روس کے صدر ویلادیمیرپتن نے ناٹو اور مغربی مالک کی خارجہ پالیسی پر کئی مرتبہ نکتہ چینی کی ہے، انہوں نے لیبیا پر ناٹو کی فوج کئی اور کرنل قذافی کو موت کے گھاٹ اتارنے پر نکتہ چینی کی ہے اور کہا ہے کہ اگر اس وقت کسی اہم عہدے پر ہوتے تو ناٹو کی قیادت والے فوجی محاذ کو لیبیا میں من مانی نہیں کرنے دیتے انکا کہنا ہے کہ ناٹو اور مغربی ممالک نے پوری دنیا میں من مانی کرکے تباہیاںمچاتی ہیں۔ پتن کی قیادت میں روس اور چین دنیا کا یک قطبی نظام بدل دینا چاہتے ہیں جو مغربی طاقتوں مرہون منت بن کر رہ گیا ہے۔ افریقہ میں روس اور چین کئی غلطیوں میں مغربی ممالک کی قیادت والی افواج اور امن فورسیز کو چیلنج کررہی ہیں ۔ ان ممالک میں جیسا کہ ان صفحات میں لیبیا، ایتھوپیا،مالے،برکینکا فاسو وغیرہ بار بار ذکر کیا گیاہے۔ ان ملکوں میں روس یا اس کی حمایت یافتہ فوجیوں کی اچھی خاصی تعداد فرانس، ڈنمارک، نیندر لینڈ، امریکہ کی فوجی موجودگی کو چیلنج کررہی ہے۔ مغربی ساحل کے کئی ملکوں میں سابقہ سامراجی طاقتوں کو روس افواج کی موجودگی کی وجہ سے تجارتی سیاسی اور فوجی بالادستی اختیار کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ مغربی ایشیا میں مسئلہ فلسطین بھی مغربی ملکوں کی مفاد پرستی اور اسرائیل نوازی کی وجہ سے پریشان ہیں اور ہردم ان کو انفرادی اور اجتماعی طور پر بدترین صورت حال سے گزرنا پڑرہا ہے۔ پچھلے دنوں اسرائیل نے کئی بارامریکہ پر دبائو ڈال کر وہ پڑوسی ملکوں کے ساتھ مراسم کو بہتر بنانے کے لیے کسی ایسے سمجھوتے کے ساتھ باندھ دے جو ایران کو اس کی اوقات یاد دلادے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایران کو آگے رکھ کر اسرائیل جو عرب ملکوں کے ساتھ سمجھوتہ کرناچاہتا ہے تو اس کی پائیداری کہاں تک ہوگی اور کیا ہوگی، اسرائیل اب تک پڑوسی عرب ملکوں کے ساتھ کتنے سمجھوتے کرچکا ہے اور کتنی مرتبہ جنگ بندی کی مخالفت کرچکا ہے، مگر اب داخلی دبائو اور کئی مغربی ممالک کی عوام بھی اسرائیل کے ذریعہ بے رحمانہ قتل عام کرنے، مارنے پیٹنے کے حق پر سوال اٹھا چکے ہیں اور مسلسل اس کے لگام دینے کی بات کررہے ہیں۔ یوکرین بحران کے حالیہ دور میں اسرائیل اور روس کے درمیان کئی مرتبہ جھڑپ ہوئی۔ دونوں ملکوں کے درمیان پالیسی کی سطح اور نظریاتی سطح پر بدترین اختلافات سامنے آئے ہیں اور روس نے اپنی سرزمین سے یہودیوں کی اسرائیل میں منتقلی کے معاملہ یہودی رضاکار تنظیموں اور اسرائیلی حکام کے طور طریقوں پر سوال اٹھارہے ہیں اور کسی حد تک اسرائیل کے افسران اورروس کے ساتھ مراسم کے معاملہ میں انتہائی محتاط ہوگئے ہیں اس دوران سوویت پوتین کی سابق ریاست قزاخستان کے شہر آستانہ میں کانفرنس آن ایشیا اسٹرکشن اینڈ کانفیڈینس بلڈنگ میسرر ان ایشیا(سی آئی ایس ای) کے دوران فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس شرکت کرتے ہوئے مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور اس موضوع محمود عباس نے فلسطینی کاز کے تئیں امریکہ اور اس کے حواریوں کی پالیسی پر سوا ل کھڑے کیے ہیں۔
ایران میں احتجاج کررہی خواتین کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے کے لیے پوری دنیا کے رضاکاراپنی زلفی کاٹ رہے ہیں مگر اسرائیل کے اندر مسجد وں اور بیت المقدس جیسے مقامات پر گھس کر مارپیٹ کرنے اور بے حرمتی کرنے کی حرکتوں پر روشن خیال آزاد میڈیا اور یوروپی دنیا خاموش ہے۔اہل مغرب فلسطینیوں کے معاملہ پر خاموش ہوجانے میں محمود عباس کی روس صدر ویلادیمیرپتن کے ساتھ ملاقات اور ان کا امریکہ کے مسئلہ فلسطین پر موقف سوال اٹھانا ، اس بات کا ثبوت ہے کہ اب حق کو دبانے والی محدود سوچ طشت از بام ہوچکی ہے۔
اسرائیل کے ذرائع ابلاغ میں صفحہ اول پر پوتن عباس ملاقات کی بابت خبروں کی اشاعت وہاں کی انتخابی مہم کو تیز کردینے والی اور سیاسی ماحول کو گرم کردینے والی ہے۔ اسرائیل میں فلسطینیوں کے ساتھ تعلقات پر دوبارہ بحث ہورہی ہے، مگر مغربی ایشیا،عالمی سیاست کی موجودہ صورت حال کے بدلنے کی ضرورت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
محمود عباس کا روس صدر کے ساتھ ملاقات اس موقف کو دہرانا مغربی ایشیا میں مغربی ممالک کے اسرائیل کی پشت پناہی والے رویہ پر ناراضگی پر توجہ دلانا ہے۔ فلسطینی صدر محمود عباس کا یہ موقف ایسے وقت میں آیا ہے جب امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان دیرینہ سفارتی تعلقات اور سیکوریٹی پر تعاون کو لے کر مسلسل تبصرے ہورہے ہیں۔ شاید اب دنیا کی آنکھیں کھلتی جارہی ہیں۔روس یوکرین کے علاقوں پر جس طرح طاقت کے زور پر فیصلہ کررہا ہے وہ صریحاً بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے اور سعودی عرب اورتمام حق پسند طاقتیں جس میں یواے ای اور دیگر خلیجی ممالک بھی شامل ہیں، اس موقف پر اتفاق رائے رکھتے ہیں، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میںووٹنگ کے دوران کئی ملکوں نے اسی موقف کی پابندی کرتے ہوئے روس کی جارحیت کے خلاف ووٹ دیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس بنیاد پر اہل مغرب اسرائیلی کے استبدادی نظام حکومت کی مذمت کریں گے اور اسرائیل سے مقبوضہ علاقوں کو خالی کرنے کے لیے کہیں گے۔ اسرائیل میں عام انتخابات کے لیے مہم زور وشور سے جاری ہے اور اس مہم کے ساتھ ایک اور مہم میں حال ہی میں تیزی آئی ہے ۔ وہ ہے مغربی کنارے اورمشرقی یروشلم عام فلسطینیوں، بوڑھوں بچوں اور عورتوں کے ساتھ بد تمیزی ، زیادتی اور خواتین خاص طور پر بچیوں کو زدوکوب کرنا۔ اسرائیلی افواج کی بربریت آمیزحرکتوں کے ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہورہے ہیں اور اس سے ظاہر ہورہی ہے کہ شاید اب زیادہ دیر تک فلسطینیوں پر مظالم کی ان دیکھی نہیں کی جاسکتی ہے۔ lql
پوتن-عباس ملاقات اوریک قطبی نظام کی جانبداری
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS