محمد فاروق اعظمی
مذہبی آزادیوںکو پابندی سے مشروط قرار دینے اورحجاب کو باعث عزت و افتخار نہ سمجھنے والے عالی مرتبت جسٹس ہیمنت گپتا سبکدوش ہوگئے۔ اپنی سبکدوشی سے ایک دن قبل سپریم کورٹ کے بارایسوسی ایشن کی جانب سے دی گئی الوداعیہ تقریب میںآنجناب نے دانش و بصیرت کے جو جوہر بکھیرے ہیں یہ ان ہی کاخاصہ تھا۔ موصوف نے فرمایا کہ ایک جج کا کام لوگوں کو خوش کرنا نہیں ہے یہ اس کے تفویض کردہ کردار کے خلاف ہے۔ لوگوں کوخوش کرنے کا ارادہ باندھ کر جج کا کردار ادا نہیں کیاجاسکتا ہے۔ یہ کردار عوامی زندگی میں دوسرے لوگوں کو تفویض کیے گئے ہیں۔اپنے فرائض کی انجام دہی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ عدالت میں ان کا رویہ صاف، واضح اور دوٹوک ہوا کرتا ہے، جو درست سمجھا اس کے مطابق فیصلے صادر کیے۔ وہ مطمئن ہیں کہ انہوں نے اپنی عادلانہ بصارت و بصیرت کے مطابق ملک کے نظام عدل میںاپنا حصہ ڈالا۔عاجزی، انکساری اور فروتنی کی انتہائی حدوں کو چھوتی ہوئی ان کی تقریر دل پذیر سن کر لوگ مبہوت ہوگئے۔ موصوف نے فرمایا کہ انہیں کوئی دعویٰ کمال نہیںہے، غلطیاں اور کوتاہیاں ان سے بھی ہوئی ہیں لیکن یہ غلطیاں اور کوتاہیاں غیرارادی تھیں۔ وادی انصاف کی پرخار راہوں پر سفر کرتے ہوئے ضبط و تحمل کوحرزجان بنائے رکھا اور آج وہ کلی اطمینان قلب کے ساتھ سبکدوش ہورہے ہیں۔
ان کی تقریر ایسی نہیںتھی جس میں کوئی سقم ہو یا ذم کا پہلو نکلے۔ انہوںنے کوئی متنازع اور چونکادینے والی گفتگو بھی نہیں کی بلکہ اپنے پیش روئوں کی طرح ملک کے عدالتی نظام کی خامیوں پر بھی کوئی تبصرہ نہیں کیا۔لیکن ان کے چند ایک فیصلے ایسے ہوئے ہیں جنہیں ان کی الوداعی تقریر کے تناظر میں دیکھے جانے کی ضرورت ہے۔
’حجاب ‘کے سلسلے میں ان کا فیصلہ بھی ان میں سے ایک ہے۔یہ فیصلہ سناتے ہوئے انہوں نے مدعیان کی یہ دلیل بھی قبول کرنے سے انکار کردیا کہ حجاب لڑکیوں کی عزت و وقار میں اضافہ کا سبب ہوتا ہے۔اس کے برخلاف اپنے فیصلے میں 15 مارچ کو کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے کلاس رومز میں حجاب پہننے پر پابندی کی توثیق کردی۔ اس دلیل کوبھی مسترد کر دیا کہ طالبات کو سر پر حجاب پہننے کے حق سے محروم کرنا ان کے کلاس میں جانے کے حق سے بھی محرومی ہے۔ جسٹس ہیمنت گپتا نے کہا کہ طالبات کا کالجوں اور اسکولوں میں اپنی مذہبی علامت لے جانا یکسانیت کے خلاف ہوگا۔ انہوں نے اسکول یونی فارم کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ طلبا و طالبات کو ایک جیسا نظر آنا چاہیے،ایک جیسا محسوس کرنا چاہیے،ایک جیسا سوچنا چاہیے اور ایک ساتھ پڑھنا چاہیے اور یونیفارم کا مقصد یہی ہے کہ ظاہری شکل میں یکسانیت لائی جاسکے۔ انہوں نے اس دعوے کو بھی مسترد کردیا کہ حجاب پہننے پر پابندیاں برادرانہ تعلقات کی ترقی میں رکاوٹ بنیں گی۔ جسٹس گپتا نے کہا کہ بھائی چارے کے ’تجریدی خیال‘ کو زمینی حقائق پر لاگو کرنا ہوگا۔اگر طلباوطالبات کو کلاس روم میں اپنے ساتھ اپنی ظاہری مذہبی علامتوں کو لے جانے کی اجازت دی جائے تو اس سے بھائی چارے کا آئینی ہدف ناکام ہو جائے گا۔اپنے فیصلے میں انہوں نے آئین کے آرٹیکل 19کے اطلاقات کو پابندیوں سے بھی مشروط قراردیا۔انہوں نے کہا کہ کوئی بھی بنیادی حق مطلق نہیں ہے اور مناسب طریق کار پر عمل کرکے اس حق کو کم کیا جاسکتا ہے اور یہ کہ آرٹیکل 25 کے تحت ضمیر اور مذہب کی آزادی آرٹیکل25(1) کے تحت فراہم کردہ پابندیوں کے تابع ہے۔
اب تک یہی سننے اور پڑھنے میں آتا رہاہے کہ ہندوستان کے آئین نے اپنے شہریوںکوکچھ بنیادی حقوق فراہم کیے ہیں جن میں مساوات کا حق، آزادی کا حق، غصب کے خلاف حق، مذہب، ثقافت اور تعلیم کی آزادی کا حق اور آئینی چارہ جوئی کا حق شامل ہے۔آزادی کے حقوق میں آئین شہریوں کو 6 قسم کی آزادی فراہم کرتا ہے جن میں اظہار رائے کی آزادی، اجتماع کی آزادی، تنظیم یا ادارہ سازی کی آزادی،ہندوستان کے پورے علاقے میں آزادانہ نقل و حرکت کی آزادی، ہندوستان کے علاقے میں کہیں بھی آباد ہونے کی آزادی اور کوئی بھی پیشہ، تجارت یا کاروبار کی آزادی شامل ہے۔ ان تمام حقوق میں ریاست مداخلت کا اختیار نہیں رکھتی ہے۔لیکن جسٹس ہیمنت گپتا نے آئین کی تعبیر و تشریح کا مقدس فریضہ ادا کرتے ہوئے جو مخفی گوشے اجاگر کیے ہیںاور ان کے ایوان عدل کے افق سے انصاف کا جو نیرتاباں طلوع ہو ا ہے، اس کی تمازت شہریوں کے حق آزادی کو برف کی طرح پگھلاسکتی ہے۔
وکالت سے اپنی عملی زندگی شروع کرنے والے ہیمنت گپتا نے تیزی سے ترقی کے زینے طے کیے اور سپریم کورٹ کے جج کا عہدہ جلیلہ بھی ان کے حصہ میں آیا۔ملک کے عدالتی نظام سے وابستگی کے دوران ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل بھی رہے۔کئی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اورقائم مقام چیف جسٹس بھی بنائے گئے۔ پٹنہ ہائی کورٹ، پنجاب و ہریانہ ہائی کورٹ طویل عرصہ تک ان کی خدمات سے مستفیض ہوئے۔پنجاب و ہریانہ ہائی کورٹ کو جدید ٹیکنالوجی پر منتقل کرنے میں جسٹس ہیمنت گپتا کا کردار ناقابل فراموش رہا ہے۔ جسٹس ہیمنت گپتا 10سال سے زیادہ عرصہ تک پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کی کمپیوٹر کمیٹی کے رکن رہے اور اس عرصے میں عدالتی فائلوں کے پورے ریکارڈ کو ڈیجیٹلائز اور ہائی کورٹ کو مکمل کمپیوٹرائزڈ بھی کرایا۔ کیس، کیس مینجمنٹ سسٹم کا تعارف، ای ڈائری کا اجرا وغیرہ ان کے نمایاں کام ہیں۔ اونچے عدالتی حلقوںمیں انہیں ڈیجیٹائزڈجج بھی کہا جاتاہے۔لیکن ان سب کے ساتھ ہی ان کے بعض فیصلے اور آرا تحفظات اور تنازعات کے گھیرے میںبھی رہے ہیں۔ ان میں سے ایک ’ بندھوامزدور‘ کو پیسے کا لالچی قرار دینا اور انہیں پس ماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والا ایسا طبقہ بتانا جو پیسے لیتا، پیسے کھاتااور استعفیٰ دے دیتا ہے۔
عالی مرتبت جج صاحب کی یہ رائے بھی اسی سال ستمبر کے اوائل میںاس وقت سامنے آئی تھی جب ان کے سامنے جموں و کشمیر میں بندھوا مزدور کے طور پر کام کرنے والی ایک خاتون کی طرف سے لگائے گئے عصمت دری اور دیگر جرائم کے الزامات کی تحقیقات کیلئے عدالت سے ہدایات مانگنے والی درخواست پیش ہوئی تھی۔ 2012میں دی گئی اس درخواست میں کہاگیاتھاکہ بندھوا مزدور کوتعمیراتی یونٹ کے مالک نے بار بار زیادتی کا نشانہ بنایا،اس معاملہ میں انصاف طلب کرتے ہوئے یہ مطالبہ بھی کیا گیا تھا کہ بندھوا مزدوروں کی شناخت کرکے ان کی بازآبادکاری کی جائے۔ لیکن اس کی سماعت کی باری اس وقت آئی جب مدعی خاتون بندھوا مزدوراور درخواست گزاردونوں کاانتقال ہوگیا۔ متوفی خاتون کی جانب سے پیش ہونے والی ایڈووکیٹ پوجا شرمانے کہا کہ کئی بندھوا مزدوروں کو جنسی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا ہے اور ایک دہائی گزرنے کے بعد بھی انہیں کوئی معاوضہ ادا نہیں کیا گیا ہے۔تمام دلیلیں سننے کے بعد انصاف پرور جج جسٹس ہیمنت گپتا نے تبصرہ کیاتھا کہ بندھوا مزدوری کے بہانے ایک ریکٹ چل رہا ہے اور ایسے لوگ جو پسماندہ علاقوں کے ہیں وہ اس بندھوا مزدورہونے، کا فائدہ اٹھا کر پیسہ کھا رہے ہیں۔انہوں نے استفہام کیا کہ کیا آپ جانتے ہیں کہ بندھوا مزدور کون ہیں؟ وہ بندھے ہوئے نہیں ہیں۔ وہ پیسے لے کر وہاں آتے ہیں اور اینٹوں کے بھٹوں پر لگ جاتے ہیں۔ وہ پسماندہ علاقوں سے آتے ہیں۔ پیسے لیتے ہیں، پیسے کھاتے ہیں اور پھر استعفیٰ دیتے ہیں، یہ ایک ریکٹ ہے۔جسٹس ہیمنت گپتا کے اس تبصرہ پر پرشانت بھوشن اور کئی دیگر ممتازوکلا اور سماجی کارکنوں نے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے عدلیہ میں اعلیٰ عہدے پر فائز شخص کی سنگین بے حسی قرار دیاتھا۔
یہ درست ہے کہ قانون اندھا ہوتا ہے۔مسند انصاف پر بیٹھاہوا جج اپنی آنکھوں پرایک تخیلاتی کالی پٹی باندھ لیتا ہے۔ مقدمہ کے فریقین کو نہیںدیکھتا بلکہ دستیاب ثبوت و شواہدکی روشنی میں فیصلے کرتا ہے۔کسی فریق کو خوش کرنا اس کے مطمح نظرنہیں ہوتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ قطعی نہیں کہ اس عمل میں حقائق سے بھی پہلوتہی کی جائے اور اندھیرے میں تیر چلایا جائے۔ آئین کی تعبیر وتشریح اوراس کے اطلاقات کوعادلانہ بصیرت کے بجائے سطحی مظاہر سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش نظام عدل کو بے فیض بنانا ہوگا جیسا کہ حجاب معاملے میں نظر آرہا ہے۔
[email protected]