جنگ اگر جاری ہو تو اس کی توسیع کا اندیشہ رہتا ہے، یوکرین جنگ کی توسیع کا بھی اندیشہ بڑھتا جا رہا ہے۔ روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زاخارووا کا کہنا ہے کہ ، ’ایسا لگتا ہے کہ ناٹو ممالک کیف حکومت کو ہتھیار فراہم کرنے، انٹلیجنس فراہم کرنے، اہلکاروں کو تربیت دینے اور جنگی کارروائیوں کے طریقۂ کار کے بارے میں ہدایات جاری کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس طرح کے عمل سے ناٹو ممالک روس کے ساتھ براہ راست مسلح تصادم کی خطرناک لائن کے قریب آ رہے ہیں۔‘ ادھر امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے روسی ہم منصب سے گفتگو میں رابطہ برقرار رکھنے پر زور دیا ہے جبکہ فرانس کی وزیر خارجہ کیتھرین کولونا نے متنبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ روسی صدر پوتن کو پوری طرح تنہا کردینا خطرناک ہو سکتا ہے، چنانچہ پوتن کے ساتھ رابطے کی لائنوں کو کھلا رکھا جائے۔ ان بیانات سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یوکرین جنگ خطرناک موڑ پر پہنچ چکی ہے، نئے اندیشے پیدا کر رہی ہے، اندیشہ ایٹم بم کے استعمال کا بھی ہے، جنگ کی توسیع کا بھی، یہ توسیع نئی عالمی جنگ کا خطرہ بڑھا دے گی۔
جنگ چھیڑنا آسان ہوتا ہے، ختم کرنا آسان نہیں ہوتا مگر طاقت کے اظہار یا ہتھیاروں کے کاروبار کے لیے جنگ کو ضروری سمجھا جاتا ہے۔ اسی لیے جنگ کے لیے جواز پیدا کیا جاتا ہے، نئے ہتھیاروں کے استعمال کا بہانہ تلاش کیا جاتا ہے۔ عراق جنگ شروع کرنے کے لیے یہ جواز پیش کیا گیا تھا کہ صدام کے پاس عام تباہی کے ہتھیار ہیں جبکہ یہ جواز غلط ثابت ہوا۔ پہلی عالمی جنگ سے 3 سال پہلے لیوس گن (Lewis gun) کو ڈیزائن دے دیا گیا تھا، دوسری عالمی جنگ میں امریکہ نے ہیروشیما پر پہلے ’لٹل بوائے‘ اور پھر ناگاساکی پر ’فیٹ مین‘ ایٹم بم استعمال کیا تھا۔ ایک کے بعد دوسرے ایٹم بم کے استعمال کا مقصد یہ نہیں تو اور کیا دکھانا تھا کہ امریکہ کے پاس ’لٹل بوائے‘ ہی نہیں، ’فیٹ مین‘ بھی ہے، چنانچہ اسے دنیا کی واحد سپرپاور مان لیا جائے؟ امریکہ نے سوویت یونین کے اور سوویت یونین نے امریکہ کے دائرۂ اثرکو محدود کرنے کے لیے بہت کچھ کیا تھا۔ ’وارسا پیکٹ‘ کی تحلیل اور سوویت یونین کے بکھراؤ کے بعد ناٹو کی ضرورت نہیں رہ گئی تھی، اس کے باوجود اس کی توسیع کیوں ہوتی رہی؟ یہ بات ولادیمیر پوتن کے لیے ناقابل فہم نہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ امریکہ اور مغربی ممالک نے سوویت یونین کے دور کو نہیں بھلایا ہے، وہ روس کو اس کی جگہ رکھ کر دیکھتے ہیں، چنانچہ روس کو سوویت یونین والی پوزیشن حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، اس کی ابتدا علاقائی سطح پر کرنی چاہیے اور روس نے ایسا کیا۔ امریکہ نے جو کردار سوویت افغان جنگ میں ادا کیا تھا، کسی حد تک وہی کردار روس نے امریکہ کی افغان جنگ میں ادا کیا۔ 1971 میں ہنری کسنجر کے دو خفیہ اور 1972 میں رچرڈ نکسن کے باضابطہ دورے سے امریکہ نے چین سے تعلقات استوار کرنے، اسے سوویت یونین کے خلاف کھڑا کرنے کی کوشش کی تھی اور آج وہی چین روس کے ساتھ کھڑا ہے،کیونکہ اسے معلوم ہے کہ خطرہ امریکہ سے اسے زیادہ ہے، یوکرین سے جنگ کرکے روس جتنا کمزور ہوگا، اس کے لیے اتنا ہی بہتر ہے۔ اسی طرح یوکرین جنگ میں اگر توسیع ہوتی ہے، امریکہ اور اس کے اتحادی ناٹو ممالک اس میں الجھتے ہیں تواس کے لیے تائیوان پر حملہ کرنا آسان ہو جائے گا، جنوبی بحیرۂ چین اور شرقی بحیرۂ چین کے علاقوں پر قبضہ جمانے میں بھی زیادہ دشواری پیش نہیں آئے گی، کیونکہ اس نے بحریہ کو پہلے ہی بہت مضبوط بنا لیا ہے۔ یوکرین جنگ کی توسیع جنوبی کوریا پرخطرہ بڑھا دے گی، کیونکہ کم جونگ-اُن اور ان کے پیش رو لیڈران جنوبی کوریا کے شمالی کوریا میں انضمام کی خواہش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ ایران حمایتی حوثیوں کے خلاف سعودی جنگ میں شدت آنے، آذربائیجان-آرمینیا جنگ کے پھر سے شروع ہونے، علاقائی ملکوں کے خلاف اسرائیل کی جارحانہ پالیسی اختیار کرنے، یوروپی اور افریقی ملکوں کے اپنے مفادات کی حفاظت کے لیے طاقت کا اظہار کرنے کا اندیشہ یوکرین جنگ کی توسیع بڑھا دے گا۔ یہ وجہ بھی ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کشمکش میں مبتلا ہیں، ایک طرف یوکرین کی مدد کررہے ہیں، اسے روس کے خلاف مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں، دوسری طرف یہ بھی نہیں چاہتے کہ جنگ کی توسیع یوکرین کی سرحدوں کے پار تک ہوجائے یا روس ایٹم بم کا استعمال کرے، کیونکہ وہ جانتے ہیں، پھر یہ بتانے کی ضرورت نہیں رہ جائے گی کہ تیسری عالمی جنگ شروع ہو چکی ہے اوراتفاق سے اس کا محور بھی وہی یوروپ ہے جس کے لیڈران امن کی باتیں کرتے رہے ہیں۔
[email protected]
خطرناک موڑ پر یوکرین جنگ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS