عبیداللّٰہ ناصر
حادثہ کہیں بھی، کبھی بھی، کسی بھی حالت میں ہو سکتا ہے۔ حادثہ میں کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی طریقے کی انسانی بھول شامل ہوتی ہے، ان معنوں میں یہ ایکٹ آف گاڈ (اللہ کی مرضی/اللہ کا کام) ہی کہا جائے گا لیکن جو حادثے انسانی بھول سے زیادہ انسانی لالچ کی وجہ سے ہوجائیں، انہیں ایکٹ آف گاڈ نہیں بلکہ ایکٹ آف فراڈ بلکہ ایکٹ آف مسیکر(دھوکہ دھڑی/بلکہ قتل عام) کہا جائے گا۔آپ کو یاد ہوگا کہ2016میں بنگال اسمبلی الیکشن کی مہم کے دوران کولکاتہ میں ایک زیر تعمیر پل منہدم ہوجانے کو وزیراعظم نریندر مودی نے نہ صرف اسے ایکٹ آف فراڈ قرار دیا تھا بلکہ اسے ایک خدائی پیغام قرار دیتے ہوئے بنگال کے ووٹروں سے اپیل کی تھی کہ وہ اس خدائی پیغام کو سمجھیں اور موجودہ ممتابنرجی کی حکومت کو اکھاڑ پھینکیں ورنہ یہ پورے بنگال کو ڈھا دے گی۔گزشتہ30اکتوبر کو گجرات کے موربی شہر میں مچھوندی پر بنے معلق پل(ہینگنگ برج) پر جو حادثہ پیش آیا اور جس میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 140 افراد جاںبحق ہو گئے جن میں تقریباً 50بچے بھی شامل ہیں دوسرے زمرہ یعنی ایکٹ آف فراڈ کا حادثہ ہے جس میں جان بوجھ کر زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کی لالچ میں انسانی جانوں سے کھلواڑ کیا گیا۔اس پل کی مرمت کو لے کر جو تفصیل سامنے آ رہی ہیں، وہ چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ اوپر سے لے کر نیچے تک کمیشن خوری اور منافع خوری کے چکر میں یہ المیہ ہوا اور اس سے بھی بڑا المیہ ہے کہ اس پر پردہ ڈالنے کی بھر پور کوشش کی جارہی ہے کیونکہ اس پورے معاملہ میں بر سر اقتدار بی جے پی کے اعلیٰ لیڈروں سے لے کر مقامی سطح کے چھٹ بھیا نیتا بھی شامل ہیں۔بدعنوانی، اقربا پروری، منافع خوری کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوسکتی ہے کہ اس پل کی مرمت کا ٹھیکہ ایک ایسی کمپنی کو دیا گیا تھا جسے اس کام کا کیا، سول انجینئرنگ اور تعمیرات کے کاموں کا بھی کوئی تجربہ نہیں تھا، یہ کمپنی گھڑیاں اور ای رکشہ بناتی ہے لیکن اس کا مالک ایک مرکزی وزیر کا قریبی ہے، اس لیے اسے اس کام کا ٹھیکہ دے دیا گیا۔اس ٹھیکہ پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک سینئر صحافی نے بالکل سہی کہا کہ جب رافیل جنگی جہازوں کو بنانے اور ان کے رکھ رکھاؤ کا ٹھیکہ ایک ایسی کمپنی کو دیا جا سکتا ہے جو ابھی وجود میں ہی نہ آئی ہو، کوئی تجربہ ہونے تو دور کی بات، تو اس معمولی پل کی مرمت کا ٹھیکہ اگر ایک گھڑی ساز کمپنی کو دے دیا گیا تو اس میں حیرت کیا! نئے ہندوستان میں کچھ بھی ممکن ہے۔اگر اس کام میں اوپر سے لے کر نیچے تک بدعنوانی کی تفصیل لکھی جائے تو یہ کالم اسی سے بھر جائے گا لیکن شرم اور افسوس کی بات ہے کہ بڑوں کو بچانے کے چکر میں چھوٹوں کو بلی کا بکرا بنایا جا رہا ہے، ٹکٹ فروش کلرک تک کو گرفتار کیا گیا ہے لیکن کروڑوں ڈکار جانے والے دھنا سیٹھوں کو بچانے کی ہرممکن کوشش کی جا رہی ہے۔آج کل عدالتی جانچیں تک تو کھلواڑ بن کر رہ گئی ہیں تو اس حادثہ کی جانچ کے لیے تشکیل کی گئی ایس آئی ٹی کیا سچائی سامنے لا سکے گی، اسے سمجھا جاسکتا ہے۔ یہ کمیٹی کمال ہوشیاری سے اپنے سیاسی آقاؤں کو کلین چٹ دے کر پیادوں کو پھنسا دے گی۔
جس دن یہ حادثہ ہوا وزیراعظم نریندر مودی گجرات میں ہی تھے، انہوں نے کئی جلسوں کو بھی خطاب کیا، کئی افتتاح بھی کیے لیکن رنگ میں بھنگ نہ پڑے، اس لیے موربی پل کے اس حادثہ کا ان پروگراموں کے دوران ذکر بھی نہیں آنے دیا گیا۔قارئین کو یاد ہوگا کہ جب پلوامہ کا حملہ ہوا تھا تو بھی مودی جی کسی جنگل میں فوٹو سیشن کرا رہے تھے اور اس کی تاویل یہ دی گئی تھی کہ وزیراعظم سے کنکشن نہیں مل پا رہا تھا ، کیونکہ آج انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں یہ ممکن ہی نہیں ہے، یہ تو تب بھی ممکن نہیں تھا کہ وزیراعظم سے رابطہ ٹوٹ جائے جب سیٹلائٹ کا زمانہ نہیں تھا کیونکہ یہ نہ صرف ملک کی سیکورٹی بلکہ وزیراعظم کی ذاتی سیکورٹی سے بھی کھلواڑ ہے لیکن آج سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنانا اتنا آسان کر دیا گیا ہے کہ اقتدار جو چاہتا ہے، وہی عوام کو سمجھا دیا جاتا ہے بلکہ اس کے دل میں بٹھا دیا جاتا ہے۔ موربی پل حادثہ کے2-3دن بعد جب مودی جی زخمیوں سے ملنے اسپتال گئے،تب تک اسپتال کا رنگ روغن درست کر دیا گیا، مریضوں کے بستر تبدیل کر دیے گئے تھے اور ’’سب چنگا سی‘‘کا ماحول بنا دیا گیا تھا۔چینل کے اینکر اپنی بے حسی کا ثبوت دینے میں دن رات قلابہ ملائے ہوئے تھے لیکن این ڈی ٹی وی کے رپورٹر نے صحافت کی لاج رکھ لی اور صداقت عوام کے سامنے پیش کردی۔اس موقع پر آج تک کے بانی ایڈیٹر آنجہانی اے کے سنگھ اور اپہار سنیما حال کا المیہ یاد آگیا، ایک وہ حساس صحافی تھے جو لاشوں کو دیکھ کر اتنا جذباتی ہوگئے کہ ان کی حرکت قلب رک گئی اور ایک یہ بے غیرت، بے شرم صحافی ہیں جو المیہ کا شکار ہو گئے، لوگوں کو ہی حادثہ کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔
موربی پل کے رکھ رکھاؤ کا ٹھیکہ اجنتا برانڈ گھڑیاں اور کیلکولیٹر بنانے والی کمپنی اوریوا کو دیا گیا تھا جس کے مالک جے سکھ پٹیل ہیں، ان کے ایک مرکزی وزیر سے بیحد قریبی تعلقات بتائے جاتے ہیں، انہوں نے اس کے رینوویشن کا ٹھیکہ ایک دوسری کمپنی دیو پرکاش سلیوشن کو دے دیا جو ویسے بھی غیرقانونی ہے۔ اس کمپنی نے دو کروڑ کے ٹھیکے کا کام مبینہ طور 30-35لاکھ میں ہی نمٹا دیا تھا یہاں تک کہ زنگ آلود نٹ بولٹ تک نہیں بدلے گئے تھے، اس کے بعد فٹنس سرٹیفکیٹ حاصل کیے بغیر ہی پل کو عوام کے لیے کھول دیا گیا اور داخلہ ٹکٹ کے دام15روپے سے بڑھا کر17روپے کر دیا گیا اور 500 لوگوں کو ٹکٹ فروخت کر دیا گیا جبکہ پل کی صلاحیت 100-150 لوگوں کا بوجھ برداشت کرنے کی ہی تھی۔ظاہر ہے یہ حادثہ یا ایکٹ آف گاڈ نہیں بلکہ کھلے عام قتل بلکہ قتل عام کا معاملہ ہے لیکن چونکہ اقتدار سے قربت ہے، اس لیے اصل گنہگاروں کا نام بھی ابتدائی رپورٹ میں شامل نہیں کیا گیا بلکہ معمولی ملازموں کی گردن ناپی جا رہی ہے۔
بتاتے چلیں کہ دہلی کے اپہار سنیما ہال میں جون1997 میں فلم غدر کا شو چل رہا تھا کہ اس میں آگ لگ گئی جس میں درجنوں لوگ ہلاک اور بہت سے لوگ زخمی ہوگئے تھے۔ حکومت، عدالت اور میڈیا تینوں نے اس وقت اس حادثہ کا ذمہ دار سینما ہال کے مالکان انسل برادران کو قرار دیا تھا، وہ گرفتار ہوئے تھے اور مہلوکین اور زخمیوں کو ان سے ہی بھاری معاوضہ دلوایا گیا تھا، ایسے ہی بھوپال گیس المیہ میں اگر چہ کمپنی کے افسران فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے مگر بعد میں انہیں گرفتار بھی کیا گیا اور متاثرین کو کمپنی سے معاوضہ دلوایا گیا تھا مگر سوال یہ ہے کہ موربی پل المیہ کے ذمہ داروں کے ساتھ ویسا ہی سلوک کیوں نہیں کیا گیا جیسا اپہار سنیما کے مالکوں یا یونین کاربائیڈ کمپنی کے خلاف کیا گیا تھا جواب اظہر من الشمس ہے کہ وہ سب بی جے پی کے بڑے لیڈروں کے قریبی اور اس کے فائنانسر ہیں، اس لیے حق نمک تو ادا کرنا ہی ہوگا ۔
(مضمون نگار سینئر صحافی و سیاسی تجزیہ نگار ہیں)
[email protected]