ہماچل پردیش اسمبلی انتخابات

0

ہماچل پردیش اسمبلی الیکشن کے لیے آج لوگوںنے ووٹ ڈالے اور اب نتائج کے لیے تقریباً ایک ماہ انتظار کرنا پڑے گا۔ 8 دسمبر، 2022 کو انتخابی نتائج کا اعلان کیا جائے گا۔ اسی دن گجرات اسمبلی الیکشن کے انتخابی نتائج کا بھی اعلان کیا جائے گا جبکہ گجرات میں انتخابات دو مرحلے میں ہوں گے۔ پہلے مرحلے کے لیے یکم دسمبر کو اور دوسرے مرحلے کے لیے 5 دسمبر کو ووٹ ڈالے جائیں گے۔ ایک طرف الیکشن کمشنریہ کہتے ہیں کہ ’ایک ساتھ انتخابات کرانے کے لیے الیکشن کمیشن پوری طرح تیار ہے۔‘ اور دوسری طرف ہماچل پردیش اسمبلی الیکشن کے تقریباً ایک ماہ بعد نتائج آئیں گے۔ ایسی صورت میں یہ سوال فطری طور پر پیدا ہوتا ہے کہ کیا گجرات کے مقابلے ہماچل پردیش میں انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کے لیے زیادہ مشکل تھا یا کسی وجہ سے گجرات اسمبلی الیکشن کی تاریخوں کے اعلان میں تاخیر ہوگئی مگر دونوں ریاستوں کے انتخابی نتائج کا اعلان وہ ایک ساتھ کرنا چاہتا ہے؟
ہماچل پردیش اسمبلی انتخابات کے لیے آج شام 5 بجے تک 65.92 فیصد ووٹ ڈالے گئے۔ سب سے زیادہ سرمور ضلع میں 72.35 فیصد اور کنور میں سب سے کم 62 فیصد ووٹ ڈالے جانے کی خبر ہے۔ 68 سیٹوں کے لیے ایک ہی مرحلے میں ہوئے اسمبلی انتخابات کے لیے 412 امیدوار میدان میں ہیں۔ ہماچل پردیش میں بی جے پی کی حکومت ہے، اسے امید ہے کہ دوبارہ حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے گی اور وہ ایک نئی روایت شروع کرے گی مگر کانگریس کو امید یہ ہے کہ حکومت اس کی بنے گی اور ہماچل پردیش کے لوگ اس روایت کو قائم رکھیں گے جو گزشتہ کئی اسمبلی انتخابات سے قائم رکھے ہوئے ہیں یعنی ایک بار وہ بی جے پی کو موقع دیتے ہیں اوردوسری بار کانگریس کو۔ 2017 کے ہماچل پردیش اسمبلی انتخابات کی اگر بات کی جائے تو 2012 کے اسمبلی الیکشن کے مقابلے کانگریس کو 1.11 فیصد ہی کم ووٹ ملے تھے۔ اس کے باوجود اسے 15 سیٹوں کا نقصان ہوا تھا اور انتخابی نتائج نے یہ اشارہ دے دیا تھا کہ ہماچل پردیش کے اسمبلی انتخابات میں ایک ڈیڑھ فیصد ووٹ کے کم یا زیادہ ہوجانے سے حکومت سازی پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ 2017 میں حکومت سازی کے لیے کانگریس کو 35 سیٹوں کی ضرورت تھی مگر اسے 21 سیٹوں پرہی اکتفا کرنا پڑا تھا جبکہ بی جے پی کے ووٹوں میں 10.33 فیصد کا اضافہ ہوا تھا۔ وہ 2012 کے اسمبلی الیکشن کے مقابلے 18 سیٹیں زیادہ جیتنے میں کامیاب رہی تھی اور مجموعی طور پر 44 سیٹیں جیت کر بڑی آسانی سے حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی تھی لیکن کیا اس بار بھی بی جے پی کے لیے راہ اتنی ہی آسان ہوگی؟ اس سوال کا جواب دینا مشکل ہے۔ کوئی پارٹی اقتدار میں ہوتی ہے تو اسے اِنٹی اِن کمبینسی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے اور جہاں چناؤ ایشوز پر لڑے جائیں، صف بندی کے لیے ٹھوس جذباتی ایشو نہ ہو وہاں انتخابی لہرکو اپنے حق میں موڑ لینا آسان نہیں ہوتا۔ یہ ذکربے محل نہ ہوگا کہ ہماچل پردیش میں 95.17 فیصد ہندو جبکہ 2.18 فیصد مسلمان، 1.16 فیصد سکھ، 1.15 فیصد بدھسٹ، 0.18 فیصد عیسائی، 0.03 فیصد جین اور بقیہ دیگر عقائد کے ماننے والے لوگ ہیں اور یہ ریاست وطن عزیز ہندوستان کی ایک پرامن ریاست ہے۔
اسمبلی انتخابات کے دوران بی جے پی نے عام لوگوں سے جڑنے کے لیے انتخابی منشور بنانے کے لیے ان سے مشورے مانگے تو کانگریس نے اپنے انتخابی منشور میں 5 لاکھ روزگار، ہر کنبے کو 300 یونٹ تک فری بجلی، 18سال سے 60 سال تک کی خواتین کو 1500 روپے ماہانہ دینے اور فری موبائل کلینک قائم کرنے کا وعدہ کیا۔ اس نے کوالٹی ایجوکیشن کے لیے انگلش میڈیم اسکولوں کے قیام کی بات بھی کہی۔ کانگریس نے ہماچل پردیش میں اسی طرح پرانی پنشن اسکیم نافذ کرنے کا وعدہ کیا ہے جیسے راجستھان اور چھتیس گڑھ میں اس نے نافذ کیا ہے۔ عام آدمی پارٹی نے اپنے انتخابی منشور میں 6 لاکھ روزگار اور 3000 بے روزگاری بھتہ دینے، پرانی پنشن اسکیم نافذکرنے ، پیپر لیک کے خلاف قانون بنانے، دہلی کے محلہ کلینک کے طرز پر محلہ کلینک کھولنے کا وعدہ کیا ہے۔ اس نے یہ وعدہ بھی کیا ہے کہ دسویں تک وہ فری ایجوکیشن دے گی، جزوقتی اساتذہ کو مستقل کرے گی۔ اس نے اور بھی کئی وعدے کیے ہیں۔ انتخابی نتائج آنے کے بعد یہ اندازہ ہوگا کہ ووٹرس نے کس پارٹی کے حق میں زیادہ ووٹ دیے، کون سی پارٹی ووٹرس کا زیادہ اعتمادجیتنے میں کامیاب رہی۔ سب سے اطمینان کی بات یہ ہے کہ ووٹنگ پرامن طریقے سے ہوئی، کہیں کوئی بڑا مذموم واقعہ نہیں ہوا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS