مسلم وغیر مسلم مفکرین کی تحریروں کے حوالے سے
ڈاکٹرریحان اخترقاسمی
اسلام خالق کا ئنات کا انسانیت کے لیے عظیم ترین عطیہ ہے ، جو ہمہ گیر یت ، آفاقیت وابدیت کا حامل ہے، چوں کہ یہی وہ دین ہے جس کا علم اور دین حق کی تکمیل کائنات انسانی کے سب سے بڑے محسن اعظم محمد عربی ؐ کے ذریعہ ہوئی، جس کو اللہ رب العزت نے اپنی کتاب عزیز میں برملا اعلان فرمایا ہے:( آج کے دن ہم نے تمہارے لیے دین اسلام کو مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے طریقہ زندگی کے طور پر اسلام کو پسند کیا۔)
موجود ہ دور میں اسلام مخالف طاقتیں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ بڑی تیزی کے ساتھ اپنے تمام اسباب وذرائع کے ذریعہ کررہی ہیں کہ دنیامیں اسلام کی نشوونماطاقت وقوت کے زور سے ہوئی، دین اسلام کی ترویج واشاعت میں اسلامی جنگوں کا اہم کر داررہا ہے، اور یورپ اپنی معاندانہ روش کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے تمام حربے استعمال کررہا ہے کہ کس طرح سے اسلام کی صاف وشفاف شبیہ کوداغدار کیا جائے، کبھی تو اسلام کو ایک خونخوارمذہب سے تعبیر کرتا ہے اور کبھی مسلمانوں کو درندہ صفت اور دہشت گردکا لیبل لگا دیتا ہے۔نائن الیون ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر دہشت گردانہ حملے کے بعد شدت کے ساتھ پوری دنیا کو امریکہ نے اسلام کے مخالف بنانے میں بھرپور کردار اداکیا۔جس کے نتیجے میں دنیا میں کوئی بھی واقعہ کسی بھی قوم کے دہشت گرد گروپ کریں ، کوئی بھی فرد کرے اس کو اسلام سے متاثر بتاکر اس دہشت گردانہ کارروائی کو اسلام او رمسلمان کی طرف موڑ دیا جاتاہے۔ اوروہ اپنی اسلام مخالف سرگرمیوں میں ساری دنیا کو شریک کرنا چاہتا ہے، بالخصوص ہندوستان کویہ باور کرارہا ہے کہ ہندوستان میں بھی مسلمان حکمرانوں نے اپنی طاقت وقوت کے بل بوتے پر غیر مذاہب کے لوگوں کی گردن پر تلوار رکھ کر انھیں اسلام کو قبول کرنے پر مجبور کیا۔بالخصوص صلیبی جنگوں میں معاندین اسلام کی ذلت آمیز ہزیمت وپسپائی کے بعد یہ بات بڑی زور وشور سے اٹھی کہ اسلام ایک خونخوار مذہب ہے اور مسلمان ایک دہشت گردقوم وملت کا نام ہے، اس کے بعد سے لے کر آج تک کسی نہ کسی پیرائے بیان وزبان میں اس الزام بے جاکو اسلام کی طرف منسوب کرنے میں پوری دنیا لگی ہوئی ہے۔جبکہ اسلام تو سراپا خیروسلامتی کا مذہب ہے، اور امن وسلامتی کے جامع اور ہمہ گیر تصور کا نقیب ہے، دین حق نے تو اپنی دعوت وتبلیغ کودلائل وبراہین کے ذریعہ اخلاق حسنہ سے پیش کی، اور حسن اخلاق نے لوگوں پر ایسے اثرات مرتب کئے کہ غیرمذاہب کے لوگوںنے اسلام کی پناہ میں آنا اپنے لیے باعث سعادت سمجھا اور اسلام قبول کرنے کے بعدانہوںنے کسی حال میں اپنے چھوڑے ہوئے مذہب کی طرف واپس جانا گوارہ نہ کیاکیونکہ اسلام نے عقل وشعورکو اپنی تو کا مرکز بنانے کے بعد لوگوں کو اسلام قبول کرنے اور انکار کرنے کی پوری آزادی دی۔
قرآن کریم میں اعلان ہے:(جوچاہے ایمان لائے اور چاہے کفرکا راستہ اختیار کرے۔)
اسلام کی ترویج واشاعت اوردعوت وتبلیغ کے اصول تفصیل کے ساتھ قرآن میں بیان کئے گئے ہیں ، اور اسلام میں مذہب کے سلسلہ میں جبرواکراہ سے رو کا گیا ہے، اسلامی دعوت کو پیش کرنے کا طریقہ کارکیا ہونا چاہئے۔اس کو اللہ تعالی نے بڑے ہی خوبصورت لب ولہجہ میں بیان فرمایاہے قرآن کی زبانی سنئے:(انھیں اپنے رب کے راستہ کی طرف حکمت وعمدہ وعظ وپند کے ساتھ بلا ئو اور بحث ومباحثہ ایسے طریقہ پر کروجوبہتر ین ہو۔)
ایک اور جگہ فرمانِ باری تعالی ہے 🙁 اے پیغمبر ؐ نیکی اور بدی برابر نہیں ہیں، توبدی کو ایسے طریقہ پردور کر، جو بہت اچھا ہے، پھر دیکھ کہ جس کے ساتھ تیری دشمنی ہے وہ تیرا گرم جوش دوست بن جائے گا۔)
اسلام نے جبرواکرہ پر بندش لگاتے ہوئے قرآن کریم میں اعلان کیا:(کیا تو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ وہ مومن ہو جائیں، حالاں کہ تیرا کام مجبور کرنا نہیں )
ایک دوسری جگہ باری تعالی کا ارشاد ہے:(کوئی شخص اللہ کی اجازت کے بغیر ایمان نہیں لاسکتا ، اور اللہ عدم اجازت کی ناپاکی انھیں لوگوں پرڈالتا ہے جو اپنی عقل سے کام نہیں لیتے۔)
دوسری جگہ ارشاد فرمایا:(توجسے چاہے ہدایت نہیں کرسکتا، بلکہ اللہ جسے چاہے ہدایت کرتا ہے وہی جانتا ہے کہ کون ہدایت قبول کرنے لیے تیار ہے۔)
فرمانِ باری تعالی موجود ہے:(ان کی ہدایت تیرے ذمہ نہیں ہے بلکہ اللہ جس کو چاہتا ہے ہدایت بخشتا ہے۔)
قرآن کریم کی یہ تمام ہدایات، کیا اس بات کی بین ثبوت نہیں ہیں کہ اسلام میں مذہبی جبرو اکراہ اور زور زبردستی کی کہیں کوئی گنجائش نہیں ہے، پھر کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ کوئی اہل ایمان خدا کے جاری کردہ احکامات کے خلاف ظلم وتشددو ناانصافی اور حق تلفی کاراستہ اختیار کرے گا، یہ بات واضح ہے کہ اسلام میں کوئی بھی جنگ دین اسلام کی تبلیغ واشاعت کے لیے نہیں ہوئی ، بلکہ تمام جنگیں ظلم وستم اور جبر واکراہ کے خاتمہ کے لیے ہوئیں، جب ظلم وستم کا خاتمہ اور اس کے اسباب وذرائع کا سدباب ہوا اور معاشرہ میں عدل وانصاف کا قیام ہوگیا، تو پھر لوگوں نے اسلام کے محاسن کودیکھتے ہوئے اسلام کو قبول کر لیا، علامہ لورڈہیڈلے لکھتے ہیں۔
محمد عربی ؐ کی تلوار جو آپ نے جماعت مفسدین کی ظالمانہ سرگرمیوں کو نیچادکھانے کے لئے اٹھائی، وہ صرف حفظ ذات کی تلوار نہ تھی ، بلکہ تمام قوموں ، تمام مذہبوں، تمام مندروں، گرجائوں اور مسجدوں کی حفاظت کی تلوار تھی اور اقوام وادیان کے رشتوں کو توڑنے والی نہیں، بلکہ جوڑنے والی تھی، اس کا بڑا مقصد یہ تھا کہ عرب سے خانہ جنگی کو ختم کردیا جائے اور ایک ایسی منظم اور پرامن حکومت قائم کی جائے جس کے سایہ میں تمام اقوام کو عزت وآزادی کی زندگی مل سکے ۔
مشہور ہندوسیرت نگار سوامی لکشمن پر ساداسلام کی جنگوں کے سلسلہ میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیںکہ یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اسلام کی شان وشوکت کے ایام کی کہانی جنگ وجدال کی ایک خونچکاں داستان ہے اور یہ خون آشائی اس کے حلقہ بگوشاں کی خصوصیت امتیازی قراردی جاتی ہے۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ یہ قطعی مبنی برصداقت ہے کہ اسلام نے خون کا دریا عبور کرکے ہی اپنی اس حیرت انگیز شان وشوکت کو حاصل کیا ہے، جس کا تصور انگشت بدنداں کردینے کے لیے کافی ہے، اسلام کے گلشن ہائے رنگ کی رنگینیوں میں ان مظلوم سر فروشان توحید کی جھلک بھی موجود ہے۔ جنھوں نے صیانت کے لیے بے دریغ گردنیں کٹائیں، مگر یہ بات قطعی ہے کہ مسلمانوں کو خونریزی اور جنگ وجدال کا کوئی دلی ذوق وشوق اور قلبی ربط وضبط نہ تھا۔ قوموں کی تاریخ میں بعض ایسے وقت آتے ہیں، جب خونریزی ناگزیر ہوجاتی ہے۔اور اس وقت جان دینے سے جان چراناایک قسم کا گناہ کبیرہ بن جاتا ہے۔مسلمان بھی ایسی آزمائش سے دوچار تھے جب تلوار کا اٹھانا اہم ترین فریضہ بن گیا تھا۔
معروف مصری عالم دین سید قطب شہید اپنی معرکت الآرا کتاب انسانی زندگی میں جمودو ارتقا میں اسلامی جنگوں کے سلسلے میں رقم طراز ہیں کہ اسلام میں جنگ اس لئے نہیں ہے کہ لوگوں کو دین حق ماننے پر مجبورکیا جائے کیونکہ یہ بات واضح ہے کہ دین میں ا کراہ نہیں ہے ۔جبکہ اسلام میں جنگ اس لئے ہے کہ ان ظالم قوتوں کو ختم کیا جاسکے۔ جو لوگوں کو ہدایت سے روکتے ہیں ۔اگر یہ ظالم وسرکش قومیں مائل صلح ہوجائیں ۔اور اس بات کا اقرار کریں کہ وہ حق کی دعوت میں روڑے نہیں اٹکائیں گے تو پھر جنگ نہیں ہے ۔
اسلام پوری انسانیت کے لیے آیا ہے اور یہ عالم انسانیت کو تحفظ وبنیادی حقوق فراہم کرتا ہے، اور یہ دنیا میں ایک ایسا معاشرہ چاہتا ہے، جہاں پر ہر انسان کو مکمل آزادی حاصل ہو ، اور احکام الہی کے حدودو قیود میں رہ کر جس طرح چاہے زندگی گزارے، لیکن اگر معاشرہ انسانیت ظلم وتشدد کا شکار ہو، اور فتنہ وفساد کا آماجگاہ بنا ہوا ہو، اور انسانوں کے ساتھ ننگ انسانی کا سلوک وبرتائو کیا جارہاہو، مذہبی حقوق کو چھین لیا جار ہاہو، اور انسانی تقدس پامال ہور ہا ہو ، تو اب ایسے وقت میں فتنہ وفساد اور ظلم وجبر کے طریقہ کار پربندش لگانے کے لیے تلوار اٹھانانا گز یر ضرورت بن جاتی ہے۔