پنکج چترویدی
حالانکہ دہلی ہی نہیںبلکہ اس سے ملحقہ فرید آباد، غازی آباد، نوئیڈا اور گروگرام میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران آبادی اور استعمال کی اشیاء میں اضافے کے مقابلے میںکبھی بھی اس سے پیدا ہونے والے کچرے پر نہ کبھی سماج فکرمند نظر آیا اور نہ ہی حکومت۔ یہ حقیقت ہے کہ 2014میں وزیراعظم نریندر مودی کی پہل کے بعد ملک میں صفائی کے تئیں حساسیت میں اضافہ ہوا اور لوگ اس پر بحث بھی کرنے لگے۔ گزشتہ ماہ ہی مرکزی حکومت نے صفائی مہم کے دوسرے مرحلے میں کچرے کے انتظام پر بحث شروع کی تھی اور تبھی دہلی میں بلدیاتی انتخابات کا اعلان ہوگیا۔ دہلی میں کوڑا اٹھانے سے لے کر کھیتی میں پہنچانے اور یہاں کے کئی ہزار کلومیٹر نالوں کی صفائی کی دستاویزی حقیقت تھوڑی سی برسات یا موسم بدلتے ہی عیاں ہونے لگتی ہے۔ عدالتوں نے کئی بار حکومتوں کو کوڑے کے پہاڑ پر ہدایات دیں، لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ صرف گریٹر دہلی ہی نہیں، ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر اور قصبے کے مکینوں کی فکر محض اپنے گھر-دکان سے کچرا نکال کر باہر پھینکنے تک کی ہے۔ وہ کیسے اُٹھ رہا ہے، اس کا حل کیا ہے؟ اس پر کتنا خرچ ہورہا ہے؟ ایسے سبھی سوالات عام لوگوں کے لیے بے معنی ہیں۔ واضح رہے کہ دہلی، ممبئی سمیت تمام میٹروپولیٹن شہر ہی نہیں بلکہ ملک کے تین سو سے زائد ضلعی ہیڈکوارٹر بھی اس وقت ’کوڑا بم‘ کے دہانے پر ہیں۔ دہلی میں تو یہ کوڑابم بار بار پھٹتے رہتے ہیں، کبھی گرجاتے ہیںتو کبھی آگ لگتی ہے توان کی چرچہ بھی ہوتی ہے، لیکن دور دراز کے شہروں میں کچرے کے جلنے سے اسپتال پہنچنے والوں کا ریکارڈ تک نہیں ہے۔ سمجھنا ہوگا کہ ایک طرف کچرے کو بڑھانا اور دوسری طرف اس کو ٹھکانے لگانے کے بارے میں سوچنا ویسا ہی ہے جیسے نل کھول کر فرش پر پونچھا لگایا جائے۔ خشک فرش کے لیے پہلے نل بند کرنا ہوگا، یعنی کچرے کو کم کرنے کے طریقوں پر غور کرنا ہوگا۔
حال ہی میں این جی ٹی نے دہلی حکومت پر کوڑے کے پہاڑ پر لاپروائی برتنے کے لیے 900کروڑ کا جرمانہ عائد کیا ہے۔ اس کے علاوہ کچرے کو ٹھکانے لگانے میں لاپروائی برتنے پر مہاراشٹر، پنجاب، تلنگانہ، کرناٹک اور راجستھان کی حکومتوں پر مجموعی طور پر تقریباً تیس ہزار کروڑ روپے کا جرمانہ عائد کیا جاچکا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ پیسہ عوام کی جیب سے ہی جائے گا اور حکومت کے خزانے میں اور کسی مد میں ضائع ہوجائے گا۔ واضح ہے کہ عدالتیں حکومتوں کی ناکامی سے مایوس ہیں اور اپنا زور دکھانے کے لیے بھاری جرمانے عائد کر رہی ہیں۔
ہمارے ملک کے شہر روزانہ تقریباً 150,000 ٹن ٹھوس کچرا(ایم ایس ڈبلیو) خارج کر رہے ہیں، جس میں سے محض 25فیصد پر عملدرآمد کیا جاتا ہے۔ باقی بچا کچرا یا تو کھلے میں پھینک دیا جاتا ہے یا جلا دیا جاتا ہے۔2030 تک کچرے کی یہ مقدار 4,50,000ٹن یومیہ ہو جائے گی۔ برسوں سے ہمارے یہاں اس کچرے سے بجلی بنانے کی بات ہورہی ہے لیکن یہ تجربہ بری طرح ناکام رہا۔ اس طرح کا پہلا پلانٹ (ڈبلیو ٹی ای) دہلی کے تیمار پور میں 1987 میں لگا لیکن چلا نہیں۔ تب سے ملک میں 130 میگاواٹ صلاحیت کے مزید 14 ڈبلیو ٹی ای پلانٹس لگائے گئے، لیکن ان میں سے نصف بند ہو چکے ہیں۔ باقی ماحولیاتی قوانین کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے زیر تفتیش ہیں۔ دہلی کے اوکھلا پلانٹ پرتو25لاکھ کا جرمانہ بھی عائد کیا گیا۔ ان پلانٹس کے ناکام ہونے کی وجہ سے کچرے کا معیار اور ساخت ہے۔ کچرے میں نمی زیادہ ہوتی ہے تو جلانے میں زیادہ توانائی درکار ہوتی ہے، جب کہ بجلی کم ملتی ہے۔
ملک میں ہر روز کچرے کے کھتوں میں خودبخود آگ لگنے کی اصل وجہ کچرے کا مسلسل سڑنا اور اس سے خطرناک گیسوں کا اخراج ہونا ہی بتایا گیا ہے۔ خیال رہے کہ ان دنوں کوڑے میں بڑی مقدار میں سب سے خطرناک کوڑا تو بیٹریوں، کمپیوٹروں اور موبائل کا ہے۔ اس میں پارا، کوبالٹ اور بہت سے دوسرے زہریلے کیمیکل ہوتے ہیں۔ ایک کمپیوٹر کا وزن تقریباً3.15کلوگرام ہوتا ہے۔ اس میں 1.90کلو گرام سیسہ اور0.693گرام پارا اور 0.04936گرام آرسینک ہوتا ہے۔ باقی حصہ پلاسٹک ہوتا ہے۔ اس میں سے زیادہ تر مواد گلتا سڑتا نہیںہے اور زمین میں جذب ہو کر مٹی کے معیار کو متاثر کرنے اور زمینی پانی کو زہریلا بنانے کا کام کرتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح کا زہر بیٹریوں اور بے کار موبائلوں سے بھی پیدا ہورہا ہے۔اس سے نکلنے والا دھواں بڑی آبادی کو مستقل سانس کی بیماریاں دے رہا ہے۔
دراصل کچرے کو بڑھانے کا کام معاشرے نے ہی کیا ہے اور اس کی سب سے زیادہ مار بھی عام لوگوں پر ہی پڑ رہی ہے۔ ابھی چند سال پہلے تک سیاہی والے فاؤنٹین پین ہوا کرتے تھے، اس کے بعد ایسے بال پین آئے، جن کے صرف ریفلز ہی بدلتے تھے۔ آج مارکیٹ میں ایسے قلموں کی بہتات ہے جو ختم ہونے پر پھینک دیے جاتے ہیں۔ ملک کی بڑھتی ہوئی شرح خواندگی کے ساتھ ایسے قلموں کا استعمال اور اس کا کچرا بڑھتا گیا۔ ذرا تصور کریں کہ تین دہائی پہلے ایک شخص سال بھر میں بمشکل ایک قلم خریدتا تھا اور آج اوسطاً ہر سال ایک درجن قلموں کی پلاسٹک فی شخص بڑھ رہی ہے۔ اسی طرح شیونگ کٹ میں پہلے اسٹیل یا اس سے پہلے پیتل کا ریزرہوتا تھا جس میں صرف بلیڈ بدل جاتے تھے اور آج ہر ہفتہ کچرا بڑھانے والے ’یوز اینڈ تھرو‘ والے ریزر ہی بازار میں ملتے ہیں۔ ابھی کچھ سال قبل تک دودھ بھی کانچ کی بوتلوں میں آتا تھا یا پھر لوگ اپنے برتن لے کر ڈیری جاتے تھے۔ آج دودھ تو ٹھیک ہے پینے کا پانی بھی کچرا بڑھانے والی بوتلوں میں مل رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ملک بھر میں روزانہ4کروڑ دودھ کی تھیلیاں اور دو کروڑ پانی کی بوتلیں کچرے میں پھینکی جاتی ہیں۔ میک اپ کا سامان، گھر میں ہونے والی پارٹی میں ڈسپوزایبل برتنوں کا رجحان، بازار سے سامان لاتے وقت پولی تھین بیگ لینا، ہر چھوٹی بڑی چیز کی پیکنگ، ایسے ہی نہ جانے کتنے طریقے ہیں جن سے ہم کچرے کو بڑھا رہے ہیں۔ گھروں میں صفائی اور خوشبو کے نام پر بڑھ رہے صابن اور دیگر کیمیکلز کے بڑھتے ہوئے رحجان نے بھی مختلف قسم کے کچرے میںاضافہ کیا ہے۔ سرکاری دفاتر میں ایک ایک کاغذ کی کئی کئی کاپیاں بنانا، ایک ہی تجویز کو کئی میزوں سے پاس کرانا جیسے کئی کام ہوتے ہیں، جس سے کاغذ،کمپیوٹر کی پرنٹنگ کارٹیج وغیرہ کا خرچ بڑھتا ہے۔ اور اسی کچرے کو کھپانے کے تمام منصوبے ناکام ہو رہے ہیں۔
لندن کے ہر ریسٹورنٹ میں شیشہ، اس کے اوپر لگے ڈھکن، بچا ہوا کھانا وہیں الگ الگ کیا جاتا ہے اور ہر بیکار شے کو ری سائیکل کیا جاتا ہے۔ یہ لازمی ہے کہ دہلی کے کچرے کو ٹھکانے لگانے کے لیے نئی جگہیں تلاش کی جائیں، اس سے بھی اہم بات ہے کہ کچرے کو کم کرنے کے لیے ٹھوس کوششیں کی جائیں۔ اس کے لیے کیرالہ کے کنور ضلع سے سبق لے سکتے ہیں، جہاں پورے ضلع کے لوگوں نے بال پین کا استعمال ترک کر دیا ہے، کیونکہ اس سے ہر روز لاکھوں ریفل کا کوڑا نکلتا تھا۔پورے ضلع میں کوئی بھی دکاندار پولی تھین بیگ یا پلاسٹک کے ڈسپوزایبل برتن نہ تو فروخت کرتا ہے یا نہ ہی استعمال کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ لازمیت کوڑے کو کم کرنے کی ہونی چاہیے۔ جب کوڑا کم ہوگا تو اس کو نمٹانے میں کم وسائل اور جگہ کی ضرورت ہوگی۔
[email protected]