عزیز قریشی
رفیق الملک ، دھرتی پتر، نیتا جی جناب ملائم سنگھ یادو کا اس وقت ہمیں چھوڑ کر چلاجانا سیکولرزم اور سماجواد کے آندولن کا ایک ناقابل تلافی نقصان ہے اور ایک ایسے عہد اور باب کا خاتمہ ہے جس کی تلافی آنے والے کئی سالوں میں بھی نہیں ہوپائے گی۔ آج کے ہندوستان میں جہاں نریندر مودی جی کے دوران حکومت ان کے ممبر آف پارلیمنٹ اور ایم ایل اے کھلے عام مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے ، ان کے ہاتھ پیر کاٹنے، ان کا قتل عام کرنے ان کی خواتین کو بے آبرو کرنے، کے بچوں کو یتیم کرنے، ان کا سماجی، سیاسی اور تجارتی بائیکاٹ کرنے اور ان کے کا روبار وجائیداد کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کرنے کی بات کررہے ہیں، ہندوستان کو ملائم سنگھ جی جیسے قدآور لیڈر کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔ آر ایس ایس او بی جے پی کے دبائو میں نریندر مودی کی سرکار کا اپنے پارلیمنٹ اور اسمبلی کے ممبران پر یا تو کوئی کنٹرول نہیں ہے یا انہیں جان بوجھ کر یہ چھوٹ دے دی گئی ہے وہ اپنے نفرت پھیلانے والی تقریروں سے انسانیت کو تقسیم کرتے رہیں اور سارے ہندوستان میں فرقہ پرستی کی آگ لگاتے رہیں۔ یہ ان کی بے حسی ہے یا بے بسی یا جان بوجھ کر ایسا نفرت انگیز فرقہ وارانہ ماحول بنانا ہے، اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت اور تاریخ ہی کرے گی۔
مرحوم ملائم سنگھ جی یادو ہندوستان کے کچھ ایسے چند نیتائوں میں سے تھے جنہوںنے ساری زندگی بھی ’ نرم ہندوتو‘ کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے اور نہ ہی کبھی اس سے سمجھوتہ کیا۔ انہوںنے کبھی بھی اپنی مسلم دوستی کو چھپانے اورمسلمانوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے پر نہ کبھی کوئی پردہ ڈالنے کی کوشش کی اورنہ ہی کبھی کوئی شرم محسوس کی۔ یہ تاریخ کا المیہ ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو اس بڑے لمبے عرصے تک ایک ایسا قائد ، غم خوار، دوست اوران کے دکھ درد کا شریک نہیں مل پائے گا اور نہ یہ کی کبھی پوری ہوپائے گی۔
جناب ملائم سنگھ جی کا سب سے بڑا امتحان بابری مسجد کی حفاظت کے موقع پر ہوا تھا جب وہ یوپی کے وزیراعلیٰ تھے اورانہوںنے ہندو دہشت گرد گروہ اور فرقہ پرستوں کے خلاف اعلان کیا تھا کہ کوئی ایسی طاقت بابری مسجد کو ہاتھ بھی نہیں لگا سکتی اورا س کی پوری حفاظت خودان کی اور ان کی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ملائم سنگھ جی نے اپنے فرض کی ادائیگی جس انتظامی صلاحیت، ہمت، بہادری، شجاعت اور جذبے کے ساتھ ادا کی وہ صدیوں تک نہیں بھلائی جاسکتی۔ لا اینڈ آرڈر ، Rule of Law، امن اور شانتی اورانسانی قدروں کے تحفظ کے لیے انہیں اپنے ہی ہم مذہب اور ہم قوم افراد پر گولی بھی چلوانی پڑی تو انہوںنے اس سے بھی دریغ نہیں کیا اور جس میں اٹھائس لوگ مارے گئے۔ لیکن اس لائق ترین اور بہادر چیف منسٹر کی حیثیت سے انہوںنے اپنے فرض کی پوری ادائیگی کی اور تاریخ میں اپنا نام لازوال کردیا۔
اس واقعے کے بعد میں نے پریس کو دیے گئے ایک بیان میں کہاتھا:
’ مستقبل کے مورخ جب اپنا قلم اٹھائے گا اور بابری مسجد کے متعلق واقعات کا ذکر کرے گا اس وقت جب وہ ملائم سنگھ جی کا نام تاریخ کے اوراق پر لکھے گا تو خود مورخ کی اپنی جبیں جگمگانے لگے گی۔‘
آج کے حالات میں یہ المیہ ہے کہ ملائم سنگھ جی جیسے بہادر، بے خوف، سچے ہمدرد اور بے لوث لیڈر ہمارے بیچ نہیں ہیں۔ ’ نرم ہندوتو‘ اور فرقہ پرست ہندو طاقتوں کے یلغار سے بڑے بڑے سکولر رہنما بھی ڈر گئے ہیں اور مصلحت کاشکار بن گئے ہیں۔
یہ تاریخ کا المیہ ہے کہ پچھلے کچھ چنائووں کے دوران قدیم سیکولر پارٹیوں نے ہندوتو، ہندو فرقہ پرست طاقتوں کے ڈر سے مسلمانوں کو پیچھے رکھا اور ان کو برابر کا درجہ دے کر اپنے ساتھ الیکشن کی مہم میں شامل نہیں کرایا… یہاں تک کہ خود اکھلیش یادو اور ان کی سماجوادی پارٹی بھی اسی ذہنیت کی شکار بن گئی۔ کانگریس پارٹی بھی اپنے آپ کو اس بیماری سے الگ نہیں کرسکی اور وہاں بھی مسلمانوں کو پیچھے رکھا گیا اور نہرو خاندان کے لائق وارثان اپنے آپ کو ہندو ثابت کرنے کے لیے جنیئو دکھلاتے رہے اور مندروں میں پوجا پاٹھ کرنے کے ثبوت دیتے رہے۔ جو یقینا تاریخ کا ایک المیہ تھا اور جواہر لعل نہرو کی روح یقینی طور پر زخمی ہوئی ہوگی اور آج تک ان زخموں سے خون ر س رہا ہوگا۔
رفیق الملک ملائم سنگھ جی کی جدائی آج سب سے زیادہ دکھی، غمگین اور اپنے آپ کو بے یارو مددگار اور اکیلا سمجھنے والا اگر کوئی ہے تو ہندوستان کا مسلمان ہے جو زندگی کے مشکل سفر میں اپنے آپ کو اکیلا محسوس کررہا ہے۔
میں نے پچھلے دنوں اپنے ایک بیان میں کہا تھا اکھلیش یادو کو کو ملائم سنگھ جی کا دل دماغ او رجذبات اپنے جسم میں منتقل کرنا چاہیے اور پھر سماجوادی پارٹی کی قیادت کو سنبھالنا چاہیے اورآج میں پھر کہہ رہا ہوں کہ جب تک ملائم سنگھ جی کا دل ، دماغ اور جذبات اور کھلیش یادو کا جسم نہیں ہوگا اس وقت تک سماجواد اور سیکولرزم کا کارواں ہندوستان میں آگے نہیں بڑھ پائے گا۔ جواہر لعل نہرو اوراندرا گاندھی کے بعد اس زمانے میں ملائم سنگھ جی یادو اکیلے ایسے لیڈر تھے جنہوںنے ’ نرم ہندوتو‘ فرقہ پرستی سے نہ کبھی کوئی سمجھوتہ کیا نہ کبھی اس سے ڈرے اور نہ کبھی اس کے آگے ہتھیار ڈالے۔ وہ مسلمانوں کے ایک ایسے ہمدرد اور قائد تھے جو صدیوں میں کبھی بھی پیدا ہوتے ہیں جب برسوں مہر وماہ کی آنکھیں لگی رہتی ہیں تب ایسا صاحب نظر وجود میں آتا ہے۔
آج کے ان حالات میں جب ہندوستان کے مسلمانوںکو خوف زدہ کرنے، ڈرانے، دھمکانے اوران کے خلاف سارے ہندوستان میں ایک نفرت کا ماحول بنانے کی ناپاک کوششیں کی جارہی ہیں جنہیں لگتاہے کہ نریندر مودی سرکار کی پوری حمایت حاصل ہے ۔ ہندوستان کے مسلمانوں کو ڈرانے، گھبرانے، خوف زدہ ہونے یا پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ عقل کے اندھے اگران کا سماجی، تجارتی یا سیاسی بائیکاٹ کرنے کا کوئی منصوبہ بنائیں گے بھی تو خود اپنے ہی ہاتھوں اپنے پیروں پر کلہاڑی مارلیں گے۔ اگر ان کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی، ان کے ہاتھ پیر کاٹنے کی، ان کی خواتین کو بے آبرو کرنا کوئی منصوبہ بنائیں گے تو ایک حد تک ہندوستان کا مسلمان اسے برداشت کرلے گا اور اپنی طرف سے کبھی بھی کوئی شر انگیز ، فتنہ انگیز ، غیر قانونی ، فساد برپا کرنے والی، تشدد کو بھڑکانے والی، امن وامان کو ختم کرنے والی، قانون کو توڑنے والی یا انسانیت کو مجروح کرنے والا کوئی ایسا کام نہیں کریں گے جوامن شانتی اور بھائی چارے کے خلاف ہو۔ مگر میں ان ہندو فرقہ پرستوں اورآتنک وادیوں سے یہ بات پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر پولیس اور ایڈمنسٹریشن کے ساتھ مل کر مسلمانوں پر یہ زیادتیاں کی گئیں معصوم انسانوں پر جھوٹے مقدمے چلائے جاتے رہے بے گناہ لوگوں کو گرفتار کرکے جیل بھرتے رہے۔ ان کے گھروں پر بلڈوزر چلتے رہے، ان کی مابالنچنگ ہوتی رہی ، گائے کے نام پر ان کا قتل عام اورانہیں برباد کیا جا تا رہا تو یہ سب زیادتیاں ایک دن رنگ لائیں گی۔ تاریخ گواہ ہے کہ آتنک واد اور دہشت گردی ہمیشہ ظلم کی کوکھ سے پیدا ہوتے ہیں اور مذہبی جنون، پاگل پن اور منافرت جب حد سے گزرتی ہے تو مذہب کے نام پر حکومت قائم کرنے والوں کا انجام پاکستان کی طرح ہوتا ہے جہاں ہندوئوں اورعیسائیوں کے خلاف زیادتیاں کی گئیں اور اپنے ملک کو ایک اسلامی ملک بنایا گیا اوروہاں آج کسی کی بھی جان ومال محفوظ نہیں ہیں۔ آتنک واد اور دہشت گردی اسی اسلامی ملک میں ننگا ناچ رہی ہے، مسجدوں میںنماز کے دوران گولیاں چلتی ہیں، بم پھینکتے ہیں اورامام باڑے، اسکول اور دوسرے عوامی مقامات پر روزانہ نہ جانے کتنے لوگ قتل کیے جاتے ہیں اور کسی کا حساب نہیں ملتا۔ بالکل ایسی ہی حالت افغانستان میں ہے جس کا روزمظاہرے ہوتا رہتا ہے۔
میں یاد دلائوں گا کہ عظیم رہنما جناب جے پرکاش نارائن نے ایک بارکہا تھا کہ جب سماج میں ایک نیا انقلاب لانے اور ایک نئے نظام کو قائم کرنے کے تمام راستے ناکام ہوجائیں تو صرف نکسل ازم ہی اس کا اکیلا جواب ہے۔
آج ہندوستان کی تمام سیاسی پارٹیاں مل جل کر ملائم سنگھ کی وارثت کا جھنڈا اٹھائیں ۔ راہل گاندھی کی ’ بھارت جوڑو یاترا‘ میں لہراتے پر چم آج جواہر لعل نہرو کے ان اعلانات کی یاد دلا رہے ہیں جو انہوںنے ہندوستان میں فرقہ پرست طاقتوں کے خلاف جدوجہد کا اعلان کرتے ہوئے کیے تھے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی کو بھی اپنی پوری طاقت بلا کسی جھجھک اور ڈر کے ان فرقہ پرست طاقتوں کے خاتمے کے لیے لگا دینا چاہیے اسی طرح اکھلیش یادو کو بھی بالکل کھلے طور پر ملائم سنگھ جی کا جھنڈا تھام لینا چاہیے اور فرقہ پرستی کے خلاف ایک نئی جنگ کا اعلان کرنا چاہیے۔ اگر ان لوگوں نے یہ نہیں کیا تو وقت کا مورخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گا اور مستقبل کی تاریخ کی عدالت کے سامنے انہیں مجرموں کے کٹ گھڑے میںکھڑا ہونا پڑے گا۔
(سابق گورنر ، اتراکھنڈ، یوپی اور میزورم)
’’تیرگی ہے کہ امنڈتی ہے چلی آتی ہے …‘‘
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS