یہ ہوئی نا۔۔۔عورتوں والی بات!

0

حنیف سید

یہ ہوئی نا۔۔۔عورتوں والی بات!‘ نرگس کا اذن سے انکار کی درد ناک خبر کے ساتھ اس کی بھیجی ہوئی یہ چھوٹے سے کاغذ کی چٹ پڑھتے ہی ہو کیا گیا مجھ باون سال کے دولہے کو؟ نہ ایسا سناکبھی اور نہ ہی کبھی ایسا دیکھا۔ یہ سن اور دیکھ کر مجھے نہ توکچھ دکھائی دے رہا ہے اور نہ ہی کچھ سنائی۔ چاروں طرف اندھیراہی اندھیراہے۔ ساری صلاحیتیں سلب ہوگئی ہیں، سوچنے کی۔ ہاتھ پیر جواب دے گئے ہیں، میرے۔ لگتا ہے جیسے آگ لگادی ہو کسی نے پکی پکائی فصل میں۔ جیسے سیاہی پلٹ دی ہو قدرت نے میری تقدیر میں، سب کچھ لکھنے کے بعد۔ سکتہ ہی سکتہ ہے، سارے براتیوں پر۔ سوال جواب ہو ر ہے ہیں، آنکھوں آنکھوں میں۔ سبھی کی جمی ہیں نگاہیں مجھ پر اور میری اس کاغذ کی چٹ پر۔
ابھی کچھ دیر پہلے کتنی گہما گہمی تھی، میری شادی میں۔ کل خوشی خوشی آیا تھا، برات لے کر۔ سترڈشوں والا کھا ناکھانے کے بعد کیسا ہنگامہ رہا۔ رات بھر۔ صبح صبح عمدہ ناشتے کے بعد سب کو فرسٹ کلاس جوڑے۔ خوشی خوشی نکاح کی تیاریاں اور پھر نکاح کے کاغذات پر کرنے کے بعد نرگس کا اچانک، اذن سے انکار۔ سمجھو قیامت آگئی ہو، جیسے۔ پہاڑ ٹوٹ پڑا ہو مجھ پر، مصیبتوں کا۔ وہ بھی اچانک ۔ کم بخت نے یہ بھی نہ سوچا، ’ اس کے یہاں برات لانے میںکتنی جدوجہدکی میں نے ۔‘
مجھے آج پینتیس سال پہلے کا وہ واقعہ یاد آرہاہے جب میرے گاؤں میں آئی برات میں نرگس کو سب سے حسین اور الگ دیکھ کرمحلے کے مسخروں میں شرط لگی تھی، ’ جو اس کا منہ چومے گا، سوروپے کانوٹ انعام میں پائے گا۔‘ اور وہ شرط جیت میں نے لی تھی جس پروہ غصے سے تمتمایا چہرہ لیے میرے گھر پہنچ گئی تھی اوراس نے ہاتھ جوڑ کر بلکتے ہوئے میری ماں سے خوشامد کی تھی، ’آپ کے بیٹے نے بھری برات میں میری کلائیاں تھام کر زبردستی میرامنہ چوما ہے۔ میں اس کا چھوا ہوا یہ جسم کسی اور کو سونپ کر دھوکا نہیں دے سکتی، کسی کو۔ لِلّہ اپنے امجد سے میری شادی کر لیجیے۔ میں اپنے گھروالوں کو ہر صورت میں راضی کر لوں گی۔‘ جس پر میری ماں نے کہاتھا، ’ تجھ جیسی حرافہ سے اپنے بیٹے کی شادی! چل بھاگ یہاں سے۔ ‘ اس کے لاکھ گڑگڑانے پر بھی میری ماں نے ڈانٹ کر بھگا دیاتھا، اس کو۔
اور پھراس کے چلے جانے پر میں نے اپنی ماں سے یہ کہتے ہوئے ضد کی تھی، ’ ا ب میں ا سی لڑکی سے شادی کروں گا، کیونکہ اب وہ کسی اور سے شادی کے لائق نہیں سمجھتی خود کو۔‘ جس کی پاک بازی اور کیرکٹر کا اعتراف کرتے ہوئے میری ماں نے بڑے قاعدے سے امیری اور غریبی کی آہنی دیوار کی نشاندہی کرتے ہوئے مجھ کوسمجھا دیا تھا، ’ بہت بڑے گھر کی بیٹی معلوم ہوتی ہے۔ اس کے گھر والے کسی بھی حالت میں شادی نہ کریں گے، مجھ غریب کے یہاں۔‘ بس اسی دن یہ طے کر لیا تھا، میں نے، ’ میں نرگس کو ہر حالت میں حاصل کر کے رہوں گا۔‘اسی لیے تو برات کی وداعی کے دن بس پر بیٹھتے وقت میں نے کہا تھا اس سے، ’ نرگس ، میں شادی تم سے ہی کروں گا ۔ انتظار کرنا،میرا ۔‘
پینتیس سال پہلے، اس برات میں پہلی بار ہی دیکھا تھا نرگس کو، نہ کوئی جان، نہ پہچان۔ نہ کوئی پتا، نہ نشان۔ ایسے میںکسی لڑکی کا پتا لگا لینا کوئی آسان نہ تھا۔کافی دنوں میں تو اس کے شہر کا پتا لگا۔ پھر بڑی مشکل سے یہ کہ اس کے والدپولیس ڈپار ٹمنٹ میں ایک کلرک ہیں۔ پھر ان کا شہروں شہروں ٹرانسفر اور پھر پورے پینتیس سال تک پتا لگائے رکھنا، وہ بھی ایک پولیس ڈپارٹمنٹ کے کلرک کا،لوہے کے چنوںجیساتھا۔
آخر کیا ہی کیوں اتنا ذلیل اس نے، مجھ کو۔۔۔؟ وہ بھی برات اپنے گھربلا کر، اتنا کھلا پلا کر۔ کم بخت نے یہ بھی نہ سوچا، ’میں نے کتنے پاپڑ بیلے اس شادی کے لیے۔‘رات دن ایک کر کے پڑھا ئی کی۔ پردیسوں کی خاک چھانی۔ کتنی محنت سے بڑا آدمی بنا ۔ اسی کوپانے کے لیے ہی تو۔ پورے پینتیس سال، یعنی کہ بوڑھا ہو گیا، میں۔
میں بھی نہ رہا کہیں کا، اب۔ اور نہ وہ ہی رہی کسی لائق، اب۔ شادی سے انکار کی وجہ کہیں میری باون سال کی عمر تو نہیں؟ وہ بھی تو پچاس کے قریب کی ہے یعنی کہ بوڑھی کھڈ، بالکل سے۔ پوچھے گاکون اس عمر میں، اس کو اور مجھے بھی؟ جب شادی سے انکار ہی کرنا تھا توکیوں کیا انتظار پینتیس سال تک، دوسرے رشتوں کو نظرانداز کر کے؟
ہاں!۔۔۔ یاد آیامجھے، یہ بدلا ہے، ہتک ہے، یہ چٹ، جواب ہے میری بدتمیزی کا، کیونکہ میں نے بھی عورت ذات کی انا کوٹھیس پہنچاتے ہوئے بھری برات میںاس کی کلائیاں تھام کراس کا منہ زبردستی چوم کر شرط کے نوٹ کو لہراتے ہوئے کہا تھا، ’ یہ ہوئی نا۔۔۔؟مردوںوالی بات!‘n
12/34,Sui Katra, Agra-282003

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS