عورت مشرق و مغرب کی کشمکش میں

0

پرواز لکھنی

عورت کے معاملہ میں “مغرب و مشرق” ہر دو طرف کا نظریہ عیب و نقص اور غلو و مبالغہ پر مبنی ہے۔ مغرب نے عورت کو جہاں بازارِ تجارت کی ایک “دکان” بنا چھوڑا ، وہیں مشرق نے عورت کو گھر کی چہار دیواری کی ایک لازمی اینٹ تصور کیا۔ مغرب نے جہاں ایک طرف عورتوں کے لیے ہر رطب و یابس علم و فن کو ضروری گردانا ، وہیں مشرق نے ان کی بیدار مغزی اور روشن دماغی تک کو اپنے معاشرہ کے لیے خطرہ جانا۔ وہاں گھر میں رہ جانے کو حماقت کا درجہ حاصل ہوا تو یہاں کسی صورت باہر قدم رکھ دینے کو عفت و پاکدامنی کے خلاف جانا گیا۔ وہاں عورت کا مکار و عیار ہونا اور نسوانیت کی نرمی و شرافت سے عاری ہونا، مقامِ فضیلت اور یہاں عورت کا اتنا سادہ لوح ہونا کہ ہر کوئی اپنے جال کا شکار بنا جائے فخر کا مقام۔ وہاں عورت کو اس قابل بنانے پر اصرار کیا گیا کہ عورت سرے سے مرد کی طرف احتیاج کی نگاہ اٹھا کر نہ دیکھے اور ہر معاملہ میں مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہو جائے اور یہاں ضد اس کی ہے کہ عورت ہمیشہ اور ہر صورت میں مرد کی دست نگر اور رحم و کرم کی خوگر بن کر رہے،حتی کہ کبھی خود اعتمادی کے ساتھ مرد سے مخاطب بھی نہ ہو پائے۔ وہاں آزادی کا خبط سوار ہے اور یہاں دائر کار کے محدود کرنے پر اصرار ہے۔ الغرض مشرق و مغرب کے دماغوں کی محدود صلاحیتوں سے تیار ہوئی دونوں تہذیبیں قابلِ اصلاح اور اعتدال و میانہ روی کی محتاج ہیں۔ خوش ہوئیے کہ اس اصلاح کا کام اسلام نے چودہ سو سال پہلے اس خوبی کے ساتھ انجام دیا کہ عورت کا عرصہ سے کھویا ہوا صحیح مقام اسے ہاتھ آ گیا مگر برا ہو مشرقی مسلمانوں کا کہ جنہوں نے اسلام کے دئے ہوئے تخیل و تصور کو بالکلیہ قبول نہ کرتے ہوئے اس پر بھی مشرقی غازہ چڑھا دیا اور مشرق و اسلام کو خلط ملط کر کے اسلام کی امتیازی تصویر پر روایتی دھبہ لگا دیا۔ نتیجہ اسلام کے متعلق یہ گمان ہونے لگا کہ یہ بھی مشرقی نظریہ کا امتداد و تسلسل ہے حالانکہ اسلام کے صدرِ اول کے واقعات پڑھئے تو بخوبی پتہ چل جاتا ہے کہ عورت پر لاد دئے گئے مشرقی و مغربی بوجھ دونوں کو رسول اللہؐ نے اپنی حکمتِ عملی سے یوں ہلکا کیا کہ نہ عورت پر مغرب کی طرح خود نانِ شبینہ کے انتظام کا بوجھ آ پڑا اور نہ مشرق کی طرح اس کی صلاحیتوں کو محدود و مختصر کیا گیا۔ ایک طرف دورِ جاہلیت کی طرح آوارہ گردی بھی مذموم ٹھہری تو دوسری طرف بوقتِ ضرورت اگر حکومت کی بھی اصلاح کی ذمہ داری آن پڑے تو نکل کر اس فریضہ کو بلا خوف و تردد ادا کرنا بھی پڑا۔ ایک طرف نگاہ جھکا کر، جسمانی زیب و زینت کو غیروں سے چھپا کر، حیا و پاک دامنی کو اختیار کرنے کا حکم دیا گیا تو دوسری طرف ایسا بلا کا اعتماد پیدا کر دیا گیا کہ ایک معمولی عورت بھی کھڑی ہو کر امیر المومنین کو ان کی غلطی پر تنبیہ کر سکے۔ عورت کے عقلی و فکری معیار کو بلند کرنے کا وہ اہتمام کیا گیا کہ ایک خاتونِ خانہ صلحِ حدیبیہ کے دل شکن اور نہایت حساس موقع پر ایسی رائے دینے کے قابل ہو جاتی ہے کہ وہ نبی جو حکمتوں کا خزانہ تھے، انہوں نے مشورہ سنا بھی اور اس پر عمل کر کے ایک بگڑتے ہوئے مسئلہ کو سنبھال لیا۔ الغرض بے شمار مثالیں اور بے شمار واقعات جن سے اسلام کا اعتدال پسند نظریہ کھل کر سامنے آ جاتا ہے۔ آج ستم یہ ہے کہ خود مذہبی گھرانوں میں عورتوں کو اسلامی حقوق حاصل نہیں ہیں، وہاں بھی مشرقی نظریہ کو غلبہ اور تسلط حاصل ہے اور گمان یہ ہے کہ ہم اسلامی راہِ عمل پر چل رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عورت کے معاملہ میں مشرق و مغرب کے نظریات سے توبہ کر کے اور انہیں مبنی بر غلط جان کر، اسلام کے اعتدال پسند نظریہ کو اختیار کیا جائے۔ عورت کو فکری و شعوری لحاظ سے مضبوط کیا جائے اور اپنے رویوں سے عورتوں کو خدارا یہ تاثر نہ دیا جائے کہ ان کے نبیؐ ان کے حقوق چھین کر گئے ہیں العیاذ باللہ، بلکہ اپنے اخلاق و معاملات سے قدم قدم پر ان کو یہ احساس دلایا جائے کہ یہ جو تمہیں ہماری جانب سے حقوق و انصاف مل رہا ہے یہ تمہارے نبیؐ کی تعلیمات کا نتیجہ ہیں۔ دوسرے ملکوں میں جو میرا جسم میری مرضی جیسے خدا مخالف نعرے لگ رہے ہیں ، اس میں صرف مغربی تہذیب کا کنٹریبیوشن نہیں ہے، بلکہ عورتوں کے ضمن میں ہمارے مشرقی رویہ نے بھی اس سیلابِ بد تمیزی کی راہ ہموار کی ہے جس سیلاب کا نتیجہ بالآخر تباہی و بربادی ہے۔قرآن میں ہے : اے ایمان والو! عدل کے علمبردار بنو ، اللہ کیلئے اس کی شہادت دیتے ہوئے اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر نہ ابھارے کہ تم عدل نہ کرو ۔ یہی تقوی سے قرب تر ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو ۔ بیشک اللہ جو کچھ تم کرتے ہو ، اس سے باخبر ہے ۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS