہ دنیا بھر کو درپیش مسائل کے حل کا حصہ بنیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اسلام دشمنی میں بڑھ چڑھ کر کام لیڈنگ رول ادا کرنے والے ملک میں رہتے ہوئے وہاں کے باشندوں پر اپنی افادیت کو واضح کرنے اور پروپیگنڈہ کو بے اثر بنانے میں کامیاب ہوتے نظر آرہے ہیں۔
اس کے لئے ایک مؤثر ذریعہ بات چیت بھی ہے ۔ یہ کتنی اہم ہے اور انسانی زندگی میں اسے کس قدر امتیازی خصوصیت حاصل ہے، اس کا اندازہ نبیلہ سید کی مذکورہ باتوں سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ’میں نے لوگوں کے ساتھ حقیقی طور پر بات چیت میں مشغول ہونے کو اپنا مشن بنایا‘ اور یہ کہ ’ ہم نے یہ دوڑ جیتی کیونکہ ہم اس گفتگو میں مصروف تھے‘۔ بات چیت کے ذریعہ انسان اپنے خیالات، فکر، نظریہ کو دوسروں تک پہنچاتا ہے اور دوسروں کے حال چال بھی جانتا ہے۔
ہمیشہ سے اس کی ضرورت رہی ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت اس کی ضرورت کچھ زیادہ ہے، یہی وجہ ہے کہ نبیلہ سید نے خاص طور پر بات چیت کو اپنا ’مشن‘ بنایا اور اپنی کامیابی کی وجہ ’گفتگو میں مصروفیت‘ بتائی۔ گفتگو اور لوگوں سے رابطہ پر زور کیوں۔ وہ اس لئے کہ اس وقت مسلمانوں کے تعلق سے جو کہا اور بتایا جا رہا ہے وہ انتہائی منفی ہے۔ معاشرے کے لئے مسلمانوں کو انتہائی خطرناک، مضر، مہلک اور بے مصرف و بوجھ قرار دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں یہی ہو رہا ہے اور خود ہمارے ملک میں بھی یہی ہو رہا ہے۔ سیاست، صحافت اور ایک خاص نظریہ و فکر رکھنے والے رات ودن یہی کر رہے ہیں۔ ان کی باتوں، اعمال، سوچ، منصوبوں ہر ایک کا سرا اسی سے جاکر ملتا ہے۔
اسلام مخالف جتنی بھی طاقتیں ہیں وہ آج سے نہیں شروع سے ہی یہی کرتی آئی ہیں۔ پروپیگنڈہ ان کا مضبوط ہتھیار رہا ہے۔ رسولؐ کو لوگ ’صادق‘ اور ’امین‘ یعنی سچ بولنے والا اور ایماندار کہتے تھے۔ جب انہوں نے لوگوں کے سامنے سچ بات رکھی تو وہی لوگ انہیں برا اور جادوگر کہنے لگے، ان کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے لگے۔ لوگوں کو روکنے لگے کہ وہ رسولؐ کی باتوں کو نہ سنیں، ان سے دور رہیں۔ اپنے کانوں میں روئی ٹھوس لیں تاکہ ان کی آواز نہ سنائی دے۔ لوگوں کو ان سے دور رہنے کے لئے کہا گیا۔ ان کا سماجی بائیکاٹ کیا گیا اور اس کا باقائدہ پیپر بھی تیار ہوا جس کو خانہ کعبہ میں لٹکایا گیا۔ آج بھی پروپیگنڈہ ہو رہا ہے۔ پوری دنیا میں ہو رہا ہے، ہمارے یہاں بھی ہو رہا ہے۔
مسلمانوں کو نہ جانے کیا کیا کہا جا رہا ہے۔ ان کے خلاف نہ جانے کیا کیا منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ ان کا بائیکاٹ کرنے کی بھی بات ہو رہی ہے۔ لوگوں سے کہا جا رہا ہے اور کھل کر اسٹیج سے کہا جارہا ہے۔ عملا سیاسی بائیکاٹ تو لوگ محسوس کر رہے ہیں لیکن سماجی اور معاشی بائیکاٹ کرنے کی بھی بار بار بات کی جاتی ہے۔
اس صورت حال میں ضرورت ہے کہ ’ لوگوں کے ساتھ حقیقی طور پر بات چیت میں مشغول ہونے کو اپنا مشن بنایا‘ جائے۔ اس لئے کہ اسلام سچ بولنے اورسچائی کو پیش کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اس وقت جب کہ پروپیگنڈہ پالیسی کے تحت جھوٹ کو پروسا جا رہا ہے اور سچ کو چھپایا جا رہا ہے لوگوں کے ساتھ بات چیت میں مشغول ہونا ضروری ہے۔ بات چیت سے جھوٹ کا پردہ چاک ہوگا، لوگوں کی آنکھیں کھلیں گی۔ غلط فہمیاں دور ہوں گی، سچ سامنے دکھے گا۔ انسانیت، ہمدردی، خیرخواہی، بھلائی کے جذبات ابھریں گے۔ اسلام نے تمام انسانوں کے ساتھ اچھے برتاؤ کا حکم دیا ہے۔
غیر مسلموں سے برتاؤ کے تعلق سے اللہ کا فرمان ہے کہ ’’ تم ان سے بھلائی کا سلوک کرو اور اْن سے عدل و انصاف کا برتاؤ کرو، بیشک اللہ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے‘‘(الممتحنہ: 8)۔ حسن سلوک، ہمدردی و غم خواری کا فائدہ یہ ہے کہ لوگ اسلام اورمسلمانوں کے حسن اخلاق سے متاثر ہوں گے اور آپسی فاصلہ کم ہوگا۔ رسولؐ کی زندگی لوگوں سے بات چیت، میل ملاپ، تعلق، ہر ایک کی خیر خواہی سے ہی عبارت ہے۔
رسولؐ نے امن فراہم کیا، خوشی و راحت میں شامل کیا اور حسن سلوک کا معاملہ کیا۔ پڑوسی ہونے کے ناطے ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا۔ کوئی چیز ہوئی تو ان کے گھر بھی بھیجی۔ صحابۂ کرامؓ نے بھی اس پر سختی سے عمل کیا۔ اس کی وجہ سے جھوٹ کے بجائے سچ کی اہمیت لوگوں نے جانی ، لوگوں کا کردار بنا، ان کے دل دماغ صاف ہوئے۔ نفرت کی جگہ محبت نے لے لی اور لوگوں کے دل ایک دوسرے کے لئے کھل گئے۔ اس چیز کی ضرورت آج بھی ہے۔ نبیلہ سید کا یہ جملہ ’ہم نے یہ دوڑ جیتی کیونکہ ہم اس گفتگو میں مصروف تھے‘ یہی بتا رہا ہے۔
([email protected])
عمیر کوٹی ندوی: مذاکرات اور افہام و تفہیم کی جیت
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS