’میں آج اسکول نہیں جاؤں گا۔‘ عارف نے اپنے دوست مبین سے کہا۔
’ کیا مطلب؟‘ مبین نے حیران ہو کر پوچھا: ’ہم تو اسکول جا رہے ہیں۔ ‘
’ میں تو ہاشمی انکل کے گارڈن میں مزے کرنے کی سوچ رہا ہوں ، تمہیں پتا ہے کہ وہاں کتنے آم کے درخت ہیں۔‘ عارف نے جواب دیا: ’جب وہاں کا مالی حقہ پی رہا ہوتا ہے میں وہاں سے میٹھے میٹھے آم توڑ کر کھاتا ہوں، اس وقت اس کا سارا دھیان حقے کی طرف ہوتا ہے اور وہ مجھے نہیں دیکھ پاتا۔ ‘
‘مبین نے کہا: ’ کیا تم یہ غلط نہیں کرتے ہو۔
’تم چپ رہو اور میری بات غور سے سنو۔‘ عارف نے اس کے کندھے پکڑتے ہوئے کہا: ’جب ٹیچر میرا نام لیں تو تم منھ ہی منھ میںPresent Teacherکہہ دینا مگر یاد رہے کہ منھ ہی منھ میں بولنا ہے کیوں کہ آج ان کو مجھے سے یہی اُمید ہوگی، کل ہی مجھے چیخ کر بولنے پر ڈانٹ پڑی ہے، وہ ہر وقت میرے پیچھے پڑی رہتی ہیں۔‘‘
’’صحیح کہہ رہے ہو، میں کہہ دوں گا، آخر تم میرے بہت اچھے دوست ہو۔‘ مبین نے کہا مگر کچھ سوچنے کے بعد وہ پھر بولا: ’کیا یہ جھوٹ نہیں ہو گا کہ تم وہاں موجود نہیں ہو، مگر پھر بھی تمہاری حاضری لگ جائے ؟‘
’ بالکل نہیں بے وقوف۔It’s Fun ۔اب تم جاؤ اور یاد رکھنا کہ منھ ہی منھ میں بولنا ہے۔‘ یہ کہہ کر وہ ہاشمی صاحب کے گارڈن کی طرف بڑھ گیا۔
مبین نے عارف کی بات یا د رکھی اور اسی طرح منھ ہی منھ میںPresentکہا اور ٹیچر کو شک بھی نہیں ہوا۔ اُدھر جب عارف گارڈن پہنچا تو اس وقت مالی پودوں کو پانی دے رہا تھا۔عارف ایک بینچ پر بیٹھ کر مالی کے جانے کا انتظار کرنے لگا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ عارف اپنا بیگ اپنے سر کے نیچے رکھ کر لیٹ گیا اور اس کو پتا بھی نہیں چلا کہ کب اس کی آنکھ لگ گئی۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ گہری نیند میں چلا گیا۔مالی اسے نظر انداز کر کے پودوں کو پانی دیتا رہا۔ کچھ گھنٹے بعد جب عارف کی آنکھ کھلی تو اسے مالی کہیں نظر نہ آیا۔ وہ گارڈن میں ٹہلنے لگا۔پرندوں اور درختوں کو دیکھتے دیکھتے اس کی نظر مالی پر پڑی جو حقہ پینے میں مصروف تھا۔ عارف نے سوچا یہ بہت اچھا موقع ہے کیوں نہ آم توڑے جائیں۔ اس نے ایک بڑا سا درخت منتخب کیاجس پر بہت سے آم لگے تھے، وہ اس پر چڑھنے لگا۔ چڑھتے چڑھتے اس کی بھوک بھی جاگ اُٹھی۔ وہ سوچنے لگا کہ میں جلدی سے اوپر جاؤں اور میٹھے میٹھے آم کھاؤں۔
جیسے ہی وہ پہلا آم توڑنے لگا، زور سے کسی نے اس کے پاؤں پر چھڑی ماری۔ اس نے گھبرا کر نیچے دیکھا تو وہاں مالی کھڑا تھا۔ مالی زور سے چلایا۔ ’اے لڑکے!چوری کرتے ہو؟ جلد ی نیچے آؤ ورنہ تمہاری ہڈیاں توڑ دوں گا۔‘ عارف تیزی سے نیچے اُترا اور گارڈن کے دروازے کی طرف بھاگنے لگا۔
مالی پھر چلایا: ’ اگر اب میں نے تمہیں یہاں دیکھا تو تمہارے ٹکڑے ٹکڑے کردوں گا۔‘ جب وہ گیٹ سے باہر آیا اور اسکول کی طرف جانے لگا تو اسے اپنی تکلیف کا شدت سے احساس ہونے لگا۔ وہ ایک آئس کریم کی دکان کے سامنے رکا، مگر اس کے پاس اتنے پیسے نہ تھے کہ وہ اپنی پسندیدہ چاکلیٹ آئس کریم خرید سکتا۔
پھر اس کی نظر دکان میں لگی ہوئی گھڑی پر پڑی تو اسے اندازہ ہوا کہ کچھ ہی دیر میں چھٹی ہونے والی ہے۔ وہ اسکول کے قریب ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر اپنے دوست مبین کا انتظار کرنے لگا۔تھوڑی ہی دیر میں اسے مبین آتا دکھائی دیا۔ وہ بہت خوش نظر آرہا تھا۔ عارف نے اس سے پوچھا: ’کیا ٹیچر کو پتاچلا کہ میں آج اسکول نہیں آیا تھا؟‘
’نہیں مگر آج اسکول نہ جا کر تم چاند کی سیر سے محروم رہے۔‘
’چاند کی سیر!کیامطلب؟‘ عارف نے حیرانی سے پوچھا۔
’ہماری کلاس آج خلائی میوزیم گئی تھی۔‘مبین نے اسے بتایا: ’وہ اتنی زبردست جگہ تھی کہ ہمیں لگ رہاتھا کہ جیسے ہم سچ مچ خلا سے گزر کر چاند پر پہنچ گئے اور وہاں کی سیر کر رہے ہیں اور پتا ہے وہاں میوزیم والوں نے چاکلیٹ آئس کریم بھی دی اور وہ بھی ایک نہیں جتنا ہمارا دل چاہے۔ ہمیں آج بہت مزہ آیا۔تم نے یہ موقع ضائع کر دیا۔‘
’تم صحیح کہہ رہے ہو اور میرا آج بہت بُرا وقت گزرا۔‘ پھر عارف نے مبین کو اپنی آپ بیتی سنائی اور کہا: ’آج میں نے سبق سیکھا ہے، میں اب آئندہ کبھی غلط کام نہیں کروں گا۔ ‘ پھر وہ سر جھکائے گھر کی طرف چل دیا۔rvr
چاند کـی سیر!
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS