ہماچل:کیا دوبارہ کنول کھل پائے گا؟

0

مراق مرزا

ہماچل پردیش میں الیکشن کی تاریخ کا اعلان کیا جا چکا ہے۔ انتخاب کا اعلان ہوتے ہی اکھاڑے سچ اٹھے ہیں۔ جلوس و جلسہ اور ریلیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ دلوں کو لبھانے والے وعدوں کے بڑے بڑے لڈو عوام کے سامنے پیش کیے جا رہے ہیں لیکن 70-72لاکھ کی آبادی والا یہ پہاڑی صوبہ بھارت کے دیگر صوبہ جات سے قدرے مختلف ہے۔ یہاں کے لوگ انتخابی وعدوں کے لڈو آسانی سے نہیں کھاتے۔ یہی سبب ہے کہ ہر پانچ برس کے اختتام پر جب انتخاب آتا ہے تو یہاں کے عوام سرکار بدل دیتے ہیں۔ 2017 میں کانگریس کی حکومت تھی۔ عوام کے بہت سے ایشوز تھے۔ بہت سے مسائل تھے۔ زیادہ تر انتخابی وعدے پورے نہیں کیے گئے تھے۔ بہت سے سرکاری پروجیکٹس انتخاب سے محض ایک ڈیڑھ سال قبل شروع کیے گئے تھے۔ عام لوگ سرکار کے کام کاج سے بری طرح ناراض تھے۔ کانگریس نے عوام کی ناراضگی کو ہلکے میں لیا۔ بی جے پی نے اس ناراضگی کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور کانگریس کو شکست دے کراس کے ہاتھوں سے اقتدار چھین لیا۔ ہماچل میں اس بار بی جے پی کے لیے صورت حال بے حد گمبھیر ہے۔ ہرچند کہ قومی میڈیا سروے اور اوپینین پولس کی اساس پر بی جے پی کی ممکنہ جیت کا ڈھول ابھی سے بجانے میں لگ گئی ہے، تاہم زمینی حقائق کچھ اور ہی تصویر پیش کر رہے ہیں۔ گزشتہ انتخاب کے مقابلے اس بار ہماچل کے عوام کے سامنے بہت سے ایشوز ہیں، بہت سے مسائل ہیں، جن کی بنیاد پر وہ ووٹ ڈالنے والے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ دل فریب انتخابی وعدے نیز دھرم مذہب کا کارڈ اس بار چلنے والا نہیں ہے۔ پچھلی مرتبہ مودی لہر نے بھی بڑا اہم کردار ادا کیا تھا مگر آج کے حالات کے پیش نظر سیاست پر گہری نظر رکھنے والے مانتے ہیں کہ اب کھوکھلے نعروں اور جملوں کا شور عوام کو اپنی طرف کھینچ نہیں پائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی حلقوں میں ایسا کہا جا رہا ہے کہ بی جے پی کی اعلیٰ لیڈر شپ ان دنوں اندرونی طور پر ازحد فکرمند ہے اور کچھ لیڈروں کی تونیندیں اڑی ہوئی ہیں۔ کیا جس طرح اترپردیش میں بی جے پی دوبارہ سرکار بنانے میں کامیاب ہوئی، ہماچل میں بھی ایسا ہو پائے گا؟ ہماچل میں ہر پانچ سال میں اقتدار بدلنے کی جو روایت ہے، کیا بی جے پی اسے توڑپائے گی؟ یہ وہ سوال ہیں، جن آج عام لوگ بھی چرچا کر رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماچل اور گجرات کے انتخابی نتائج سے مودی کے ساکھ وابستہ ہے۔
یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ اسمبلی انتخابات ہوں یا پارلیمانی، میدان میں اترنے کے لیے بی جے پی کے پاس ایک ہی سب سے زیادہ مؤثر لیڈر ہے اور وہ لیڈر ہیں نریندر مودی۔ گو کہ نریندر مودی ہر انتخاب میں جیت کی گارنٹی ثابت ہوئے ہوں، ایسا نہیں ہے۔کچھ جگہوں پر ان کے ذریعے کی جانے والی دھماکہ خیز انتخابی ریلیوں کے باوجود بی جے پی کو شکست کا سامنا کرناپڑا ہے، تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ 2014 کے بعد سے اب تک بی جے پی تقریباً ہر الیکشن مودی جی کے نام پر ہی لڑتی آئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ سیاست میں مودی جی کا نام بتدریج ایک سیاسی برانڈ بن گیا اور آج یہ برانڈ ملک کی دیگر تمام اپوزیشن پارٹیوں پر بھاری پڑ رہا ہے۔ برانڈ مودی کا مقابلہ آج کوئی نہیں کر پا رہا ہے۔ ہماچل کا چناؤ بھی پوری طرح برانڈ مودی کے سہارے ہی لڑا جا رہا ہے۔
ہماچل انتخاب کی خبریں قومی میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے دیکھی اور سنی جا رہی ہیں اور پورے ملک کی نظر اس انتخاب پر ہیں۔ سیاسی حلقوں میں ایسا کہا جا رہا ہے کہ یہ انتخاب بی جے پی کے لیے بے حد اہم ہے اور اس میں جیت حاصل کرنا بھی ضروری ہے، کیونکہ اگر ہماچل میں ہار ہوئی تو اس کے منفی اثرات نہ صرف گجرات بلکہ اگلے سال متعدد دیگر ریاستوں میں جو انتخابات ہونے والے ہیں، ان پر بھی پڑیں گے۔ اس کے علاوہ 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں بھی بی جے پی کو شدید مشکلات سے گزرنا پڑے گا۔ اس حقیقت سے بی جے پی کے سبھی بڑے لیڈران بشمول مودی اور امت شاہ واقف ہیں۔ اسی لیے ان کی تمام ترتوجہ ہماچل پر ہے اور یہ کسی بھی طرح ہماچل جیتنے کی کوشش کریں گے۔ گجرات کے تعلق سے بات کریں تو یہ مودی اور امت شاہ کا ہوم اسٹیٹ ہے یعنی یہ وہ اسٹیٹ ہے جہاں سے یہ دونوں آتے ہیں۔ انہیں گجرات بھی ہر حال میں جیتنا پڑے گا۔ اسے جیتنے کے لیے بی جے پی ہر حربہ استعمال کرے گی لیکن کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ اپنی پوری طاقت اور داؤ پیچ استعمال کرنے کے باوجود انسان کو شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کیونکہ کچھ فیصلے وقت کے ہوتے ہیں اور وقت کے فیصلوں کو بدلنا انسان کے اختیار میں نہیں ہوتا۔ دراصل وقت ہی سب بڑا چانکیہ ہے جس کے داؤ پیچ کا مقابلہ کوئی نہیں کرسکتا۔ گجرات کے وِکاس ماڈل کی جوبات بڑے پرزور طریقے سے کی جاتی تھی، اس کی حقیقت اب سامنے آچکی ہے۔ گجرات میں وِکاس کی چمک چند بڑے شہروں تک ہی محدود ہے۔ پورا گجرات ترقی کے آکاش پرپہنچ گیا ہے، یہ بات بعید از حقائق ہے۔ سروے اور اوپینین پول سے قطع نظر تلخ سچائی یہ ہے کہ ہماچل کے ساتھ ساتھ گجرات میں بھی حکمراں جماعت کی ڈگر کٹھن نظر آ رہی ہے۔ گزشتہ 27 برسوں سے گجرات میں بی جے پی کی سرکار ہے۔ اتنے لمبے عرصے تک اگر کوئی حکمراں جماعت اقتدار کی کرسی پر براجمان رہتی ہے تو اس سے کچھ غلطیاں بھی ہوتی ہیں جس کے نتیجے میں اس کی حکومت کے خلاف صدائیں بلند ہونے لگتی ہیں۔ آج ہماچل یا گجرات کے عام لوگ جو ناراض ہیں، ان کی ناراضگی کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ اب عام لوگ بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ ہماچل ہو یا گجرات ان دونوں ریاستوں کے وزیراعلیٰ جے رام ٹھاکر اور بھوپیندربھائی پٹیل بس نام کے لیے ہیں۔ سرکار تو دلّی سے چلائی جا رہی ہے، سارے فیصلے دلّی سے ہو رہے ہیں۔ ان حقائق کے پیش نظر سیاسی مبصرین مانتے ہیں کہ ہماچل اور گجرات کے انتخاب میں بی جے پی کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے۔
گجرات میں اروند کجریوال ایک اہم فیکٹر دکھائی رے رہے ہیں اور شہری علاقوں میں ہونے والی ان کی ریلیوں میں اچھی خاصی بھیڑ جمع ہو رہی ہے۔ ان کی بات لوگ سنجیدگی سے سن بھی رہے ہیں۔ گو کہ کجریوال کی سیاسی عمر بہت کم ہے مگرسیاست کی بساط پر اپنے حریف کو مات دینے والی چالیں چلنا وہ سیکھ گئے ہیں۔ جس ہندتوکو بی جے پی اپنی ملکیت سمجھتی ہے اسی ہندتوکی پچ پراترکر کجریوال نے ایک ایسا داؤ چل دیاہے کہ جس کی کاٹ بی جے پی کے پاس یقینا نہیں ہے۔ کرنسی نوٹ پر گنیش جی اور لکشمی جی کی تصویر چھاپنے کی مانگ کرکے کجریوال نے بی جے پی کو مشکل میںڈال دیا ہے۔ اس داؤ سے آپ پارٹی کو گجرات میں بلاشبہ فائدہ ہوگا۔ دوسری طرف راہل گاندھی کی ’بھارت جوڑو‘ یاترا کی گونج بھی پورے ملک میں پھیل رہی ہے۔ حالانکہ قومی میڈیا اس یاترا کا کوریج اپنے چینلوں پرنہیں دکھا رہا ہے، تاہم سوشل میڈیا کے ذریعے راہل گاندھی کی یاترا میں امڈنے والے انسانی سیلاب کے پل پل کی تصویریں عوام الناس تک پہنچ رہی ہیں اور گزرتے ہوئے ہر دن کے ساتھ راہل کا سیاسی قد اور عام لوگوں میں ان کے لیے احترام بڑھتا جا رہا ہے۔ اب تو مہاراشٹر سے این سی پی سربراہ شردپوار اور شیوسینا سپریمو ادھو ٹھاکرے نے بھی اس یاترا کو حمایت دیتے ہوئے اس میں شامل ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ اس سے بھی جے پی میں کھلبلی مچ گئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اپوزیشن لیڈروں کے دل سے سی بی آئی، ای ڈی اور جھوٹے سیاسی مقدموں کا ڈر نکل گیا ہے اور اب یہ لوگ کرو یا مرو کے اصول پر ارباب اقتدار سے لڑنے کے لیے تیار ہیں۔ انہیں احساس ہو گیاہے کہ ڈر کے آگے جیت ہے۔
سیاسی سمجھ رکھنے والے کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ کجریوال بی جے پی کی بی ٹیم کی حیثیت سے گجرات میں اترے ہیں۔ کہنے والے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اویسی بی جے پی کی بی ٹیم ہیں۔ جہاں تک اویسی کا سوال ہے تو وہ بی جے پی کی بی ٹیم ہوسکتے ہیں لیکن کجریوال کے لیے ایسا نہیں کہا جا سکتا۔ کجریوال اپنے طریقے سے اپنی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ ان کے اپنے سیاسی مقاصد ہیں۔ وہ اپنی پارٹی کو نیشنل پارٹی کا درجہ دلانا چاہتے ہیں، اس لیے گجرات میں کود پڑے ہیں۔ گجرات گزشتہ کئی دہائیوں سے ہندتو کی پریوگ شالہ رہا ہے اور آج بھی ہے جس کی مثال حال ہی میں ایک پولیس افسر کے ذریعے ایک مسلم نوجوان کی سرعام پٹائی کا وائرل ویڈیو ہے۔ اس ریاست میں بی جے پی کی جڑیں بہت مضبوط ہیں، لہٰذا اسے یہاں سے اکھاڑ پھینکنا آسان نہیں۔ حالانکہ یہ گاندھی اور سردار پٹیل جیسے عظیم لیڈروں کا ہوم اسٹیٹ ہے مگر اس ریاست نے چند کٹر فرقہ پرست اور انتہا پسند عناصر کو بھی جنم دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کجریوال گجرات میں پنجاب جیسا کوئی چمتکار نہیں دکھاپائیں گے لیکن بی جے پی کا کھیل بگاڑنے میں انہیں کامیابی ضرور ملے گی۔
ہماچل میں کجریوال کی کوئی خاص موجودگی نہیں دیکھی جا رہی ہے۔ اس ریاست میں مقابلہ کانگریس اور بی جے پی کے درمیان ہے۔ دیش بھر کی طرح اس ریاست کے عام لوگ بھی مہنگائی ڈائن سے پریشان ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے کچھ گمبھیر مسائل بھی ہیں۔ وزیراعظم مودی اپنی مختلف ریلیوں میں یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ وہ ہماچل کے شہروں، قصبوں، گلیوں اور چوک چوراہوں سے اچھی طرح واقف ہیں۔ پرچارک کی حیثیت سے انہوں نے برسوں وہاں کام کیا ہے۔ وہاں کی گپھاؤں میں تپسیا کی ہے لیکن ہماچل کے عوام ان کے جذباتی مکالموں سے متاثر ہوتے دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ بی جے پی یہاں کتنی مضبوط ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتاہے کہ ایک ڈیڑھ سال قبل ہوئے ضمنی انتخابات میں ایک پارلیمانی اور تین اسمبلی سیٹیوں پر پارٹی ہار چکی ہے۔ یہاں ڈھائی لاکھ سرکاری ملازمین اپنے پنشن کے لیے آئے دن دھرنا دیتے ہیں اور جلوس نکال کر سرکار کے خلاف آواز اٹھاتے رہتے ہیں۔ قریب ساڑھے نو لاکھ پڑھے لکھے بے روزگار نوجوان ہیں جو اپنے اپنے شہروں میں دھرنا اور احتجاجی ریلیوں کے ذریعے سرکار سے ملازمت کی مانگ کرتے رہتے ہیں۔ ہماچل میں سیب کی کاشت کاری معیشت کا حصہ ہے۔ سیب اگانے والے کسان مودی جی کے قریبی دوست گوتم اڈانی سے بھی ناراض ہیں، اس بار بی جے پی نے ہماچل میں چرواہا کمیونٹی کے ایک بھی لیڈر کو ٹکٹ نہیں دیا ہے۔ ممکن ہے، سیاسی حکمت عملی کے تحت ایسا کیاگیا ہو مگر کہا جارہا ہے کہ چرواہا کمیونٹی اس بات سے ازحدناراض ہے۔ ہماچل کے تعلق سے یہ بات بھی سبھی جانتے ہیں کہ جے پی نڈا اور انوراگ ٹھاکر کے درمیان سرد جنگ جاری ہے۔ کہا یہ بھی جارہاہے کہ نڈا کے اشارے پر اس بار انوراگ ٹھاکر، ان کے والد پریم کمار دھومل اور سسر گلاب سنگھ ٹھاکر کو انتخابی ٹکٹ سے محروم کر دیا گیا ہے۔ لوگ یہ بھی جانتے ہیں کہ جے پی نڈا اور وزیر اعلیٰ جے رام ٹھاکر کو مودی جی کی پشت پناہی حاصل ہے۔ مجموعی طور پر ہماچل میں صورت حال پوری طرح بی جے پی کے حق میں نظر نہیں آتی۔
68 سیٹوں کے لیے 12 نومبر کو ہماچل کے عوام اپنے آئینی حق کا استعمال کرتے ہوئے ای وی ایم کا بٹن دبائیں گے اور 8 دسمبر کو یہ واضح ہو جائے گا کہ ریاست میں کس پارٹی کی سرکار بنے گی۔ عوام کی جائز ناراضگی اور سرکار مخالف لہر کے باوجود ایک سچ یہ بھی ہے کہ کسی بھی الیکشن کو جیتنے کے لیے بی جے پی کے پاس جو پیسوں کی طاقت اور دیگر ضروری سہولیات ہیں، وہ کسی بھی اپوزیشن پارٹی کے پاس نہیں ہیں۔ ایسے میں یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ ہوا کا رخ خلاف ہونے کے باوجود کیا بی جے پی ہماچل میں دوبارہ کنول کھلانے میں کامیاب ہوپائے گی یاراہل گاندھی کی ’بھارت جوڑیاترا‘ کی لہر کانگریس کو اقتدار کی کرسی پر بٹھا دے گی؟ ہماچل اور گجرات کے بعد 2023 میں دیگر کئی ریاستوں میں اسمبلی الیکشن ہونے ہیں، بی جے پی بلاشبہ ہر اعتبار سے ایک بے حد مضبوط پارٹی ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ ان دنوں یہ پارٹی مشکل دور سے گزر رہی ہے۔ بنگال کی شکست کے بعد یوپی کی فتح سے پارٹی کے لیڈروں میں تھوڑا اعتماد بڑھا تھا لیکن جھارکھنڈ اور بہار میں آپریشن لوٹس کی ناکامی سے بات بگڑ گئی۔ پھرنتیش کمار نے این ڈی اے سے ناطہ توڑ کر آر جے ڈی کے ساتھ سرکار بنا لیا۔ اس طرح نتیش نے بی جے پی کو ایک بڑا جھٹکا دے دیا۔ یہ ایسے سیاسی واقعات ہیں جن کے باعث بی جے ی کے لیے بہت سی مشکلیں کھڑی ہو گئی ہیں۔ یہ کہنا غیر مناسب نہ ہوگا کہ ہماچل اور گجرات کے نتائج آنکھیں کھول دینے والے بھی ہوسکتے ہیں۔n
(مضمون نگارفلم رائٹر اور تجزیہ کار ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS