خواجہ عبدالمنتقم
کمسن افراد کے مختلف مقامات، کبھی کھیتوں میں تو کبھی اسکول جیسے مقدس مقامات میں،اجتماعی عصمت دری اور قتل عمد جیسے سنگین جرائم میں ملوث ہونے کی خبریں اخبارات کی سرخیاں بننا عام سی بات ہو گئی ہے اور وقت کا تقاضا ہے کہ اس طرح کے جرائم میں ملوث کمسن مجرمین کو بھی بالغ مجرمین کی طرح سزا ملنی چاہیے۔ قومی ریکارڈ بیورو کی 2020کی رپورٹ کے مطابق قانون شکنی کے 35,352معاملوں میں سے 26,954 معاملوں میںکمسن افراد ملوث تھے یعنی76.2 فیصد۔یہ صورت حال انتہائی سنگین ہے اور اگر عدالتوں نے کمسن افراد کے مندرجہ بالا نوعیت کے معاملوںمیںنرم رویہ رکھا تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ صورت حال اتنی سنگین ہوجائے گی کہ والدین کو اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے میں ڈر لگنے لگے گا اور کسان اپنے بچوں کو کھیت پر بھیجنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرنے لگیں گے۔حال ہی میں گڑگاؤں کےJuvenile Justice Boardنے یہ حکم صادر کیا ہے کہ اس کمسن لڑکے کو جس نے 2017 میں ایک پرائیویٹ اسکول کے کیمپس میں دوسری جماعت کے بچہ کا قتل کیا تھا اس کا بطور بالغ ملزم ٹرائل کیا جائے۔ اس معاملہ میں متاثر فریق کی جانب سے یہ دلیل دی گئی تھی کہ مبینہ ملز م اگرچہ ارتکاب جرم کے وقت کمسن تھا لیکن اس نے بڑی چالاکی کے ساتھ قتل کی مجرمانہ نیت سے منصوبہ بندی کی تھی اور وہ اس بات کو اچھی طرح سمجھتا تھا کہ اس طرح کے جرم کی سزا کیا ہے۔ ویسے بھی انصاف کا تقاضا ہے کہ اگر کوئی کمسن جو سن بلوغ کو پہنچنے ہی والا ہو، ایک بالغ شخص کی طرح مجرمانہ رویہ اختیار کرتا ہے بلکہ یوں کہیے کہ دیگر بالغ ملزموں سے بھی سخت تر، تو اس نابالغ کو بالغ ہی تصور کیا جانا چاہیے۔
کمسن افراد کے ساتھ انصاف ایکٹ کی دفعہ15کے مطابق بورڈ اس ابتدائی تحقیقات کے بعد کہ کیا کمسن ملزم اس قابل تھا کہ وہ قتل عمد جیسے جرم کا ارتکاب کرسکے،کیا وہ اس بات کو سمجھتا تھا کہ اسے اس جرم کے ارتکاب کی صورت میں کون سے نتائج بھگتنے ہوں گے اور یہ کہ ارتکاب جرم کے وقت کس طرح کے حالات تھے،کمسن ملزم کو بالغ ملزم کے طور پر ٹرائل کے لیے بھیج سکتا ہے۔ان سب باتوں کا اندازہ ملزم کے طبعی و نفسیاتی ٹیسٹ کے بعد ہی لگایا جا سکتا ہے۔ مندرجہ بالا قانون کا سہرا تونربھیا کے سر ہی بندھے گاجو نڈر ہو کر انسانوں کی شکل میں درندوں سے برابر مقابلہ کرتی رہی اور عورت ہوتے ہوئے بھی بستر مرگ پر مو ت و حیات کی جنگ پوری مردانگی سے لڑتی رہی اور آ خرکار زخموں کی تاب نہ لا کر اس دنیا سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے رخصت ہوگئی۔ جہاں اس نے ایک جانب نڈر ہونے کا ثبوت دیا تو دوسری جانب اس نے جیوتی ہونے کے ناطے ان لوگوں کو اندھیرے غار سے نکال کر وہ سب کچھ دیکھنے کے لیے روشنی عطا کی جسے دیکھ کر ہر روشن ضمیراور دردمند دل رکھنے والے شخص میں حرارت پیدا ہو جائے۔اس طرح لب بستہ افراد بھی لب کشا ہوگئے اور اس لب کشائی کا قانونی نتیجہ اس قانون کی شکل میںہم سب کے سامنے ہے۔ کم عمر بچوں کو سزا دینے یا نہ دینے کی بات کوئی نئی نہیںجس کا بالواسطہ ثبوت تعزیرات ہند،جس کا اب نیا نام مجموعہ تعزیرات بھارت ہے، کی دفعہ83ہے جس میں یہ بات کہی گئی ہے کہ ایسا کوئی فعل جرم نہیں ہے جو 7سال سے زائد اور 12سال سے کم عمر کا ایسابچہ کرے جس کی عقل اس قدر پختہ نہ ہوئی ہو کہ وہ اس موقع پر اپنے طرز عمل کی نوعیت اور اس کے نتائج کو سمجھ سکے۔ اس طرح اس دفعہ کی معروضی تعبیر سے بھی یہی نتیجہ نکلے گا کہ اگر کسی کی عمر 18سال سے کم بھی ہے اور اس کی عقل اس قدر پختہ ہوگئی ہے یعنی وہ سن تمیزیاسن شعور (Age of Discretion)کی حدود میں پہنچ چکا ہے اور اسے اتنی تمیز پیدا ہوگئی ہے کہ وہ نیک وبد میں فرق کرسکے اورجو فعل وہ کر رہا ہے، اس کی نوعیت یا نتائج کو سمجھ سکے تواس کے ساتھ بھی وہی قانونی برتاؤ کیا جانا چاہیے جو بالغ مجرمین کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ جوینائل ایکٹ میں بالغ کے بجائے کمسن لفظ کا استعمال کیا گیا ہے اور کمسن اس شخص کو کہا گیا ہے جس کی عمر 18سال سے کم ہو۔
نربھیا والے معاملے میں بھی وہ نوعمر مجرم جس کا رویہ پختہ عمر مجرمین سے بھی زیادہ وحشیانہ تھا سخت سے سخت سزا کا مستوجب تھا مگر افسوس کہ سپریم کورٹ نے بھی آئین کی دفعہ141 کے تحت بے پناہ اختیارات حاصل ہونے کے باوجودقانونی مجبوریوں کے آگے سر تسلیم خم کر دیا اور کمسن مجرم کی رہائی کا حکم صادر کر دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ نام نہاد نوعمر لڑکا ایسی مثالی سزا کا مستحق تھا جس سے آئندہ لوگوں کو یہاں تک کہ نوعمر افراد کو بھی ایسا سبق ملتا کہ وہ ایسے جرم کے ارتکاب کی بات تو کیا اس کے بارے میں سوچتے بھی نہیں۔ کمسن مجرمین کے معاملوں میں سپریم کورٹ کا رویہ عام طور پر نرم ہی رہتا ہے۔ دیکھئے اب آئندہ ماہ چیف جسٹس کا حلف لینے والے جسٹس چندر چوڑ کا کیا رویہ رہتا ہے۔ اگر عدلیہ نے اس معاملے میں سختی سے کام نہیں لیا تو روڈریج،چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوںریزی، نازیبا کلمات کا استعمال یا قابل اعتراض کلمات کی ادائیگی کے لیے کسی کو مجبور کرنا، عبادت گاہوں پر حملے،سیکورٹی گارڈوں کے ساتھ مار پیٹ اور ان کے ساتھ نازیبا سلوک، لنچنگ،اجتماعی عصمت دری،بچوں کے ساتھ نازیبا حرکتیں،پتھر بازی، قابل اعتراض نعرے لگانے،ارباب حکومت اور سیاست دانوں کے خلاف غیرشائستہ زبان کا استعمال کرنے جیسے واقعات/جرائم میں اضافہ یقینی ہے۔
یہاں اس بات کا ذکر بھی بے محل نہ ہوگا کہ برطانیہ جیسے ملک میں، جس سے ہمارے بیشتر قوانین وراثت میں ملے ہیں اور ہمارے قانون ساز ادارے آج بھی لارڈ میکالے جیسے ماہر واضعین قانون کے مرہون منت ہیں، وہاں پر بھی اس طرح کے مجرمین کے خلاف سنگین جرائم کے ارتکاب کی صورت میں شروع میں مقدمہ یوتھ کورٹ میں ہی چلایا جاتا ہے مگر معاملے کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے بعد میں یہ مقدمہ کراؤن کورٹ کو بھیج دیا جاتا ہے اوریہ عدالت انہیں جرم کی نوعیت کے حساب سے زیادہ سزا دینے کی مجازہے۔ علاوہ ازیں فلوریڈا، انڈیانا، جنوبی ڈکوٹا اور ورمونٹ میں تو 10سال سے کم عمر کے بچوں پر بھی، اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ ان میں کسی حدتک قوت شعوروتمیز پیدا ہوگئی ہے، بالغوں کے لیے بنائی گئی عدالتوں میں مقدمہ چلایا جاسکتا ہے۔
معاشرے میںانحطاط اقدار اور اخلاقی زوا ل کے مد نظر ہمارے پارلیمانی نمائندوں نے بھی اس قانون سے متعلق بل کو متفق الرائے ہوکر منظوری د ی تھی۔در اصل ہم میں سے بیشتر لوگوں نے مغربی فلسفیوں اور ماہرین قانون کے اس نظریے کو کافی حدتک قبول کرلیا ہے کہ قانون اور اخلاقیات دو الگ الگ چیزیں ہیں لیکن جہاں تک ہمارے معاشرے کی بات ہے، اس میں اخلاق اور قانون کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اگر ہمارے اخلاقی اقدار میں بہتری کے بجائے زوال آتا رہا تو صورت حال بد سے بدتر ہوتی چلی جائے گی۔
(مضمون نگار آزاد صحافی، مصنف، سابق بیورکریٹ اور عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تاحیات رکن ہیں)
[email protected]