عبیداللّٰہ ناصر
ملک کی سیاسی اور سماجی فضا پر نفرت، جھوٹ، معاندانہ پروپیگنڈہ کی ایسی دبیز چادر تان دی گئی ہے کہ ملک کس معاشی اور سماجی بحران میں مبتلا ہے، اس کا سماج کے ایک بڑے طبقہ کو احساس نہیں ہو رہا ہے اور جس طبقہ کو احساس ہورہا ہے، اس کی آواز صدا بہ صحرا ثابت ہو رہی ہے۔لیکن کیا مودی حکومت آر ایس ایس کے سینئر لیڈرہوسبلے جی اور اپنے ہی وزیر نتن گڈکری کی باتوں کو بھی نظر انداز کر دے گی جنہوں نے ہوشربا گرانی اور بے انتہا بڑھتی بے روزگاری پر کھلے عام تشویش ظاہر کی ہے۔ عوام کوحقائق سے آگاہ کرنے اور ان کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی جو اخلاقی اور آئینی ذمہ داری میڈیا کو نبھانا چاہیے، وہ اسے یکسر نظرانداز ہی نہیں کرچکا ہے بلکہ سرکار کے جھوٹ کے پروپیگنڈہ میں برابر کا شریک ہو کر ملک کی تبا ہی میں اپنا شرمناک کردار ادا کر رہا ہے۔اپوزیشن کے لیڈروں، حق پسند صحافیوںاور فکرمند شہریوں کی آواز کو ملک دشمن قرار دے کر خاموش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔گزشتہ چند مہینوں میں ڈالر کے مقابلہ روپیہ کی قیمت اتنی زیادہ کم ہوگئی ہے کہ ملک کی معیشت کے لیے یہ بوجھ ناقابل برداشت ہوتا جا رہا ہے۔آج ایک ڈالر83روپے کے آس پاس ہے۔ گزشتہ نومہینوں کے اندر اس میں زیادہ تیزی سے گراوٹ آئی ہے۔ جنوری میں ایک ڈالر74روپے کا تھا، شاید ہی دنیا کے کسی ملک کی کرنسی میں یہ گراوٹ آئی ہو جو ہمارے روپیہ میں آئی ہے۔ صرف دو مدوں میں ہمارے زر مبادلہ کا سب سے بڑا حصہ خرچ ہو رہا ہے۔ خام تیل کی خریداری اور تقریباً140 لاکھ کروڑ کے قرض کے سود کی ادائیگی، اس وجہ سے ہمارے زر مبادلہ کا خزانہ خالی ہو رہا ہے۔ ریزرو بینک نے آگاہی دی ہے کہ ایک سنگین صورت حال ہے۔دھیان رہے کہ اکتوبر2021کو ہمارے پاس تقریباً645 ارب ڈالر کا زرمبادلہ تھا جبکہ30ستمبر کو یعنی تقریباً ایک سال بعد یہ 532کروڑ کے آس پاس رہ گیا ہے یعنی ایک سال میں تقریباً114ارب ڈالر کی گراوٹ۔ یہ گہری فکر مندی کی صورت حال ہے۔ ہمارے امپورٹ ایکسپورٹ کا تناسب بگڑنے سے ڈالروں کی آمد کم ہوگئی ہے۔ ان حالات میں چین سے کروڑوں روپیہ کا ترنگا جھنڈا منگانے پر بیش قیمتی ڈالر خرچ کرنا کون سی عقل مندی کہی جا سکتی ہے۔
ستم بالائے ستم تیل پیدا کرنے والے ملکوں کی تنظیم اوپیک پلس نے جس میں اب روس بھی شامل ہو گیا ہے، تیل کی پیداوار گھٹانے کا فیصلہ کیا ہے، ظاہر ہے اس سے تیل کی قیمتوں میں اچھال آئے گا جس سے دنیا کے سبھی ملک متاثر ہوں گے۔امریکی صدر جو بائیڈن نے سعودی عرب سمیت ان ملکوں سے اپنے فیصلہ پر نظرثانی کی درخواست کی ہے لیکن اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔روس یوکرین جنگ کے معاشی اثرات سبھی ملکوں کو محسوس ہونے لگے ہیں جس کے بند ہونے کا کوئی امکان فی الحال دور دور تک نہیں دکھائی دیتا۔ در اصل خام تیل کی قیمت 120ڈالر فی بیرل سے گر کر 80ڈالر کے قریب آ گئی تھی۔ روس کو یوکرین کی جنگ سے معاشی مشکلات کا سامنا تھا، ادھر اوپیک کے دیگر ممالک بھی اتنی کم قیمت کی وجہ سے نقصان برداشت کر رہے تھے، روس کے اشارہ پر اوپیک پلس نے یہ فیصلہ کرکے روس کی معیشت کو کچھ سنبھالا دے دیا لیکن دیگر ملکوں کے لیے پریشانیاں بڑھا دی ہیں۔اس کا اثر ہندوستان پر لازمی طور سے پڑے گا لیکن عالمی بازار میں تیل کی کم قیمت کا کوئی فائدہ ہندوستانی عوام کو نہیں ملا تھا جبکہ حکومت نے اپنا خزانہ بھر لیا تھا، اس لیے امکان یہی ہے کہ کم از کم گجرات اسمبلی الیکشن تک ہمیں تیل کی قیمتوں میں اضافہ سے راحت ملتی رہے گی لیکن زر مبادلہ کے ذخیرہ پر اس کا گہرا منفی اثر پڑے گا۔
ملکی خزانہ میں بھر پور زر مبادلہ موجود رہنا ہر ملک کے لیے بہت اہم ہوتا ہے، اسے اس ملک کی معاشی صحت کا تھرما میٹر بھی کہا جاتا ہے، اس کا ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ اگر اس ملک کی کرنسی میں تیزی سے گراوٹ ہو یا ملک دیوالیہ ہورہا ہو تو اس ملک کے مرکزی بینک کے پاس بیک اپ فنڈ موجود رہے تاکہ ملک دیوالیہ نہ ہو، اس میں غیر ملکی کرنسی کے ساتھ ہی ساتھ سونے کا ذخیرہ ٹریزری یبل وغیرہ بھی شامل ہوتے ہیں۔آزادی کے بعد پہلی بار جب مودی سرکار نے ریزرو بینک سے اس کا ریزرو فنڈ لیا تھا تو بھی ماہرین معاشیات نے آگاہی دی تھی کہ سرکار ایک خطرناک قدم اٹھانے جا رہی ہے کیونکہ سابقہ حکومتوں نے جنگوں کے دوران بھی ریزرو بینک کو یوں کھوکھلا نہیں کیا تھا۔یہی نہیں ملک میں سونے کا ذخیرہ بھی تیزی سے گھٹ رہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس ہفتہ ملک کا سونے کا خزانہ گھٹ کر 38ارب ڈالر کے قریب آگیا ہے جو پہلے 46ارب ڈالر کے آس پاس تھا۔ زر مبادلہ میں کمی کی سب سے بڑی وجہ فارن کرنسی اسیٹ(ایف سی اے) میں گراوٹ ہے، یہ کل زرمبادلہ کا سب سے اہم جز ہوتا ہے جو گزشتہ30ستمبر کو گھٹ کر صرف473ارب ڈالر رہ گیا ہے۔
چند دنوں قبل ریزرو بینک آف انڈیا کے ملازمین کی یونین کے جنرل سکریٹری سی ایچ وینکٹ چلم نے اندور میں اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے آگاہی دی تھی کہ مودی حکومت کی غلط معاشی پالیسیوں کی وجہ سے ملک سنگین معاشی بحران میں مبتلا ہوتا جارہا ہے، انہوں نے کہا تھا کہ امپوٹ بڑھنے اور ایکسپورٹ گھٹنے کی وجہ سے ادائیگی کا توازن بگڑ چکا ہے اور ملک میں زر مبادلہ مسلسل کم ہوتا جا رہا ہے اور اگر اس صورت حال کو سدھارا نہ گیا تو ملک سری لنکا جیسے سنگین حالات سے بھی دو چار ہو سکتا ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ نوٹ بندی کے احمقانہ فیصلہ کے بعد سے ملکی معیشت میں جو گھن لگا تھا، ملک ابھی بھی اس سے ابھر نہیں پایا ہے، اس کے بعد جلدبازی میں بغیر مکمل تیاری اور بنا رموز و نکات پر غور کیے جی ایس ٹی نافذ کردیا گیا جس سے چھوٹے کاروباری تباہ ہو گئے پھر کورونا خدائی قہر بن کر نازل ہوا، اس نے تو پوری دنیا کو ہی ہلا کے رکھ دیا تھا لیکن ہندوستان میں جس بچکانہ اور غیر دانشمندانہ انداز میں لاک ڈاؤن لگایا گیا تھا، اس سے زبردست انسانی المیہ تو سامنے آیا ہی، معیشت کا تو برا حال ہو گیا اور بے روزگاروں کی بہت بڑی فوج کھڑی ہوگئی۔ منریگا کے ذریعہ دیہی بے روزگاری کو تو کسی حد تک قابو میں رکھا جاسکا لیکن تعمیرات ’آئی ٹی‘سروسز اور دیگر سیکٹروں میں روزگار ختم ہوگئے اور آج دنیا میں بے روزگاری کا سب سے زیادہ تناسب ہندوستان میں ہی ہے۔حکومت جس تیزی سے نجکاری کررہی ہے اور سرکاری املاک کو کوڑیوں کے بھاؤ فروخت کر رہی ہے، اس سے روزگار کے مواقع کم ہی ہوتے جارہے ہیں، سرکاری ملازمت پا کے پر سکون زندگی گزارنے کا خواب اب شرمندۂ تعبیر نہیں ہونے والا۔ کورونا کے دور میں30کروڑ لوگ غربت کی سطح سے نیچے آ گئے تھے۔حکومت دعویٰ کر رہی ہے کہ ہماری معیشت کورونا سے قبل والی سطح پر آ گئی ہے جبکہ84فیصد لوگوں کی اوسط آمدنی گھٹنے کا ریکارڈ بھی بتایا جا رہا ہے، دونوں باتیں سچ کیسے ہوسکتی ہیں۔لیکن جو لوگ مارکیٹ پر نظر رکھتے ہیں وہ دیکھ رہے ہیں کہ عوام کی قوت خرید بہت گر چکی ہے، لوگ صرف ضروریات زندگی کا سامان ہی خرید رہے ہیں۔مودی بھکت دکانداروں کا بھی کہنا ہے کہ اپنی دکان سے ان کو روزمرہ کے خرچ نکال پانا مشکل ہو رہا ہے۔صرف مودی دور سے پہلے کے سرکاری ملازمین خوشحال نہیں تو اطمینان میں ضرور ہیں کہ انہیں ماہانہ تنخواہ مل رہی ہے اور ان کے گھر کا خرچ آرام سے چل رہاہے۔مودی نے سرکاری ملازمتیں ختم کردی ہیں اور اب صرف ٹھیکہ پر عملہ رکھا جا رہا ہے جو عمومی حالت سے ایک چوتھائی سے کم تنخواہ پر کام کر رہا ہے۔ مرکزی وزیر نتن گڈکری اور آر ایس ایس میں نمبر دو کی پوزیشن رکھنے والے ہوسبلے جی نے بھی گرانی اور بے روزگاری پر بر سرعام تشویش ظاہر کی ہے۔فی الحال تو دیش دھرم بچانے کے چکر میں عوام خاص کر ہندی پٹی کے عوام کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی ہے لیکن بہت جلد انہیں بھی احساس ہوجائے گا کہ ان کے ہاتھ میں کٹورا بھی نہیں بچا ہے لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی ہوگی۔
(مضمون نگار سینئر صحافی و سیاسی تجزیہ نگار ہیں)
[email protected]