ڈاکٹر اقتدار فاروقی
بیسویں صدی کی اہم شخصیات میں مولانا ابو الکلام آزاد کا نام بہت اہمیت کا حامل ہے۔ وہ صرف ہندوستان کے ایک اہم سیاسی لیڈراور دینی رہنما ہی نہیں تھے بلکہ ایک ایسے مفکرِ اسلام تھے جنہوں نے دنیائے اسلام کے عروج وزوال کا بہت گہرائی سے مطالعہ کیاتھا اور وہ جانتے تھے کہ مسلمانوں کازوال نتیجہ ہے ان کے اس غیر علمی کاموں کا جس میں وہ پچھلے چارسو سال سے الجھے ہوے ہیں ۔ اپنی تقریروںاور تحر یروںکے ذریعہ انہوں نے مسلمانوںکو باور کرانے کی کوشش کی تھی کہ زوال اسلامی کا سبب خود ان کا غیر اسلامی اور غیر عقلی رویہ ہے چنانچہ اپنی مشہور زمانہ تصنیف غبارِ خاطر میں وہ مسلمانوں کو اس طرح مخاطب کرتے ہیں:غفلت اور شرساری کی بہت سی راتیں بسر ہوچکی ہیں اب خدا کے لئے بستر مدہوشی سے سر اٹھاکر دیکھئے کہ آفتاب کہاںتک پہنچ چکا ہے آپ کے ہم سفر کہاں تک پہنچ گئے ہیں اور آپ کہاں پڑے ہوئے ہیں۔( غبارِ خاطر)
زوال اسلامی کی بابت ان کا خیال تھا کہ سولہویں صدی کے بعد علم کی بساط الٹ سی گئی اور مسلمانوں نے عیسائیوں کا غیر علمی طریقہ اپنانا شروع کردیا جب کہ یورپ کے عیسائیوں نے عہد وسطی کے اسلامی دور میں مسلمانوں کے عقلی رویہ کو اپنا نا شروع کردیا اوریہی وجہ بنی مسلمانوں کے زوال کی اور یورپ کے عروج کی۔اس حقیقت کا اظہار وہ یوں فرماتے ہیں: اب دونوں جماعتوں (مغرب اورمشرق) کے متضاد خصائص اسی طرح نمایاں تھے جس طرح صلیبی جنگ کے عہد میں رہے اور جو جگہ مسلمانوں کی تھی اسے اب یورپ نے اختیار کر لیاتھا۔ مولاناآزاد کا نظریہ تھا کہ عہد وسطی میں اسلامی عظمت کی وجہ صرف اور صرف یہ تھی کہ وہ علم ودانش کے علمبردار تھے جب کہ یورپ دعاوں کے ہتھیار سے لڑنا چاہتاتھا ۔مسلمان لوہے اور آگ کے ہتھیار سے لڑتے تھے ۔یورپ کا اعتمادصرف خدا پر تھا مسلمان کا خدا کی مدد پر بھی تھا لیکن خدا کے پیدا کئے ہوئے سرو سامان پر بھی تھا ۔ایک صرف روحانی قوتوں کا معتقد تھا دوسرا روحانی اور مادی دونوں کا ۔پہلے نے معجزوں کے ظہور کا انتظار کیا دوسرے نے نتائج عمل کے ظہور کا ۔ معجزے ظاہر نہیں ہوئے لیکن نتائج عمل نے ظاہر ہوکر فتح وشکست کا فیصلہ کرد یا۔
مولانا کے نقطہ نظر کے اعتبارسے بے عمل اور بے علم انسانوں کے لئے دعائیں ترک عمل کا حیلہ بن جاتی ہیں ۔اسی ترکِ عمل کی مثال دیتے ہوئے مولانا تحریر فرماتے ہیں انیسویں صدی کے اوائل میں جب روسیوں نے بخارا کا محاصرہ کیا تو امیر بخارا نے حکم دیا کہ تمام مدرسوں اور مسجدوںمیں ختم خواجگان پڑھاجائے۔ ادھر روسیوں کی قلعہ شکن توپیں شہر کا حصار کررہی تھیں ادھر لوگ ختم خواجگان کے حلقوںمیں بیٹھے یا مقلب القلوب ۔ یا محول الاحوال کے نعرے بلند کررہے تھے۔ آخر وہی نتیجہ ہوا جو ایک ایسے مقابلہ کا نکلناتھاجس میں ایک طرف گولہ بارود ہودوسری طرف ختم خواجگان۔ دعائیں ضرور فائدہ پہنچاتی ہیں مگر انہی کوجو عزم وہمت رکھتے ہیں۔ بے ہمتوں کے لئے وہ ترکِ عمل اور تعطل قوی کا حیلہ بن جاتی ہیں۔ مسلمانوں کے غیر عقلی عمل اور سبب زوال کی ایک اور مثال دیتے ہوئے مولانا رقم طرازہیں:1798 میں نپولین نے مصر پر حملہ کیا تھا اور مراد بک نے بجائے کسی عملی قدم اٹھانے کے دعا کاسہارا لیا اور بچاو کے لئے صحیح بخاری کا ختم شروع کروادیا لیکن ابھی صحیح بخاری کا ختم ختم نہیں ہوا تھاکہ اہرام کی لڑائی نے مصری حکومت کا خاتمہ کردیا ( غبارِ خاطر)۔مولانا آزاد نے اس واقعہ کا حوالہ شیخ عبد الرحمن الجبرتی کی تصنیفات سے دیا ہے جس میں انہوں نے زوال مصر کے چشم دید حالات قلمبند کئے ہیں۔خطبات آزاد(مرتب مالک رام،ساہتیہ اکادمی)میں مولانانے مسلمانوں کے عروج و زوال پرنہ صرف اپنا نظریہ پیش کیا ہے بلکہ ان دانشوروں کے بھی خیالات قلمبند کئے ہیں جو یا تو مسلمان تھے یا مسلمانوں کے ہمدرد سمجھے جاتے تھے مثال کے طور پر انہوں پروفیسر آرمین ویمبری کے نظریات کو بزی اہمیت دی ہے اور ان کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ پروفیسر ویمبری ہنگری کا رہنے والا تھا اور ترکوں کا بہی خوا تھا ۔اس نے مسلمانوں کے ساتھ زندگی کا بڑا حصہ گزارا لیکن آخر میں وہ زوال پذیرمسلمانوںکے رویہ سے سخت مایوس ہوا اور اپنے وطن واپس چلا گیا جہاں اس نے ایک مضمون میں ان خیالات کا اظہار کیا جس نے مولانا آزاد کو بہت تکلیف پہنچائی ۔1901 میں بڈا پسٹ ہیرالڈ(Budapest Herald) اخبار کے ایک شمارہ میں اس نے ایک مضمون کے ذریعہ اپنے تاثرات کا اظہار کچھ اس طرح کیا مسلمانوں کی حمایت سے اب کوئی فائدہ نہیں ۔ کیونکہ وہ ایک ایسی قوم ہے جس میں نہ تو طبیعت(علوم طبعیہ۔Physical Sciences, Materialism )کا وجود ہے اور نہ وہ طبیعت کو محسوس کرسکتے ہیں۔ دنیا میں کام کرنا ان کے بس کی بات نہیں ۔تمام انسانی حس وشعور ان سے سلب ہوچکے ہیں صرف ایک دینی جذبہ ان میں باقی ہے ۔نہ ان کا کوئی مسلک اور نہ کائنات میں کوئی مقصد۔ پس اب یورپ کے لئے یہی باقی رہ گیاہے کہ وہ اسلامی حکومتوں کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے بانٹ لیں ( خطبات آزاد)۔مولانا آزاد نے اس تحریر کو اپنے ایک خطبہ میں جگہ دی ہے اور فرمایا کہ مسلمانوں کی بابت اس کے ہمدرد کا اگریہ خیال ہے تو یورپ کے اسلام دشمن حکمراںکیا خیال رکھتے ہوں گے ۔