سیرت نبویؐ اوراخلاق حسنہ

0

سید عبدالحی حسنی ندوی

اسلامی تعلیمات کو صحیح طور پہ جاننے اور عملی طور پر برتنے کے لیے سیرت نبویؐ سے واقف ہونا نہایت ضروری ہے، کیونکہ سیرت ہی ہے جوانسان کوغور وفکر پہ آمادہ کرتی ہے، اس میں سوچنے سمجھنے کا ملکہ پیدا کرتی ہے مقصد حیات کا تعین کرتی ہے، حالات کا مقابلہ کر نے کی ہمت پیدا کرتی ہے، ناموافق حالات میں صبر کا عادی بناتی ہے، ہمدردی و غمخواری کا جذبہ موجزن کرتی ہے، کھانے پینے، سونے جاگنے، چلنے پھرنے، اٹھنے بیٹھنے کے آداب سکھاتی ہے، بڑوں سے ادب چھوٹوں سے شفقت پر آمادہ کرتی ہے اور اپنے دائرہ سے نکال کر انسانیت کا آفاقی سبق پڑھاتی ہے، غرض سیرت طیبہ ہی ایک ایسا نسخہ ہے جس میں ہر پریشانی، ہر مسئلہ اور ہر بیماری کا علاج پوشیدہ ہے، جذبہ انسانیت سیرت ہی کے مطالعہ سے پیدا ہوتا ہے جبکہ سیرت کا مطالعہ نہ کرنے کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ دلوں کا سکون غارت ہو جاتا ہے، انسان وحیوان کے درمیان کا فرق مٹ جاتا ہے۔ آپ ؐ کو معلم اخلاق و رہبرانسانیت بنا کر مبعوث فرمایا گیا.
ارشاد باری تعالی ہے:
ترجمہ:’ اے محمدؐ ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے‘ (الانبیا ء 107)
ارشاد نبویؐ ہے!
ترجمہ:’ مجھے مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث کیا گیا ہے‘
دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
ترجمہ: ’میری تربیت اللہ تعالیٰ نے فرمائی اور کیا ہی خوب فرمائی‘
طائف کے سفر میں آپؐ کو جن تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑا وہ نا قابل بیاں ہیں، پھر بھی آپؐ کی زبان مبارک پران کے لیے ہمدرد یہ جملہ تھے،غصہ کو دبانا اور ضبط کرنا بڑی اعلیٰ صفت ہے جو برسوں کی ریاضت کے بعد کسی کو حاصل ہوتی ہے، اس کے فضائل بیان کردینا تو آسان ہے مگر اس پر عمل کرنا بڑا مشکل ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر یہ اعلی صفت کوٹ کوٹ کر بھی ہوئی تھی۔
ایک جگہ ارشادفرمایا :(مسلم 2594)
ترجمہ:’نرمی جس چیز میں ہوتی ہے اسے نکھار دیتی ہے اور جس چیز سے نرمی کو نکال دیا جائے وہ بدنما ہو جاتی ہے‘۔
اسی نرمی اور محبت نے آپؐ کی ذات کومثل آفتاب و ماہتاب بنادیا تھا جس کی روشنی اپنوں اور غیروں سب کے لیے تھی جس کے دروازے سب کے لیے یکساں کھلے ہوئے تھے جس کا فیض ہر ایک کے لیے عام تھا، آپؐ کے اخلاق حسنہ ہی سے اسلام پھیلا ایمان والوں کی تعداد میں آہستہ آہستہ اضافہ ہوتا رہا،کوئی کلام الہی کوسن کر تو کوئی آپ ؐ کے اخلاق و اخلاص سے متاثر ہوکر اسلام میں داخل ہوا۔ صحابہ کرامؓ کی زندگیاں آپؐ کی روشن تعلیمات کا عکس جمیل تھیں۔ارشاد باری تعالی ہے:
ترجمہ:’ محمدؐ اللہ کے رسول ہیں،اور جوان کے ساتھ ہیں کافروں پہ نہایت سخت اور آپس میں نہایت رحم دل۔‘(الفتح؛29)
جو قوم گھوڑوں کے آگے پیچھے ہو جانے پر سالہا سال کے لیے جنگ چھیڑ دیتی تھی وہ تو محض آپ ؐ کی تعلیمات سے متاثر ہوکر اور آپؐ کے اخلاق کا عملی نمونہ دیکھ کر آپس میں ایسے شیر و شکر ہو گئے کہ اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، اس کو سمجھنے کے لیے مواخات کا باب پڑھ لینا کافی ہے۔ اصحاب رسولؐ ابتداء اسلام میں بڑے صبر آزما مراحل سے گزارے گئے کیونکہ ابتداء اسلام میں باری تعالی کا حکم تھا۔
’ اپنے ہاتھ روکے رکھو، جوابی کاروائی نہ کرو اور نماز قائم کرو‘۔(النساء:77)
حضرت عمار بن یاسرؓ اوران کی والدہ حضرت سمیہؓ مسلمان ہوئیں، بنومخزوم ان کو باہرلا تے اور مکہ کی سخت گرمی و تپتے ہوئے صحراء میں طرح طرح کی اذیتیں پہونچاتے۔ حضرت بلال حبشی جب اسلام میں داخل ہوئے تو امیہ بن خلف ان کی گردن میں رسی ڈال کر لڑکوں کے ہاتھ میں دے دیا کرتا وہ آپؓ کو مکہ کی پہاڑیوں میں گھسیٹتے تپتی ہوئی ریت پران کولٹا دیا جا تا اور گرم پتھر ان کے سینہ پہ رکھ دیے جاتے، پھر بھی آپ کی زبان مبارک پر احد احد کی صدا جاری رہتی۔ حضرت خباب بن ارتؓ کے سر کے بال کھینچے جاتے گردن مروڑی جاتی، بارہا آگ کے انگاروں پہ لٹایا جا تا۔ حضرت عثمان بن عفانؓ کے چچا کو جب ان کے اسلام لانے کی خبر ہوئی تو انہیں کھجور میں باندھ دیتا اور نیچے سے دھواں دیا کرتا تھا۔ حضرت مصعب بن عمیرؓ کو ان کی والدہ نے اسلام لانے کی وجہ سے گھر سے نکال دیا تھا۔ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کوقریش گائے،اونٹ کے چپڑے میں لپیٹ کر دھوپ میں پھینک دیتے تھے بعض کو لوہے کی زرہ پہنا کر جلتے ہوئے پتھروں پہ لٹادیا کرتے تھے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ان سب کو برداشت کر تے رہے، اسلام کے لیے انہیں کن کن مشکلات و مصائب کاسامنا کرنا پڑا مگر اسلام کا دامن ہاتھ سے نہ چھٹا، تکلیف پہ صبر کرتے رہے مگر پھر بھی اللہ سے شکوہ نہ کیا۔ صابر و شاکر رہ کر زندگی گزاری یہ ایسے واقعات ہیں جن سے دل دہل جائے اور ایسے بھی واقعات ہیں جنہیں پڑھ کر اسلامی تعلیمات پہ عمل کرنے میں سہولیات فراہم ہوتی ہیں، اور جذبات ابھرتے ہیں، انسان کا ضمیر مردہ نہیں ہوتا، جب آپ کے اصحاب کو سخت آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا تو ہجرت کی اجازت دے دی گئی،حضرت مصعب بن عمیرؓ کی دعوت کے نتیجے میں مدینہ میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ہوگئی، انھوں نے آپ ؐ کو مدینہ آنے کی دعوت دی، آپ ؐ نے صحابہ کرامؓ کو مدینہ کی طرف ہجرت کی اجازت دے دی،مدینہ آتے وقت صحابہ کرامؓ بڑے ہی صبر آزما مراحل سے گزرنا پڑا، البتہ آنے کے بعد عبادت و تجارت اور روزمرہ کی ضروریات میں کوئی دشواری نہ رہی، یہاں اجتماعی معاشرہ کی تشکیل وجود میں آئی، اور احکام ربانی کا نفاذ ہوا،تو اللہ تعالی نے مشرکوں وکافروں سے قتال کی اجازت دے دی۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ:’اور ان سے جنگ کرو تاکہ زمین پہ فتنہ وفساد نہ رہے اور خدا ہی کا دین ہو‘۔(انفال 39)
مکہ کی 13 سالہ مدت کی زندگی صبر و برداشت اور حلم وعفو کی اعلیٰ مثال ہے، ایک طرف طائف کے واقعہ کا تصور کیجئے دوسری طرف غزوہ احد میں آپؐ کے دندان مبارک شہید کیے گئے اور آپؐ کی زبان مبارک سے صرف یہ الفاظ نکلتے ہیں:اے اللہ میری قوم کو ہدایت دے یہ نہیں جانتے۔جبکہ فتح مکہ کے روز آپؐ کومکمل غلبہ اور اقتدار حاصل تھا، چاہتے تو دشمنوں سے انتقام لے لیتے کہ جنہوں نے آپؐ کو اذیت پہونچانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی لیکن ارشاد نبویؐ ہوتا ہے:
ترجمہ: ’جاؤ تم سب آزاد ہو، تمہارا کوئی مواخذہ نہیں‘۔
چچا حضرت حمزہؓ کی شہادت ہوتی ہے ان کو شہید کرنے والے وحشی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر معافی کے خواستگار ہوتے ہیں، رحم کے طالب ہوتے ہیں، حق کی تلاش میں ہیں، آپؐ کی طرف سے معافی کا پروانہ مل جا تا ہے، کلیجہ چبانے والی ابوسفیان کی بیوی ہندہ بھی حاضر ہوتی ہیں، اسلام قبول کرنے لیے، بیعت کی درخواست کرتی ہیں، آپؐ ان کوبھی بیعت میں شامل فرما لیتے ہیں، مشرکین کے سرکردہ لیڈرحضرت ثمامہ بن اثال جب گرفتار کیے جاتے ہیں مسجد نبوی کے ایک کھمبے سے باندھ دیے جاتے ہیں، آپؐ ان کے پاس تشریف لے جاتے ہیں، خیریت پوچھتے ہیں، ثمامہ کہتے ہیں اگر قتل کا حکم دیتے ہیں تو ایک ایسے شخص کوقتل کریںگے جو واجب القتل ہے، اگر احسان کریںگے تو احسان مند پا ئیںگے، اگر مال چاہتے ہیں تو بتادیں میں مال اپ کی خدمت میں حاضر کر دوں، آپ ؐ خاموش رہتے ہیں، اگلے دن بھی یہی گفتگو ہوتی ہے، آپ ؐ خاموش رہتے ہیں، تیسرے دن بھی یہی گفتگو ہوتی ہے آخر میں آپؐ فرماتے ہیں ثمامہ کو آزاد کردو، لیکن ثمامہ پہ معلم اخلاق کا جادو اثر کرچکا ہوتا ہے جاتے ہیں جاتے ہی غسل کرتے ہیں اور کلمہ شہادت کا اقرار کرتے ہیں، کیا متمدن دنیا اس کی مثال پیش کر سکتی ہے۔
حضرت عائشہؓ سے آپ ؐ کے اخلاق کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے فرمایا ’آپ ؐ اخلاق میں قرآن کا عملی نمونہ تھے‘، ’ آپؐ کی روشن تعلیمات حسن اخلاق کا حسین پیکر ہیں، آپ ؐ نے ارشادفرمایا!
’جوڑو ان کو جو تم سے قطع تعلق کریں، ان کو دو جو تم کو محروم رکھیں، ان لوگوں کو معاف کرو جو تم پر ظلم کریں‘۔(الجامع الصغیر 1281)
یہ صفات آپ ؐ تک ہی محدود نہ تھیں، بلکہ آپ ؐ کی روشن تعلیمات اور آپ ؐکی بابرکت صحبت کے نتیجہ میں صحابہ کرامؓ کے اندر بھی یہ صفات منتقل ہوئیں!
ترجمہ: ’تمہارے لیے رسولؐ ذات ایک نمونہ ہے جواللہ تعالی پہ اور قیامت کے دن پہ یقین رکھتا ہو اور ذکر کرتا ہو‘۔
کیونکہ آپؐ کی تربیت بذات خود اللہ تعالی نے کی اور آپؐ کے صحا بہ کی تربیت آپ ؐ کے ہاتھوں فرمائی اس لیے صحابہ بھی ہمارے لیے اسوی ومقتدی ہیں،انہیں کے راستے سے ہمیں زندگی گزارنے کا سلیقہ ملا۔
یہ ہیں نبویؐ زندگی کے چند نمونے، کیا ان میں سے کوئی نمونہ ہماری زندگی میں ہے؟ کیا اس پرعمل ہورہا ہے؟ نہ ہمارے پاس نبوی اخلاق ہیں، نہ ہمارے پاس وہ ایمانی طاقت ہے جو صحابہ کرامؓ کے اندر تھی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم پلٹ کر صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کریں اور اس کوعملی زندگی میں اپنانے کی کوشش کریں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی ہمارے لیے ایک مکمل نمونہ ہے، اس لیے کہ ہدایت آپ کی اتباع کے ساتھ مشروط کر دی گئی ہے (واتبعوہ لعلکم تھتدون) ’اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرو تا کہ تم ہدایت پا جاؤ‘۔
استاذ: مدرسہ سیدنا عثمان بن عفان، رائے بریلی

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS