دانش اختر ندوی ملارنوی
خوشی اور غم انسانی زندگی کے دو اہم جزء ہیں، ہر انسان کو زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر ان دو چیزوں سے واسطہ پڑتا ہے، کبھی دن کی ابتدا خوشی سے ہوتی ہے تو انتہاء غم پر رات کی تاریکی ان تمام خوشیوں کو ذبح کر دیتی ہے، کبھی آسمان پر خوشی کے سفید و صاف بادل نظر آتے ہیں لیکن وہ بادل سیاہ ہوکر خوشی کے خاتمے کا اعلان کرتے ہیں، بعض لوگ خوشی کی بارش سے خوب سیراب ہوتے ہیں لیکن اچانک غم کا سیلاب اس خوشی کو تباہ و برباد کر دیتا ہے، اسی طرح بعض لوگ اولاد کی نعمت کو پاکر خوش وخرم نظر آتے ہیں تو بعض لوگ اس نعمت سے محرومی کے سبب غمگین اور افسردہ دکھائی دیتے ہیں، اور بعض والدین تو بیٹے کی پیدائش پر خوش وخرم نظر آتے ہیں لیکن بیٹی کی پیدائش پر پریشان اور غمزدہ معلوم ہوتے ہیں ، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی خوشی اور غم کا مالک و خالق صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے، اسی طرح لڑکے اور لڑکی کی تقسیم کا مالک بھی اللہ تعالیٰ ہی ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں ارشاد فرمایا’ آسمان اور زمین کی سلطنت صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ہے، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، جس کو چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے، اور جسے چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے اور بیٹیاں دونوں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بانجھ کردیتا ہے، وہ بڑے علم والا اور کامل قدرت والا ہے‘بیٹی کی پیدائش پر ناراضگی زمانہ جاہلیت کی عادت ہے،زمانہ جاہلیت کی بہت سی بری عادتوں میں سے ایک بری عادت یہ بھی تھی کہ اس زمانے میں عورت کو منحوس سمجھا جاتا تھا اور اس کے پیدا ہوتے ہی اسے زندہ دفن کردیا جاتا تھا، اور ایک زندہ روح کو زمین کے حوالے کر دیا جاتا تھا، لیکن اسلام کی آمد پر صرف اس بری عادت پر بندش ہی نہیں لگی بلکہ لڑکی کی پیدائش کو بابرکت قرار دیا گیا، اس کی پرورش کو باعث ثواب بتلایا گیا، اسے عزت و احترام کا تحفہ دیا گیا، اور اس کی توہین کو ناپسند کیا گیا، لیکن افسوس زمانہ جاہلیت سے صدیوں دوری کے باوجود آج بھی بیٹی کی پیدائش پر باپ کا سر شرم سے جھک جاتا ہے، ایک ماں کو صرف اس لئے ذلیل کیا جاتا ہے کہ اس نے بیٹی کو جنم دیا ہے،ایک بیوی اپنے شوہر کے طعنوں کے تیروں کی شکار صرف اس لئے بنتی ہے کہ اس نے نو مہینے تک اس کے نطفے کے بوجھ کو بیٹی کی شکل میں اٹھاکر ساری تکلیفوں کو برداشت کیا، یہ سب چیزیں اس ترقی یافتہ دور میں زمانہ جاہلیت کی بہترین نمائندگی اور عکاسی کر رہی ہیں،جو بالکل نامناسب اور نا زیبا حرکتیں ہیں، جو خدا اور رسولؐ کے فیصلے سے کھلی بغاوت ہے، اور اگر بالفرض بیٹی کی پیدائش منحوسیت کی علامت ہوتی تو یقیناً اللّٰہ تعالیٰ اپنے پیارے حبیبؐ کو بیٹیوں کی نحوست سے محفوظ رکھتا، لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کو چار بیٹیاں عطا فرمائ تھیں اور آپؐ کی بیٹیوں نے اپنے والد سے ایسی پرورش پائی جو پوری انسانیت کے لئے نمونہ ہے ، اور جس کی نظیر پیش کرنے سے دنیا عاجز وقاصر ہے،اسلئے گھر میں لڑکی کے پیدا ہونے کو مصیبت اور ذلت سمجھنا کسی طرح سے جائز نہیں، اور دین اسلام میں جس کو محمد ؐ لے کر آئے ہیں اس طرح کے واہیات نظریات کی کوئی گنجائش نہیں ہے،بلکہ علماء نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ اگر گھر میں لڑکی پیدا ہو تو زیادہ خوشی کا اظہار کرنا چاہیے ، حضرت محمدؐ کے ایک صحابی حضرت واثلہ ابن الاسقعؓ فرماتے ہیں کہ وہ عورت بابرکت اور خوش نصیب ہے جس کی پہلی اولاد لڑکی ہو،(الدیلمی) أم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کے پاس ایک نہایت غریب عورت کچھ مانگنے کیلئے آئی ،اس کے ساتھ اس کی دو لڑکیاں بھی تھیں،اتفاق سے حضرت عائشہ صدیقہؓ کے پاس صرف ایک کھجور تھی،آپ فرماتی ہیں میں نے وہی کھجور اس عورت کو دے دی،اس نے اسی ایک کجھور کے دو ٹکڑے کئے اور دونوں لڑکیوں میں تقسیم کر دئیے اور خود اس میں کچھ نہیں کھایا اور چلی گئی،أم المؤمنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ کچھ دیر کے بعد اللہ کے رسول ؐگھر تشریف لائے تو میں نے آپ سے یہ واقعہ بیان کیا ،اس پر آپؐ نے فرمایا کہ جس بندے یا بندی پر بیٹیوں کی ذمےداری ڈالی گئی اور اس نے اس ذمہ داری کو ادا کیا اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا تو یہ بیٹیاں آخرت میں انکی نجات کا سامان بنیں گی، مطلب یہ ہے کہ اگر آدمی بالفرض اپنے گناہوں کی وجہ سے سزا اور عذاب کا مستحق ہوگا تو لڑکیوں کے ساتھ حسن سلوک کی وجہ سے اس کی مغفرت کردی جائے گی۔
حضرت ابو سعید خدریؓفرماتے ہیں کہ اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں یا دو بیٹیاں اور دو بہنیں ہوں اور اس نے ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا اور ان کے حقوق کی ادائیگی میں اللہ سے ڈرتا رہا تو اس کے لئے جنت ہے اچھا سلوک اور اللہ سے ڈرنے کا مطلب یہ ہے کہ ابتدا سے انتہا تک ان کی تمام ضرورتوں کو پورا کرے،اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ بیٹیوں کے ساتھ حسن سلوک اللہ کو اتنا پسند ہے کہ اس کے مقابلے میں گناہوں کے ڈھیر بھی قیامت کے دن ہلکے پڑجائیں گے اور معاف ہو جائیں گے اور بیٹیوں کے ساتھ حسن سلوک اور ضروریات زندگی کو پورا کرنے میں لڑکوں لڑکیوں پر ترجیح نہ دینا جہنم سے دوری اور رسول اللہؐ کے قریب جنت میں رہنے کا ذریعہ ہے،اللہ اور اس کے رسولؐ نے بیٹیوں کو جو مرتبہ عطا کیا ہے،اور ان کے متعلق جو ہدایات دی ہیں،اسی کے مطابق ان کے ساتھ حسن سلوک کریں ، بیٹا یا بیٹی جو بھی اللہ نے دیا ہے اس کی تقسیم پر دل و جان سے راضی رہیں ،اور اللہ کی دی ہوئی نعمت پر اس کا شکر ادا کریں تاکہ نعمتوں میں مزید اضافہ ہوسکے ،بیٹے اور بیٹیوں کے درمیان امتیازی سلوک نہ کریں ،انکی دینی تعلیم اور اخلاقی تربیت کابھی خاص خیال رکھیں ،دینی اور پاکیزہ ماحول فراہم کریں،ایسی تعلیم اور ایسا ماحول فراہم نہ کریں جس کے نتیجے میں انکے اخلاق برباد ہو جائیں ،بیٹیوں کو اپنی مغفرت اور نجات کا سامان ،جنت اور آخرت میں حضورؐ کے قرب کا ذریعہ سمجھتے ہوئے ان کی اچھی پرورش اور اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔
دانش اختر ندوی ملارنوی: بیٹیاں رحمت ِ خداوندی ہوتی ہیں
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS