پرسنل لاء کے نام پر کسی کو آئینی حقوق سے محروم نہیںکیا جاسکتا:ہائی کورٹ

0

بیوی وبچوں کی پرورش میں ناکام شخص کودوسری شادی کی اجازت نہیں
پریاگ راج (ایس این بی) :الہ آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ اسلامی قانون ایک بیوی کے رہتے ہوئے مسلم کو دسری شادی کرنے کا حق دیتا ہے، لیکن اسے پہلی بیوی کی مرضی کے خلاف عدالت کے ساتھ رہنے کے لیے مجبور کرنے کا حکم پانے کا حق نہیں ہے۔
عدالت نے کہا کہ بیوی کی رضامندی کے بغیر بنابتائے دوسری شادی کرنا پہلی بیوی کے ساتھ ظلم ہے۔ عدالت نے کہا کہ عدالت اگر پہلی بیوی کی مرضی کے خلاف شوہر کے ساتھ رہنے کو مجبور کرتی ہے تو یہ خاتون کے باوقار زندگی گزارنے اور شخصی آزادی کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی۔ عدالت نے قرآن کریم کی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر مسلم اپنی بیوی و بچوں کی صحیح دیکھ بھال کرنے میں اہل نہیں ہے تو اسے دوسری شادی کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ عدالت نے فیملی کورٹ سنت کبیر نگر کے ذریعہ پہلی بیوی حمیدالنسا عرف شفیق النساء کو شوہر کے ساتھ اس کی مرضی کے خلاف رہنے کے لیے حکم دینے سے انکار کرنے کو صحیح قرار دیا اور فیصلہ وڈگری کو اسلامی قانون کے خلاف مانتے ہوئے رد کرنے کے مطالبہ میں داخل پہلی اپیل خارج کردی ہے۔
یہ فیصلہ جسٹس ایس پی کیسروانی اور جسٹس راجندر کمار کی ڈویژن بنچ نے عزیزالرحمن کی اپیل پر دیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ جس سماج میں خاتون کی تعظیم نہیں اسے مہذب سماج نہیں کہاجاسکتا۔ خواتین کو عزت دینے والے ملک کو ہی مہذب ملک کہا جاسکتا ہے۔ عدالت نے کہا کہ مسلمانوں کو خود ہی ایک بیوی کے رہتے دوسری سے شادی کرنے سے بچنا چاہئے۔ عدالت نے کہا کہ ایک بیوی کے ساتھ انصاف نہ کرپانے والے مسلم کو دوسری شادی کرنے کی خود قرآن اجازت نہیں دیتا۔
عدالت نے سپریم کورٹ کے تمام فیصلوں کا حوالہ دیا اور کہا کہ آئین کے دفعہ 21 کے تحت ہر شہری کو باوقار زندگی جینے اور شخصی آزادی کا حق حاصل ہے۔ دفعہ 14 سبھی کو مساوات کا حق دیتا ہے اور دفعہ 15 (2) جنس وغیرہ کی بنیاد پر تفریق کرنے پر روک لگاتا ہے۔ عدالت نے کہا کہ کوئی بھی ذاتی قانون یا چلن آئینی حقوق کی خلاف ورزی نہیں کرسکتا۔ عدالت نے کہا کہ پرسنل لاء کے نام پر شہریوں کو آئینی حقوق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ زندگی کے حقوق میں باوقار زندگی جینے کا حق شامل ہے۔ کوئی بھی مسلم بیوی بچوں کی دیکھ بھال نہیں کرسکتا ہے تو اسے پہلی کی مرضی کے خلاف دوسری سے شادی کرنے کا حق نہیں ہے۔ یہ پہلی بیوی کے ساتھ ظلم ہے۔ عدالت بھی پہلی بیوی کو شوہر کے ساتھ رہنے کے لیے مجبور نہیں کرسکتی۔
واضح رہے کہ عزیزالرحمن وحمیدالنساء کی شادی 12؍مئی 1999 میں ہوئی تھی۔ فریق مخالف کی بیوی اپنے والد کی واحد زندہ اولاد ہے۔ اس کے والد نے اپنی غیرمنقولہ املاک اپنی بیٹی کو عطیہ کر دیا۔ وہ اپنے تین بچوں کے ساتھ 93 سالہ اپنے والد کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ بغیر اسے بتائے شوہر نے دوسری شادی کرلی اور اس سے بھی بچے ہیں۔ شوہر نے فیملی کورٹ میں بیوی کے ساتھ رہنے کے لیے مقدمہ قائم کردیا۔ فیملی کورٹ نے ان کے حق میں فیصلہ نہیں دیا تو اس نے ہائی کورٹ میں اپیل داخل کی تھی، جسے ہائی کورٹ نے خارج کردیا ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS