ڈاکٹرمحمدسعیداللہ ندوی
بلا شبہ اولاداللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ نہایت ہی قیمتی نعمتوں میں سے ایک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اولاد کے وجود کو دنیاوی زندگی میں زینت اور رونق سے تعبیرکیاجاتاہے لیکن یہ اولاد زینت وکمال کاسبب اسی وقت بن سکتی ہے جب اس کی تعلیم و تربیت اسلامی طرز پر کی جائے ،زیورتعلیم سے انہیں آراستہ کیاجائے ،بچپن ہی سے ان کی صحیح نشوونما کا خیال رکھاجائے ، نیز اسلامی وایمانی ماحول انہیں فراہم کرنے کا خاص طور پر اہتمام کیاجائے۔اللہ تعالیٰ نے والدین پر اولاد کے سلسلہ میں جو حقوق عائد کیے ہیں ان میں سب سے اہم اور مقدم حق ان کی دینی تعلیم وتربیت ہے۔اسلام عصری تعلیم کا ہرگز مخالف نہیں لیکن دین کی بنیادی تعلیم کو لازمی اور ضروری سمجھتا ہے تاکہ انسان اپنے پیدا ہونے کے مقصد کو پہچان سکے اور اسی پر اخروی فلاح وکامیابی کا مدار ہے۔
دین وایمان کا تحفظ اسی وقت ممکن ہے جب اس کے متاع گراں مایہ ہونے کا احساس دل میں پیوست ہو،اگر کوئی دین وایمان کو معمولی چیز سمجھتاہے تو پھر اس سے خاتمہ بالخیر کی توقع رکھنا بھی مشکل ہے۔اس کا اندازہ حضرت یعقوبؑ کی اُس فکر سے باآسانی لگایاجاسکتاہے جس نے اُنہیں بستر مرگ پر بھی بے چین کر رکھا تھا بالآخر آپ نے اپنی اولاد کو بلا کر یہ سوال کیا کہ میرے بعد تم لوگ کس کی عبادت کرو گے ؟بیٹوں نے اطمینان دلاتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کے بعد اسی معبود حقیقی کی عبادت کریں گے جس کی آپ اور آپ کے آباء واجداد سیدنا ابراہیم و اسماعیل اور سیدنا اسحاق عبادت کرتے تھے۔ قرآن میں اس طرح اس کی منظر کشی کی گئی کیا تم اس وقت موجود تھے جب یعقوبؑ کی موت کا وقت آیا تھا ،جب انہوں نے اپنے بیٹوں سے کہا تھا کہ تم میرے بعد کس کی عبادت کرو گے ؟ان سب نے کہا کہ ہم اسی ایک خداکی عبادت کریں گے جو آپ کا معبود ہے اور آپ کے آباواجداد ابراہیم ؑ، اسماعیل ؑاور اسحاقؑ کا معبودہے اور ہم صرف اسی کے فرماں بردار ہیں۔(البقرہ :133)
اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف کے ایک اور مقام پر جماعت مومنین کو یہ توجہ دلائی ہے کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت کیلئے اُس کے حضور دعائیں کرتے رہا کریں۔ جیسا کہ فرمایا’’اور میرے لئے میری ذریت کی بھی اصلاح کردے۔ یقیناًمیں تیری ہی طرف رجوع کرتا ہوں اور بلاشبہ میں فرمانبرداروں میں سے ہوں۔‘‘
موجودہ دور میں ہر طرف فسق و فجور اور معصیت کا بازار گرم ہے یہاں تک کہ اسلامی معاشروں میں بھی لادینیت اور اخلاقی بے راہ روی عام ہو رہی ہے جبکہ مغربی معاشرے میں دین نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی اور سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت نام نہاد سیکولر ذہنیت کے حاملین مغربی تہذیب کی اندھی تقلید میں مصروف ہیں جس کی وجہ سے سماج و معاشرہ سے اخلاقیات کا جنازہ نکل رہا ہے ایسے معاشرے میں زندگی گزارتے ہوئے والدین کی ذمہ داری میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت کی طرف مکمل توجہ دیں اور ڈر ہے کہ نوجوان نسل دین سے دور ہو جائے گی اور سماج و معاشرہ پر اس کے بڑے خطرناک اثرات مرتب ہو گے اس لئے والدین کو بہت چوکس رہ کر بچوں کی تربیت کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ نئی نسل کوسماج ومعاشرہ کے لئے کارآمد بنا یا جا سکے ۔آج کل الیکٹرانک، پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعہ اچھی بری معلومات ہر چھوٹے بڑے کی دسترس میں ہیں جس سے بچوں کے ذہن پراگندہ ہورہے ہیں۔ بچپن میں چونکہ انسانی ذہن ہر بات کو جلد قبول کر لینے کے عادی ہوتے ہیں اس لیے بچے غلط باتوں کو بھی قبول کرنے کیلئے جلد آمادہ ہوجاتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ بچوں کے ذہنوں میں اس آلودہ ماحول کے اثر کو جلد جلد زائل کرنے کی کوشش کی جائے۔ اگر پیار اور محبت کے ساتھ اچھی نصیحت باربار اُن کے کانوں میں پڑتی رہے گی تو وہ ماحول کی بری عادتوں سے محفوظ ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا بچوں کو موجودہ دَور کے فتنوں سے محفوظ رکھنا والدین کی بنیادی ذمہ داری ہے ۔
۱- وہ والدین جو اپنی اولاد کو صرف عصری علوم کے حوالے کردیتے ہیں ،ان کی دینی تعلیم وتربیت کی طرف یا تو بالکل توجہ نہیں کرتے یا معمولی سی توجہ کو کافی اور مفیدتصور کرتے ہیں جبکہ ہونا یہ چاہئے کہ جس قدر وہ اپنی اولاد کے لئے عصری علوم کو ضروری سمجھتے اسی قدر دینی تعلیم و تربیت کو بھی اہمیت دیں تاکہ فتنوں کے اس دور میں الحاد وارتداد کی کوئی لپیٹ انہیں متاع ایمان سے محروم نہ کر دے۔
۲-وہ والدین جو اپنی اولاد کو صرف دینی تعلیم کیلئے وقف کردیتے ہیں اور انہیں دانستہ یا نادانستہ طور پر بنیادی عصری تعلیم سے بھی نابلد رکھتے ہیں۔ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ بدلتے حالات کے پیش نظر بہ قدر ضرورت عصری علوم سے واقف کرانے کا اہتمام کریں تاکہ مستقبل میں ان کی اولاد کسی بھی موقع پر دوسروں کی محتاج نہ رہے۔
۳-وہ والدین جواپنی اولاد کو عصری اور دینی علوم سے وافر حصہ عطاکرتے ہیں اور اسلامی تربیت کے ذریعہ ان کواچھی طرح آراستہ کرتے ہیں۔وہ قابل صد مبارک باد ہیں ،انہیں اپنے اس نظام کو فروغ دینے اور معاشرہ میں اسے عام کرنے کی سعی و فکر کرنا چاہیے۔
۴-وہ والدین جو معاشی مجبوری یا دیگرمعقول و نامعقول اسباب کی بناء پر اولاد کے روشن مستقبل کا سودا کرتے ہیں اور انہیں اپنے ہی کسی پیشہ سے وابستہ کردیتے ہیں۔انہیں سنجیدگی کے ساتھ اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ ان کا یہ عمل اولاد کے مستقبل کے لیے سم قاتل اور زہر ہلاہل سے کم نہیں ۔
الحاصل تربیت کا مسئلہ بڑا نازک ہوتا ہے، اس کے کچھ ضابطے، قوانین مقرر نہیں کہ ان کو سامنے رکھ کر تربیت کی جاتی رہے، بلکہ تربیت کے طریقے، احوال ومواقع نفسیات وجذبات اور خیالات کے لحاظ سے بدلتے رہتے ہیں، جتنے بچے والدین کی زیرتربیت ہیں، یا جس قدر طلباء یا مریدین استاذ وشیخ کے یہاں حلقہ بگوش ہیں ہر ایک کے مزاج وعمر کے لحاظ سے تربیت کرنا لازم ہے، سب کو ایک لکڑی سے نہ ہانکا جائے۔ محسن انسانیت کی باب تربیت میں جو تعلیمات ہیں اور آپؐ کے جانثار صحابہ کرامؓ کی تربیت کا عملی نمونہ مربی حضرات کے لئے مشعل راہ ہیں، طریق نبوی کے مطابق جو تربیت کی جائے گی بلاشبہ وہ باعث خیروبرکت ہوگی۔
نئی نسل کسی بھی قوم،سوسائٹی اور معاشرے کی بنیاد ہوتے ہیں، ان کی اصلاح پر سماج معاشرے کی اصلاح منحصر ہوتی ہے۔ ہر دور کے اندر زندہ جاوید قوموں نے اپنی نئی نسل کی تعلیم و تربیت اور نشوونما کو اپنی قومی، تہذیبی زندگی میں اہم جگہ دی ہے۔ جب بھی کسی قوم نے اپنی نئی نسل کی تربیت سے غفلت، بے توجہی اور لاپرواہی برتی ہے انجام اس کا اچھا نہیں ہوا ہے۔
ڈاکٹرمحمدسعیداللہ ندوی: نئی نسل کی بہتر تربیت معاشرہ کی اہم ضرورت
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS