ایم اے کنول جعفری: ای ڈبلیو ایس کوٹا پرکیوں ہے سپریم کورٹ کے فیصلے کی اہمیت؟

0
www.dnaindia.com

ایم اے کنول جعفری

ہندوستان میں ریزرویشن کی بحث کوئی نئی نہیں ہے۔ یہ آزادی کے پہلے بھی برقرار تھی اور آزادی کے بعد بھی جاری ہے۔ ایس سی ایس ٹی اور او بی سی کو 50 فیصد ریزرویشن کی مراعات پہلے سے حاصل ہیں۔ اب عدالت عظمیٰ نے 7 نومبر، 2022کو لیے اہم فیصلے میں اقتصادی طور پر کمزور اعلیٰ ذات کے لوگوں کے لیے بھی 10 فیصد ریزرویشن کے مرکزی سرکار کے فیصلے پر منظوری کی مہر لگا دی۔ اس سے ان کے معاشی اور اقتصادی حالات میں یقینی طور پر بہتری آئے گی۔
دلت اور پسماندہ طبقے کے لوگوں کو ہزاروں برس پہلے سے برے اور نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ غریب، پسماندہ، درج فہرست اور درج فہرست قبائل ذات سمیت دیگر کمزور طبقات کے تقریباً 85 فیصد عوام پر ملک کے 15 فیصد بااثر اعلیٰ طبقے کے لوگوں کی اجارہ داری رہی ہے۔ اقلیت میں ہونے کے باوجود انہوں نے نہ صرف عام لوگوں پر حکمرانی کی بلکہ پسماندہ، درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کے افراد کو ترقی کرنے اور اپنی موجودہ حالت میں بہتری کے مواقع میسر نہیں کرائے۔ نتیجے میں ان کا معیار زندگی پست سے پست تر ہوتا چلا گیا۔ ان لوگوں کے حالات زندگی میں تبدیلی اور بہتری لانے کے مقصد سے آزادی سے قبل ریزرویشن کی شروعات ہوئی۔ 1909 کے اوائل میں برطانوی حکومت نے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ میں ریزرویشن کے عناصر کو متعارف کرایا۔ اس کے تحفظات فطری طور پر سیاسی نشستوں پر تھے۔ معاشی تحفظات سیاسی تحفظات سے پہلے سے موجود تھے۔
برطانوی دور حکومت میں پسماندہ ذات کی تعریف برہمنوں اور دیگر اعلیٰ ذاتوں کے علاوہ ہر ایک کے طور پر کی گئی تھی۔ نچلی ذاتوں کے درمیان نہ تو کسی قسم کی تفریق تھی اور نہ ہی مذہب کی کوئی تقسیم تھی۔1921 میں مدراس پریزیڈنسی میں ہندو مذہب کے اعلیٰ ذات براہمن سے تعلق نہیں رکھنے والے اشخاص کے لیے کوٹا مختص کیا گیا۔ ریزرویشن کے نظام میں بڑی تبدیلی جون 1932 میں گول میز کانفرنس کے دوران آئی۔ برطانیہ کے وزیراعظم ریمسے میک ڈونالڈ نے کمیونل ایوارڈ کی تجویز پیش کی جس کے مطابق مسلمانوں، سکھوں اور ہندوستانیوں کو الگ الگ انتخابی نمائندگی دی جانی تھی۔ عیسائی، اینگلو انڈین اور یوروپی الگ تھے۔ ایس سی اور ایس ٹی سے مماثلت رکھنے والے نچلے طبقے کے لیے کئی نشستیں تفویض کی گئی تھیں تاکہ انہیں انتخابی حلقوں سے پر کیا جا سکے جن میں صرف وہ ووٹ ڈال سکتے تھے۔ ایس سی اور ایس ٹی کے ذریعے دوسری نشستوں اور انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی وجہ سے یہ حلقے مخصوص نہیں تھے۔ یہ تجویز متنازع ثابت ہوئی۔ مہاتما گاندھی نے ووٹنگ سے قوم کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے کے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے اس کے خلاف احتجاج کیا۔ ڈاکٹر بھیم راؤ آمبیڈ کر نے گاندھی جی کے نظریے کے خلاف تجویز کی حمایت کی۔ بعد میں دونوںکے مابین ہوئے معاہدے میں طے پایا کہ ایک ہندو ووٹر ہو جس میں دلتوں کے لیے نشستیں محفوظ ہوں۔ آزادی کے بعد ریزرویشن کا پورا نظام بدل گیا۔
1950 میں ہندوستان کا آئین منظور کیا گیا۔ آئین ساز کمیٹی کے اراکین نے اس جانب توجہ کی اور درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کے لوگوں کی صورت حال میں خاطرخواہ تبدیلی لانے اور ان کا معیار زندگی اونچا کرنے کے بارے میں ریزرویشن کا اہم فیصلہ لیا لیکن مسلمانوں کو خصوصی تحفظات دینے کی برطانوی پالیسی کو مسترد کر دیا۔ تعلیم، انتخابات، دفاع، سرکاری و نیم سرکاری خدمات اور کئی دیگر اداروں میں مناسب نمائندگی نہیں رکھنے والے درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل سے سماجی اور تعلیمی پسماندگی دور کرنے کے لیے ایک مقررہ وقت کے لیے کوٹا مختص کیا گیا۔ یہ ریزرویشن 10 برس کے لیے تھا لیکن حالات میں امید افزا بہتری سامنے نہیں آنے کی وجہ سے اتنی ہی مدت کے لیے ریزرویشن میں مزید اضافہ کیا گیا۔
1979 میں دلتوں اور قبائلی لوگوں کے حالات و معیار کا اندازہ کرنے کے مقصد سے منڈل کمیشن کی تشکیل کی گئی۔ منڈل کمیشن نے درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کے علاوہ دیگر پسماندہ طبقے کے لیے بھی ریزرویشن کی سفارش کی۔ وزیر اعظم وشوناتھ پرتاپ سنگھ کی حکومت نے منڈل کمیشن کی سفارشات کو منظور کرتے ہوئے جب انہیں نافذ کرنے کی کوشش کی تو ملک بھر میں اس کی زبردست مخالفت کی گئی۔ فی الوقت دلتوں اور قبائل کے لیے سرکاری تعلیمی اداروں میں22 فیصد سیٹیں مخصوص ہیں۔ حکومت نے پسماندہ طبقے کے لیے سرکاری تعلیمی اداروں میں 27 فیصد ریزرویشن دینے کی تجویز پیش کی ہے جس پر حکومت کو کئی حلقوں سے مخالفت کا سامنا ہے۔ دوسری جانب سچر کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں مسلمانوں کی حالت کو دلتوں سے بھی بدتر بتاتے ہوئے انہیں ریزرویشن دیے جانے کی سفارش کی ہے۔ رپورٹ کے بعد بحث کا چھڑنا لازمی تھا۔ بعض مسلم رہنما آئین میں ترمیم کرکے دلت مسلمانوں کے لیے کوٹا مختص کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں جبکہ بعض حلقوں کی جانب سے مسلمانوں کے لیے الگ سے کوٹا مخصوص کیے جانے کی بات کہی جا رہی ہے۔ پسماندہ مسلم محاذ کے بانی اور ایوان بالا کے رکن علی انور الگ سے ریزرویشن دینے کی مخالفت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جن لوگوں نے اس ملک پر چھ سو برس تک حکومت کی، انہیں منڈل کمیشن کی سفارش میںکس طرح شامل کیا جا سکتا ہے؟ مسلمانوں کے ریزرویشن کا مطالبہ ہندو اور مسلمانوں میں موجود فرقہ پرست طاقتیں کر رہی ہیں۔ دوسری جانب جمعیۃ العلماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی دلت مسلمانوں کے لیے ریزرویشن کی حمایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ مسلمانوں کی معاشی اور اقتصادی ترقی کے لیے کافی فائدہ مند ہو گا۔
ملک پر چھ سو برس حکومت کرنے کے زعم یا خوش فہمی میں رہنا کہاں کی عقلمندی ہے؟ بغلیں جھانکنے والے لیڈران کو سو چنا چاہیے کہ یہ کہاں تک مناسب ہے کہ ایک پیشہ اختیار کرنے والے ہندوتو ریزرویشن کا فائدہ اٹھائیں اور وہی پیشہ اختیار کرنے والے مسلمان اس رعایت سے محروم رہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ سناتن دھرم سے تعلق رکھنے والے درج فہرست ذات کے لوگ تو ریزرویشن سے فیض یاب ہو رہے ہیں لیکن اسی زمرے میں آنے والے مسلمانوں کو ریزرویشن کا فائدہ نہیں مل رہا ہے۔ مثال کے طور پر گندگی، کو ڑا اٹھانے و صفائی کرنے والے ہندو بھنگی اور اسی طرح دوسروں کے میلے کچیلے کپڑے دھونے و صاف کرنے والے ہندو دھوبی کو تو ریزرویشن کے زمرے میں رکھا گیا ہے لیکن یہی کام کرنے والے مسلمان حلال خور اور مسلمان دھوبی ریزرویشن کی مراعات سے قطعی محروم ہیں۔ اکثریتی طبقے کے لوگ ریزرویشن سے مسلسل فائدہ اٹھا رہے ہیں جبکہ اقلیتی طبقے کے افراد ر محض دیگر پسماندہ طبقات(او بی سی) کے تحت معمولی فیض حاصل کر پا رہے ہیں۔مسلمانوں میں ریزرویشن کو لے کر جب تب بحث چلتی رہتی یا چلائی جاتی رہتی ہے۔ کتنے ہی لوگ سیاسی شعبدہ باز اور پینترے باز رہنماؤں کے آلہ کار بن کر بے مطلب کی لفاظی کرتے اور گال پھلاتے رہتے ہیں لیکن سوت نہ کپاس اور کپڑا بننے والے سے لٹھم لٹھا کی قواعد سے کچھ بھی حاصل ہونے والا نہیں ہے۔n
(مضمون نگار سینئر صحافی اور ادیب ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS