شاعر مشرق علامہ محمد اقبال_

0

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال_ ______________________

(اقبال کے یوم پیدائش 9 نومبر عالمی یوم اردو کے موقع پر خصوصی مضمون)

ڈاکٹر ایم عارف

کالی باغ_ بتیا

مغربی چمپارن,بہار__

رابطہ_ 7250283933 .

اقبال کی تاریخ پیدائش کا اختلاف تو ایک معلوم شدہ حقیقت ہے لیکن اکثر محققین اور ناقدین  اقبال نے ۳ ذوالقعدہ ؁۱۲۹۴  و نومبر 1877ءکو سیالکوٹ میں پیدا ہونے کا اعتراف کیا ہے ۔ اقبال کی پیدائش سے قبل آپ کے والد ایک ڈپٹی کے یہاں ملازم ہوگئے تھے جس پر ناجائز نذرانہ حاصل کرنے کا شک تھا۔ والدہ اقبال نے بطور خود حلف اٹھا لیا کہ ملازمت کی آمدنی سے کھانے پینے کی کوئی شئے نہ خریدیں گئی۔ چنانچہ اقبال کے دودھ پینے کے زمانے سے دس سال تک والد کی کمائی کے پیسہ سے خریدی ہوئی کوئی چیز اقبال کو نہ کھانے دی اور نہ خود کھای ۔یہاں تک کہ والد اقبال نے ڈپٹی کی ملازمت ترک کر دی۔

اقبال نے خود لکھا ہے “ایک مرتبہ ایک فقیر ہمارے دروازے پر آ کر ڈٹ گیا- میں نے اس کے سر پر ایک ضرب لگائی جو کچھ اس نے بھیک مانگ کر جمع کر رکھا تھا گر پڑا _یہ دیکھتے ہی والد تڑپ اٹھے ،آنکھیں نمناک ہو گیئں’ فرمایا قیامت کے دن امت کے غازی ،شہید ،عالم، زاھد، عاشق  ،جمع ہوں گے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے پوچھیں گے کہ ایک جوان مسلمان تیرے حوالے ہوا تھا جسے  میری تعلیم سے کچھ حاصل نہ ہوا_ تو مٹھی بھر خاک کو آدمیت کے اوصاف نہ سکھا سکا۔بتا میں کیا جواب دوں گا؟” اقبال ویسے والدین کی آغوش میں تربیت پائی اور اس تربیت سے ان کے خدا داد جوہر چمک اٹھے۔

مولانا میر حسن اقبال کے والد کے ہم محلہ اور عزیز دوست تھے _وہ پہلے مشن اسکول میں عربی اور فارسی کے استاد تھے_ پھر کالج کے پروفیسر بن گئے_ عربی اور فارسی میں اپنے عہد کے یگانہ عالم مانے جاتے تھے۔ اقبال کے جوہر قابل  دیکھ کر مولانا نے تعلیم و تربیت پر خاص توجہ فرمائی_ اقبال بھی اس تربیت سے پورا فائدہ اٹھایا_ جب اقبال کو “سر “کا خطاب دینے کا تجویز پاس ہوا تو اقبال نے  لینے سے انکار کرتے ہوئے حکومت پر زور دیا کہ جس شفیق استاد نے مجھے اس مقام تک پہنچایا پہلے  اس کو  خطاب دیا جائے چنانچہ حکومت نے اقبال کے استاد مولانا میر حسن کو  “شمس العلماء “کا خطاب دیا ۔فلسفہ کے استاد اقبال کے متعلق کہا کرتے تھے” ایسا  شاگرد استاد کا معیار فکر  بلند کرتا ہے۔”

اقبال بہت بڑے شاعر تھے وہ جتنے بڑے  شاعر تھے اس سے کہیں عظیم  تر فلسفی بھی تھے اس لیے ان کی اکثر شاعری میں بہت ہی گہرے فلسفیانہ خیالات کی ترجمان یہ ملتی ہے_ اقبال کو شاعری کا شوق بچپن ہی سے تھا ۔ ابتدائی تعلیمی دور سے تمام شاعروں کی طرح غزل پر ہی طبع آزمائی کرنے لگے تھے_ شعر گوئی کے زمانے میں داغ کی شاعری کا تمام ہندوستان میں چرچا تھا _اقبال نے خط و کتابت کے ذریعے داغ دہلوی سے اصلاح لینا شروع کی _لیکن داغ نے جلد کہ دیا  کہ کلام میں اصلاح کی گنجائش بہت کم ہے_ اور یہ سلسلہ بہت دیر تک قائم نہیں رہا ۔ البتہ اس کی یادیں دونوں طرف رہ گئی _ داغ کو اس بات کا فخر تھا کہ اقبال بھی ان لوگوں میں شامل ہے جن کے کلام کا اصلاح میں نے کیا۔ اقبال نے اپنے دوستوں کے اصرار پر ایک مشاعرے کی ایک مجلس میں طرحی غزل پڑھی _اور جب یہ شعر پڑھا_عہ

موتی سمجھ کر شان کریمی نے چن لیے

قطرے جو تھے میرے عرق انفعال کے _

اس شعر پر  سامعین تڑپ اٹھے جتنے اساتذہ سخن تھے حیرت زدہ رہ گئے۔اور اکثر نے اقبال کی اقبال مندی کی پیشن گوئی بھی کی۔

جب احباب کے اصرار پر اقبال نے انجمن حمایت اسلام کے لئے نظم، ،نالہ یتیم “۲۴ فروری ۱۹۰۰ءکو پہلی بار انجمن کے اجلاس میں نماز عصر کے بعد پڑھی۔اپنے اچھوتے انداز اور کمال سوز و اثر کے باعث اس قدر مقبول ہوئی کہ اجلاس میں یتیموں کے امداد کے لئے روپیوں کی بارش ہونے لگی، آنسوؤں کے دریا بہ گئے، نظم کی ایک ایک مطبوعہ کاپی چار چار روپے میں فروخت ہوئ۔صدر اجلاس شمس العلماء مولانا نذیر احمد نے فرمایا، اگر چہ میں نے دبیر اور انیس کی بہت سی نظمیں سنی ہیں مگر واقعی ایسی دل شگاف نظم کبھی نہیں سنی ” پھر تو اقبال کی نظمیں انجمن کے سالانہ جلسوں کی ایک امتیازی خصوصیت بن گیئں، چنانچہ نالہ یتیم، یتیم کا خطاب، ہلال عید، شکوہ، فریاد امت، اسی انجمن کی یادگار ہیں۔ان چھوٹی چھوٹی نظموں نے لوگوں کے دلوں میں بڑی جگہ پیدا کرلی،قوم نے اقبال کو اور اقبال نے قوم کو پہچان لیا_۔اسلام کی گرتی ہوئی حالت کو سنبھالنے کے لئے لوگوں کی نظر انتخاب اس ہونہار شاعر پر پڑی۔جس کے درد مند دل نے اپنی شاعری کو ایک نسخہ کیمیا بنا کر مسلمانوں کی معاشرتی اور اخلاقی بیماریوں کو دور کرنے کے لئے پیش کیا۔وہ ہندوستان کو یورپ کی کورانہ تقلید سے بچا کر مادہ پرستی کی بجائے خدا پرستی کی طرف لے جانا چاہتے تھے۔اقبال کا پیام عمل ہے۔نا امید ہوکر بیٹھ جانے والوں کو وہ برادرانہ شفقت کے ساتھ امید دلا کر پھر میدان عمل میں کھڑا کر دیتے ہیں۔عہ

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی

یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

یقین محکم ،عمل پیہم، محبت فاتح عالم

جہاد زندگانی میں یہ ہیں مردوں کی شمشیریں

شاعر مشرق کی شاعری کی بے شمار خوبیاں اور بے شمار خصوصیات ہیں_ لیکن میرے خیال میں ان کی سب سے نمایاں خصوصیات یہی ہے_ جس کی طرف انہوں نے خود اپنے ان شعروں میں اشارہ کیا ہے۔عہ

خون دل و جگر سے ہے میری نوا کی پرورش

ہے رگ ساز میں رواں صاحب ساز کا لہو  _

جھپٹنا, پلٹنا, پلٹ کر جھپٹنا

لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ_

تو شاہین ہے پرواز ہے کام تیرا

تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں  _

اقبال ایک پیامی شاعر تھے۔ان کے پاس ایک پیام تھا۔ایک نصب العین تھا۔اسلام اور قرآن ان کا آیئڈیل تھا۔جس کو اپنی پوری شاعری میں وہ دنیا کے سامنے رکھنا چاہتے تھے۔کیونکہ انہوں نے مسلمانوں کی حالت کو محسوس کیا۔ان کی زبوں حالی کے اسباب کو سمجھنے کی کوشش کی۔اسلامی روایات کی عظمت اور بلندی کو اپنے پیش نظر رکھا اور پھر اس طرح کے خیالات پیدا کئے کہ مسلمان انحطاط اور زوال کے چکر سے باہر نکل سکتے ہیں لیکن اس کے لئے عمل کی ضرورت ہے۔اقبال کے نزدیک یہی فنون لطیفہ کا مقصد ہے۔اقبال کی شاعری کا مقصد اخلاقی اور روحانی پیام ہے۔ان کا فلسفہ محض فلسفہ نہیں_ بلکہ زندگی کی حقیقتیں ہیں ۔چند اشعار ارشاد ہو _ عہ

زندگی کچھ اور شئے ہے، علم ہے کچھ اور شئے

زندگی سوز جگر ہے علم ہے سوز دماغ _

زندگانی جس کو کہتے ہیں فراموشی ہے یہ

خواب ہے ,غفلت ہے, سرمستی ہے, بیہوشی ہے یہ _

آدمی کو زندگی سے درس لینا چاہیے

اپنے احساسات کو دھوکہ نہ دینا چاہیے _

علم میں دولت بھی ہے_ قدرت بھی ہے, لذت بھی ہے

ایک مشکل ہے کہ ہاتھ آتا نہیں اپنا سراغ _

بھری بزم میں راز کی بات کہ دی

بڑا بے ادب ہوں ،سزا چاہتا ہوں _

تیرے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا

یہاں مرنے کی پابندی وہاں جینے کی پابندی _

اس طرح سے بے شمار اشعار ہیں_ جس میں نئ معنویت ہے، نیا احساس ہے۔نئ آواز ہے۔نئ علامتیں بھی ہیں اور نئے اشارے بھی_

۔اقبال عورت کے موضوع پر ایک سوال، عورت کی حفاظت, آزادی نسواں’ عورت اور تعلیم ، پردہ اور عورت نظم میں خواتین کے تمام مسائل پر سنجیدگی سے غور کیا اور بتایاصنف نازک حضرت انسان کی صرف تفریح کا ذریعہ ہی نہیں، بلکہ قوموں اور ملتوں کی تعمیر میں اس سے بڑے بڑے کام لیے جا سکتے ہیں۔قوم و ملت کے مردوں کا یہ اولین فرض ہے کہ وہ اپنی عورتوں کی حفاظت کریں۔نسوانیت عورت کا جوہر ہے۔نسوانیت ختم ہوتے ہی گویا اس کی موت آجاتی ہے۔اس کے بعد عورت جو کچھ بھی رہے لیکن عورت نہیں رہتی۔وہ ایسی تعلیم کے سخت مخالف رہے جو عورت کو مرد بنانے کے لئے اکساتی ہے۔اور نسوانیت کا گلا گھونٹ کر مار دینے کا پیغام دیتی ہے۔اقبال عورت کو ایسی تعلیم دینا چاہتے ہیں جس سے نسوانیت محفوظ ہو، وہ دین سے بے گانہ نہ ہوں۔

یورپ نے اپنی عورت کو تعلیم دی اور ایسی تعلیم دی جس نے اس کی تمام خوبیوں پر پانی پھیر کر رکھ دیا۔اور وہ صحیح معنوں میں عورت نہ رہی۔وہاں کی عورتوں نے مرد بننے کی تمنا میں وہ کچھ کیا جو انسانیت کے خوش نما چہرے پر بدنماداغ ہے۔عہ

جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن

کہتے ہیں اسی علم کو ارباب نظر موت _

غرض یہ کہ علامہ اقبال کا تصور لطیف ان کے فلسفے فکر اور پیغام کا حصہ ہے۔انہوں نے اس کو صرف دلچسپی اور عیش کوشی کا ذریعہ نہیں سمجھا ہے بلکہ معاشرے میں اس کا مقام متعین کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔انہوں نے اس کو محض ایک کھلونا ہی تصور نہیں کیا ہے۔بلکہ معاشرے میں اس کو ایک اہم حیثیت دی ہے۔ایک مقام دیا ہے کیونکہ وہ بھی زندگی کو بہتر بنانے ،اس کو سنوارنے اور نکھارنے میں مرد کے ساتھ برابر کی شریک ہوتی ہیں۔عہ

وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ

اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں

۔کون سا موضوع ہے جس پر اقبال نے شاعری نہ کی ہو _ زمین’ آسمان، رات دن، حرام ‘ حلال، مشرق ،مغرب، چرندے، پرندے ،درندے، نباتات ،جمادات، حیوانات ،مذہب ،سیاست، معاشرت، تہذیب ،تعلیم، سرگزشت آدم ،کے متعلق فکر کی گہرائی کا ثبوت دیتے ہوئے، وہ کائنات کے مسائل اور زندگی کے راز تک پہنچ جاتے ہیں۔اقبال کی شاعری زندگی بد اماں شاعری ہے_۔

اقبال اپنے دور کے عظیم مفکر’ مدبر ‘صاحب بصیرت’ بیدار سیاست داں ‘مصلح معاشرت’ تخلیق کار کے ساتھ ساتھ ماضی حال اور مستقبل تینوں دور کے شاعر ہیں اوروہ دنیا کے خوش نصیب شاعر ہیں جو ممبر سے لے کر دار تک، اور حرم سے لے کر میخانہ تک، مشرق سے لے کر مغرب تک۔نہ فقط پڑھے اور گائے جاتے ہیں۔بلکہ جانچے پرکھے اور سمجھے بھی جاتے ہیں۔ان کا کلام نہ صرف ہندوستان پاکستان افغانستان اور ایشیا میں بلکہ امریکہ اور انگلینڈ میں بھی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔یہ قدر دانی صرف پبلک تک محدود نہ رہی بلکہ گورمنٹ نے بھی علم دوست ہونے کا ثبوت دیا اور سر کے خطاب سے سرفراز کیا۔وہ شاعر مشرق بھی کہلائے۔

سر محمد اقبال کے بارے میں متضاد نظریے بھی باہم گریبان گیر ہوئے۔تنگ نظروں نے کافر جانا۔اور کافروں نے مسلمان گردانا_ اقبال کے فکر و فن نے ایک بڑی تعداد میں مشرقین کو اپنی طرف متوجہ کیا۔مغربی مداحوں نے اقبال کی فکر کا سنجیدگی سے مطالعہ بھی کیا۔ان کی شاعری کا تراجم بھی کئے۔

اقبال کی شاعری کے سلسلے میں پروفیسر رشید احمد صدیقی کا یہ قول رقم کرتا ہوں، ،”حالی ماضی کا شاعر، اکبر حال کا شاعر اور اقبال مستقبل کا شاعر ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ اقبال ماضی حال اور مستقبل تینوں دور کا شاعر ہے۔اس لئے ان کی شاعری کا موازنہ نہ اقبال سے پہلے کی شاعری سے ،نہ ان کی اپنے دور میں کہی جانے والی شاعری سے ،اور نہ آج کے دور کی شاعری سے ممکن ہے۔_

21 اپریل ۱۹۳۸ ء کو اردو کا یہ عظیم ترین شاعر، ہندوستانی فکر، انقلابی فکر، اسلامی فکر، انسانیت کا درس دینے والا، فطرت کا شاعر، ہندوستان کا ایک بیش بہا تحفہ، ملت کا ایک درخشاں ستارہ، طلوع آفتاب سے پہلے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔_اقبال نہ رہے، ۔مگر ان کا کلام وپیام زندہ وسلامت ہے_.” بانگ درا _ بال جبریل_ ضرب کلیم_ارمغان حجاز _اسراد خودی- رموز بیخودی- زبور عجم- جاوید نامہ وغیرہ وغیرہ_

ختم شد

(غیر مطبوعہ )

.

Dr M,Arif_ kali bagh_ bettiah_ 845438

West champaran

Bihar,india

Mob__ 7250283933

Email

Mohammad arif alam 2018@gmail,com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS