اخبار کے اشتہار میں انڈین وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن، سپریم کورٹ کے ججوں، انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) اور دیواس اینٹرکس مقدمے سے منسلک اہلکاروں کو مطلوبہ قرار دیتے ہوئے ان پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
13 اکتوبر کو اخبار میں شائع ہونے والے اس اشتہار میں لکھا ہے کہ ’ملیے ان افسران سے جنھوں نے انڈیا کو سرمایہ کاری کے لیے ایک غیر محفوظ جگہ بنا دیا ہے۔‘
اس میں 11 لوگوں پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا گیا ہے اور اشتہار کا عنوان ’مودی کی میگتیسکی 11‘ دیا گیا ہے۔کس نے اشتہار جاری کیا؟
امریکہ کی غیر سرکاری تنظیم فرنٹیئرز آف فریڈم نے یہ اشتہار جاری کیا ہے۔ فرنٹیئرز آف فریڈم کی ویب سائٹ کے مطابق یہ ایک تعلیمی ادارہ ہے جو ’انفرادی آزادی، طاقت کے ذریعے امن، محدود حکومت، آزاد کاروبار، آزاد منڈیوں اور روایتی امریکی اقدار‘ کے اصولوں کو فروغ دیتا ہے۔
اس اشتہار میں 11 افراد کے نام درج ہیں اور ان کے ساتھ لکھا گیا ہے: ’مودی حکومت کے ان افسران نے سیاسی اور کاروباری حریفوں سے بدلہ چکانے کے لیے ریاستی اداروں کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر کے قانون کی حکمرانی ختم کی ہے، انھوں نے انڈیا کو سرمایہ کاروں کے لیے غیر محفوظ بنا دیا ہے۔‘
اس میں مزید لکھا ہے: ’ہم امریکی حکومت پر زور دیتے ہیں کہ وہ گلوبل میگنیتسکی ہیومن رائٹس اکاؤنٹیبلٹی ایکٹ کے تحت ان کے خلاف اقتصادی اور ویزا پابندیاں عائد کرے۔ مودی حکومت میں قانون کی حکمرانی میں کمی آئی ہے اور انڈیا سرمایہ کاری کے لیے ایک خطرناک جگہ بن گئی ہے۔‘
’اگر آپ انڈیا میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں تو آپ ایسا کرنے والے چند افراد میں سے ہو سکتے ہیں۔‘
رواں سال اگست میں فرنٹیئرز آف فریڈم نے گلوبل میگنیتسکی انسانی حقوق کے احتساب ایکٹ کے تحت ایک درخواست دائر کی تھی جس میں انڈین حکام پر ’اداروں کے غلط استعمال‘ کا الزام لگاتے ہوئے کہا گیا کہ حکام ’انڈیا کی مجرمانہ تفتیشی ایجنسیوں اور عدالتوں کے ذریعے‘ احتساب کے مراحل میں تعطل پیدا کر رہے ہیں۔
اس پٹیشن کے دستاویز میں یہ درج تھا کہ فرنٹیئرز آف فریڈم یہ پٹیشن دیواس ملٹی میڈیا امریکہ انک اور اس کے شریک بانی رام چندر وشواناتھن کی جانب سے دائر کر رہی ہے۔
اخبار میں شائع ہونے والے اشتہار میں جن لوگوں کے نام دیے گئے ہیں ان میں وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن، اینٹرکس کے چیئرمین راکیش ششی بھوشن، سالیسٹر جنرل تشار مہتا، ایڈیشنل سالیسٹر جنرل این وینکٹ رمن، جسٹس ہیمنت گپتا، جسٹس وی راما سبرامنیم، سی بی آئی کے ڈی ایس پی آشیش پاریک، ای ڈی کے ڈائریکٹر سنجے کمار مشرا، ڈپٹی ڈائریکٹر اے صادق محمد نیجنار، اسسٹنٹ ڈائریکٹر آر راجیش اور خصوصی جج چندر شیکھر شامل ہیں۔
فرنٹیئرز آف فریڈم کے بانی اور ریپبلکن سینیٹر جارج لینڈرتھ نے اس اشتہار کو ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ‘فرنٹیئرز آف فریڈم کا نیا اشتہار انڈیا کے میگنیتسکی الیون اور وزیر خزانہ کی کارروائیوں کو بے نقاب کرتا ہے، جنھوں نے انڈیا میں قانون کی حکمرانی اور سرمایہ کاری کے ماحول کو تباہ کیا ہے۔’
انھوں نے اگلے ٹویٹ میں لکھا کہ ‘انڈیا کی میگنیتسکی الیون، نرملا سیتارامن، نریندر مودی اور بی جے پی نے انڈیا میں ممکنہ سرمایہ کاروں کو واضح پیغام دیا ہے کہ انڈیا سرمایہ کاری کے لیے ایک خطرناک جگہ ہے۔’
اشتہار کے پیچھے کوئی اور ہے؟
اس اشتہار کے منظر عام پر آنے کے بعد انڈیا میں بہت سے لوگ اس کی مذمت کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی کچھ لوگوں نے کہا ہے کہ اس اشتہار کے پیچھے کسی اور شخص کا ہاتھ ہے۔
اطلاعات و نشریات کی وزارت میں سینیئر مشیر کنچن گپتا نے ٹویٹ کیا ہے کہ دھوکہ بازوں کی جانب سے امریکی میڈیا کو بطور ہتھیار استعمال کرنا شرمناک ہے۔ وال سٹریٹ جرنل میں انڈیا کی حکومت کو نشانہ بنانا حیران کن حد تک قابل نفرت ہے۔
اس کے بعد کنچن گپتا نے ٹویٹ میں سوال کیا ہے کہ ’کیا آپ جانتے ہیں کہ اس اور اس طرح کے اشتہارات کے پیچھے کون ہے؟ یہ اشتہاری مہم مفرور رام چندر وشواناتھن چلا رہے ہیں جو دیواس کے سی ای او تھے؟’
Check out pg. A8A of the @WSJ DC edition today for @Fof_Liberty 's newest ad exposing #IndiasMagnitsky11 & @FinMinIndia @NirmalaSitharaman 's actions that have decimated the rule of law & investment climate in India pic.twitter.com/6aiVHrq6A6
— George Landrith (@GLandrith) October 13, 2022
کنچن گپتا اپنی اگلی ٹویٹ میں لکھتے ہیں: ’وشواناتھن انڈیا میں ایک اشتہاری مفرور معاشی مجرم ہیں۔ انڈین سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ ان کی کمپنی دیواس بدعنوانی میں ملوث تھی۔ یہ صرف انڈین حکومت کے خلاف مہم نہیں ہے یہ عدلیہ کے خلاف بھی ہے۔ یہ انڈیا کی خودمختاری کے خلاف مہم ہے۔‘
This is not journalism,but a defamatory statement. What is the WSJ's advertising policy? This is a slur against journalism. Indeed, Muslim Brotherhoods collaborate with some Democrats who are dissatisfied with India's progress. Collectively,we stand with India against this insult pic.twitter.com/hzuVyWSzgG
— Amjad Taha أمجد طه (@amjadt25) October 15, 2022
دوسری جانب برطانوی مڈل ایسٹ سینٹر فار اسٹڈیز اینڈ ریسرچ میں عسکری اور سیاسی امور کے ماہر امجد طحہٰ نے ٹویٹ کیا کہ ’یہ صحافت نہیں بلکہ ہتک آمیز بیان ہے۔ وال سٹریٹ جرنل کی اشتہاری پالیسی کیا ہے؟ یہ صحافت پر بدنما داغ ہے۔ ہم اس تذلیل کے خلاف انڈیا کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘
رام چندر وشواناتھن کون ہیں؟
امریکی شہری رام چندر وشواناتھن دیواس کے شریک بانی رہ چکے ہیں۔ سنہ 2005 میں بنگلورو کی سٹارٹ اپ کمپنی دیواس ملٹی میڈیا اور انڈین سپیس ریسرچ آرگنائزیشن (ISRO) کی کمرشل کمپنی اینٹرکس کارپوریشن کے درمیان سیٹلائٹ کا معاہدہ ہوا تھا، جسے بعد میں منسوخ کر دیا گیا۔
تاہم دیواس سے جڑا معاملہ ستمبر میں ایک بار پھر روشنی میں آیا جب بنگلورو کی ایک خصوصی عدالت نے ای ڈی کو منی لانڈرنگ کے ایک معاملے میں وشواناتھن کو ’مفرور معاشی مجرم‘ قرار دینے کی اجازت دی۔
رواں سال اگست میں دہلی ہائی کورٹ نے دیواس ملٹی میڈیا کے حق میں 2015 کے انٹرنیشنل چیمبر آف کامرس (ICC) کے 1.3 بلین ڈالر کے فیصلے کو پلٹ دیا۔
انڈیا بدعنوانی کے الزام میں وشواناتھن کی گرفتاری چاہتی ہے اور اس نے دو طرفہ باہمی قانونی معاونت کے معاہدہ (MLAT) کے تحت ماریشس میں دیواس کے اکاؤنٹس منجمد کر دیے تھے۔ اس کے ساتھ ہی حکومت نے انٹرپول سے وشوناتھ کے خلاف ریڈ کارنر نوٹس جاری کرنے اور امریکہ سے ان کی حوالگی کا مطالبہ کیا ہے۔
دوسری جانب دیواس ملٹی میڈیا بھی اپنی قانونی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔ آئی سی سی کے فیصلے کی بنیاد پر انھوں نے امریکہ، فرانس اور کینیڈا کی عدالتوں سے رجوع کیا تھا۔
اس کے بعد رواں سال اگست میں ان کے اینٹرکس کارپوریشن آف امریکہ کے اکاؤنٹ سے 87 ہزار ڈالر اور پیرس میں جائیداد ضبط کر لی گئی۔