عبیداللّٰہ ناصر
بالآخر انڈین نیشنل کانگریس کے قومی صدر کا انتخاب بحسن و خوبی مکمل ہوگیا اور جیسا کی امید تھی بزرگ اور پارٹی کے سینئر ترین لیڈر ملیکارجن کھڑگے نے اپنے مدمقابل ششی تھرور کو شکست دے کر ایک لمبے وقفہ کے بعد غیر گاندھی خاندان کا فرد ہوتے ہوئے کانگریس کی کمان سنبھال لی ہے۔ اس الیکشن کا پورا کریڈٹ راہل گاندھی کو جاتا ہے، جنہوں نے2019میں پارٹی کی شکست کے بعد اس کی اخلاقی ذمہ داری لیتے ہوئے اپنے عہدہ سے استعفیٰ دے دیا تھا اور اسی وقت اعلان کر دیا تھا کہ وہ اور نہ ہی ان کے خاندان کا کوئی فرد اگلا صدر کانگریس ہوگا۔اس وقت حالات ایسے تھے کہ پارٹی کے سینئر لیڈروں اور ورکنگ کمیٹی کے ارکان نے سونیا گاندھی کو عبوری صدر کی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے مجبور کر دیا، حالات ایسے بنتے رہے کہ عبوری صدر کی مدت کار بڑھتی رہی، آخرکار صدر کے عہدہ کے انتخاب کا اعلان ہوگیا، اس بار بھی راہل گاندھی ہی اڑ گئے کہ صدر اتفاق رائے سے نہیں بلکہ انتخاب کے ذریعہ ہی چنا جائے گا، ورنہ اگر وہ ذرا سی بھی ڈھیل دے دیتے تو یہ الیکشن نہ ہوتا اور کھڑگے جی یا کوئی اور اتفاق رائے سے پارٹی کا صدر منتخب ہوجاتا۔ کانگریس کے طالع آزما لیڈران یہی چاہتے تھے لیکن راہل نے ان کی چلنے نہیں دی۔ راہل نے اپنے اس ٹرمپ کارڈ سے بی جے پی، اس کے حامی میڈیا اور اپنے دیگر مخالفین کے تمام ہتھیار نہ صرف کند کر دیے بلکہ ان کے سامنے یہ چیلنج بھی کردیا کہ وہ بھی اپنے صدر کا انتخاب اسی انداز سے کرکے دکھائیں۔ حالانکہ بی جے پی اور اس کی ٹرول بریگیڈ اب بھی ہار ماننے کو تیار نہیں ہے اور اب جب پریوار واد کا ان کا ہتھیار کند ہوگیا تو اب وہ نئے صدر پر ربراسٹامپ اورریموٹ کنٹرول ہونے کا الزام لگا رہے ہیں لیکن یہ تو ان روایتی للتا پوار ٹائپ ساسوں والی حرکت ہے جو بہو کے ہر کام میں کوئی نہ کوئی خامی تلاش کرکے اس پر طعنہ زنی کرتی ہی رہتی ہیں اور میڈیا اس ساس کی چہیتی بیٹی یعنی بہو کی نند ہے جو دونوں مل کر بہو کو نشانہ پر رکھتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی اور اس کے حامی میڈیا کے پاس چرب زبانی اور الزام تراشی کے علاوہ کچھ بچا نہیں ہے۔راہل اب اسے پے در پے شکست فاش دے رہے ،ہیں ان کی بھارت جوڑو یاترا نے پہلے ہی بی جے پی کی نیندیں اڑا رکھی تھیں، پارٹی کے صدر کا یوں کھلا شفاف چناؤ اسے اور کارنر کرچکا ہے۔لن ترانی ہانکنے، لفاظی کرنے اور اپنے منہ میاں مٹھو بنتے رہنا تو الگ بات ہے۔
اس الیکشن میں کھڑگے جی کا مقابلہ ششی تھرور سے تھا، وہ بھی کوئی معمولی شخصیت کے حامل لیڈر نہیں ہیں وہ ملک ہی نہیں عالمی شہرت یافتہ دانشور، مصنف، ڈپلومیٹ اور سیاست داں ہیں۔وہ متحدہ اقوام میں تقریباً تیس برسوں تک اعلیٰ عہدہ پر رہے اور اگر امریکہ نے آخر وقت میں بانکی مون کی حمایت نہ کردی ہوتی تو وہ اس عالمی ادارہ کے پہلے ہندوستانی سکریٹری جنرل ہوتے۔وہ کیرالہ کی راجدھانی ترو اننت پورم سے تین بار لوک سبھا کے رکن منتخب ہوچکے ہیں، وہ پارٹی لائن سے بلند ہو کر ملک کے دانشوروں، نوجوانوں اور خواتین میں خاص کر بہت مقبول ہیں۔ان کی مقبولیت کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ اب تک کانگریس کے صدر کے جتنے بھی الیکشن ہوئے ہیں، ان میں ہارنے والے امیدواروں میں سب سے زیادہ تقریباً ایک ہزار ووٹ ششی تھرور کو ملے ہیں۔آخری الیکشن سونیا گاندھی اور کنور جتندر پرساد کے درمیان ہوا تھا جس میں آنجہانی کنور صاحب کو صرف 94ووٹ ملے تھے۔ششی تھرور کے حامی ’’دیش کا کوہ نور ششی تھرور‘‘ جو نعرہ لگا رہے تھے وہ کچھ غلط نہیں تھا۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ میں نے تقریباً دو ماہ قبل ہی کانگریس کو اس کالم کے ذریعہ مشورہ دیا تھا کہ وہ کسی دلت طبقہ کے لیڈر کو اپنا قومی صدر منتخب کرکے مہاتما گاندھی اور ڈاکٹر امبیڈکر کے خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کرے۔ میری نظر میں اس وقت سب سے پہلا نام کھڑگے جی کا ہی تھا، دو نام اور ذہن میں تھے میرا کمار اور مکل واسنک۔ میرا سیاسی تجزیہ یہ ہے کہ تقریباً15فیصدمسلمان پارلیمانی الیکشن میں کانگریس کو ووٹ دیں گے اگر ان کے ساتھ22فیصد درج فہرست ذات و قبائل(دلت) ووٹ بھی شامل ہو جائیں تو یہ ایک بڑا ووٹ بینک بی جے پی کے سامنے کھڑا ہو جائے گا جو سبھی طبقوں کے سیکولر انصاف پسند عناصر کو اپنی جانب راغب کر سکتا ہے۔حالانکہ اتنے مضبوط ووٹ بینک بنا لینے کے باوجود بھی بی جے پی کی ’’سیاسی حکمت عملیوں‘‘اور اس کے وسائل کا مقابلہ کرنا آسان نہیں ہوگا پھر بھی اسے ایک زبردست ٹکر دی جا سکتی ہے۔ بہار میں تیجسوی اور نتیش کا گٹھ جوڑ اگر بنا رہا اور بی جے پی کی طاقت والی دیگر ریاستوں میں کانگریس کا دلت مسلم+دیگر طبقوں کا ساتھ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی تو2024کی کہانی بدلی جا سکتی ہے، ویسے بھی آج کی تاریخ میں مودی حکومت صرف 30زائد ممبران پارلیمنٹ کی طاقت سے چل رہی ہے، اکثریت کے لیے 272ممبران کی حمایت درکار ہوتی ہے اور بی جے پی کے پاس303ممبران ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ کھڑگے جی کو کانگریس کی صدارت نہیں کانٹوں کا تاج ملا ہے۔ انہیں اندرونی اور بیرونی دونوں محاذوں پر اپنی توانائی، سیاسی بصیرت اور وسیع القلبی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ان کے سامنے سب سے بڑا چیلنج خود کو ریموٹ کنٹرول نہ ہونا ثابت کرنا ہے، وہ جانتے ہیں کہ عام کانگریسی کے دل میں نہرو گاندھی خاندان کی کیا اہمیت ہے، ظاہر ہے وہ ان لوگوں سے صلاح مشورہ کیے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کر سکیںگے لیکن صلاح مشورہ کرنا اور تابعداری کرنا دو الگ الگ باتیں ہیں۔راہل گاندھی نے یہ کہہ کر کہ ’’میرے اگلے کردار کا فیصلہ صدر کانگریس کریں گے۔‘‘ ایک طرح سے انہیں آزادی سے کام کرنے کا اشارہ دے دیا ہے لیکن پارٹی کے سیکڑوں طالع آزما لیڈران اپنی اپنی حرکتوں سے بعض نہیں آئیں گے۔ کھڑگے جی کو ان کے شر سے محفوظ رہنے کا راستہ خود تلاش کرنا ہوگا۔صدر کانگریس کے انتخاب کے دوران ہی اتر پردیش میں نئے ریاستی صدر کی نامزدگی اور ان کے ساتھ علاقائی صدور کی تقرری کس خانہ میں رکھی جائے گی؟ کیا جو عہدہ گزشتہ پانچ چھ مہینوں سے خالی پڑا تھا، اس پر تقرری ایک ہفتہ اور نہیں ٹالی جا سکتی تھی کہ نیا صدر اس عہدہ پر تقرری کرے، کانگریس کے آئین میں علاقائی صدور کا کوئی عہدہ ہے ہی نہیں، پھر کس کی مرضی سے یہ علاقائی صدور مقرر کیے گئے۔یہ بھی کیا کم حیرت کی بات ہے کہ صدر سمیت جو 6تقرریاں یو پی کانگریس میں کی گئی ہیں، ان میں سے پانچ لیڈران بہوجن سماج پارٹی سے آئے ہیں اور صرف ایک اصلی کانگریسی ہے وہ بھی کافی جونیئر۔کیا یو پی کانگریس میں ایسا کوئی بھی لیڈر نہیں تھا جو ریاستی صدر کی ذمہ داری سنبھال سکے۔میری اطلاع کے مطابق اس سلسلہ میں کئی لیڈروں سے بات ہوئی اور سب نے صرف ایک ہی شرط رکھی تھی کہ وہ یہ ذ مہ داری تبھی قبول کرسکتے ہیں جب انہیں آزادی سے کام کرنے دیا جائے گا۔یہ شرط کیوں ناقابل قبول ہوئی، یہ سمجھ پانا عام آدمی کے لیے مشکل ہوسکتا ہے لیکن جو لوگ اترپردیش کانگریس کمیٹی کے اندرونی حالات سے واقف ہیں، وہ جانتے ہیں کہ اس کی اصل وجہ کیا ہے اور اس کے پس پشت کون ہے۔کیا یہ لو گ کھڑگے جی کو بھی اسی طرح اپنے دام میں پھنسانے کی کوشش نہیں کریں گے۔ کھڑگے جی کو ان عناصر سے ہوشیار رہنا ہوگا۔ یہ کھڑگے جی کے نام کا ہی جادو تھا کہ کانگریس کے اندر ہی ابھرنے والے جی23کے ممبران سب ان کی حمایت میں کھڑے ہوگئے، یہی کھڑگے جی کی طاقت ہے اور اسی طاقت کے سہارے وہ کانگریس کو نئی توانائی دے سکتے ہیں۔ ان کے سامنے دوسرا سب سے بڑا مسئلہ راجستھان کا ہے جہاں ’ایک کو مناؤ تو دوجا روٹھ جاتا ہے‘ والی حالت ہے۔ راجستھان ان کی سیاسی فہم و فراست کا امتحان ہوگا۔اس کے علاوہ فوری طور سے ہماچل پردیش اور گجرات اسمبلی کے الیکشن پر بھی انہیں بھر پور توجہ دینی ہوگی، اس کے بعد اگلے سال اور بھی بہت سی ریاستی اسمبلیوں کے الیکشن ہیں اور 2024کا پارلیمانی الیکشن، کھڑگے جی کو مسلسل امتحان دیتے رہنا ہے۔ ان کے ساتھ پلس پوائنٹ یہ ہے کہ راہل کی ’’بھارت جوڑو یاترا‘‘ نے انہیں ایک مضبوط بنیاد فراہم کردی ہے، اس پر اپنی تنظیمی صلاحیت کو بروئے کار لا کر شاندار عمارت کھڑی کرنا ہے۔ پارٹی کو متحد رکھنا، اپوزیشن کو متحد کرنا اور اس اتحاد کے ذریعہ ملک کی آئینی جمہوریت کی حفاظت کرنے کی تاریخی ذمہ داری کھڑگے جی کے مضبوط کندھوں پر آئی ہے۔ اس میں کامیابی کے لیے ہمارے جیسے کروڑوں لوگوں کی نیک خواہشات ان کے ساتھ ہیں۔
(مضمون نگار سینئر صحافی و سیاسی تجزیہ نگار ہیں)
[email protected]