اقلیتوں اور اردو کے کردار پر شرد پوار کے بیان کے معنی

0

شاہد زبیری

ملک کے تمام شعبوں میں اقلیتوں اور اردو کے کردار کے حوالہ سے مہا راشٹر کے سابق وزیر اعلیٰ اور نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) کے قائد و بزرگ سیاستداں شرد پوار کا ایک بیان خبر رساں ایجنسیوں کے ذریعہ روزنامہ راشٹریہ سہارا کی 9اکتوبر کی اشاعت میں صفحہ اوّل کی زینت بنا ہے۔اپنے اس بیان میں شرد پوار نے ملک کے تمام شعبوں میں خواہ وہ فن ہو یا نثر اور شاعری سب شعبوں میں اقلیتوں اور اردو زبان کے کردار کو سرا ہا ہے اور بالی ووڈ کو ٹاپ پر لے جا نے کا سہرا بھی اقلیتوں اور اردو کے سر باندھا ہے ، حالانکہ وہ آزادی کی تحریک میں اردو کے کردار کا ذکر کرنا شاید بھول گئے۔ اقلیتوں اور اردو پر ان خیالات کا اظہار انہوں نے مہا راشٹر کے ودربھ مسلم انٹلکچوئل کے ایک سمینار ’مسلمانوں کے سامنے مسائل ‘ کے عنوان پر بولتے ہوئے کیا ہے ۔
شرد پوار کے بظاہر اس مخلصانہ بیان کو اقلیتوں بالخصوص مسلم اقلیت اور اردو کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تواس بیان کے ایک سے زائد معنی نکلتے ہیں اس لئے بھی کہ جس سمینار میں شرد پوار اظہارِ خیال کررہے تھے وہ مسلم انٹلکچوئل منچ کے زیر اہتمام تھا اور ان کے مخاطب بھی مسلمان ہی تھے، لیکن انہوں نے مسلمانوں کے بنیادی مسائل سے پہلو تہی کرتے ہوئے صرف فن ، نثر، شاعری اور بالی ووڈ کے حوالہ سے بات کی اور اردو کا رشتہ بھی مسلمانوں سے جوڑدیا جیسا کہ عام طور پر ہوتا رہا ہے کیا مسلم اقلیت کا مسئلہ صرف اردو ہے اور کیا واقعی اردو کا مسئلہ مسلم اقلیت کا مسئلہ ہے؟ ۔
ملک جب آزادی کے 75سال کا امرت مہوتسو منارہا ہے اس مہوتسو میں مسلمان کہاں کھڑے ہیں اس کا ادنیٰ سا اشارہ بھی شرد پوار کی تقریر سے نہیں ملتا ۔ آزادی کے ان 75سالوں میں ملک کے مختلف موسموں میں ان کے حصہ میں ٹھنڈی اور خوشگوار ہوا کے جھونکے کم اور گرم ہوا کے تھپیڑے زیادہ آئے ہیں ۔سچر کمیٹی اور رنگ ناتھ مشرا کمیشن کی رپورٹیں اس کی گواہ ہیں۔ طرفہ تماشا یہ کہ سچر کمیٹی کی رپورٹ بھی دھول چاٹ رہی ہے اور رنگ ناتھ مشرا کمیشن کی سفارشات کو بھی دیمک لگ گئی ہے جس کانگریس سرکار نے یہ پہل کی تھی اس نے دونوں کو ہی قابلِ اعتنا نہیں سمجھا۔ مسلم اقلیت اگر ہزاروں فسادات سے رسنے والے زخموں کو بھی نہ کریدے، ٹاڈا اور مکوکا سے بھی آنکھیں چرالے، دہشت گردی کے الزامات میں سلاخوں کے پیچھے بوڑھی ہوتی جوانیو ں، تباہ ہو تے گھروںاور برباد ہوتی نسلوں کی طرف سے بھی آنکھیں موندلے۔ روزی روٹی کیلئے محنت مزدوری بھی کرتی رہے لیکن ا پنے بچوں کے ہاتھوں میں قلم کے بجا ئے اوزار اور ہتھکڑیا ں کب تک دیکھے کب تک جیلوں کو آباد کرے۔ رپورٹیںتو یہی بتا تی ہیں کہ ملک کی جیلوں میں مسلمان ہیں یا دلت ہیں آخر ایسا کیوں ہے۔ کیا ایک ارب تیس کروڑ کی آبادی میں صرف ان طبقات کے لوگ ہی جرم کرتے ہیں ؟سوال یہ بھی ہے کہ ملک کی خوشحالی اور ترقی میں مسلم اقلیت کس پائیدان پر ہے اور ملک کے وسائل میں مسلم اقلیت کا کتنا حصہ ہے آخر اس پر ہماری سیکولر پارٹیوں کے لیڈران کیوں چپی سادھ لیتے۔ کوئی بھی موقع ہو مسلم اقلیت کے حوالہ سے جب بھی سیکولر پارٹیوں کے لیڈر کچھ بولتے ہیں تو وہ دائیں بائیں دیکھنے لگتے ہیں اورموسیقی ، شاعری، فلمی گانے اور بالی ووڈ پرآکر ہی ان کی تان ٹوٹتی ہے۔ شرد پوار نے آزادی کے بعد ملک میں ہونے والی تبدیلیوں اور بدلتے ہوئے حالات کو کانگریس کی سرکاروں میں رہتے ہوئے اور کانگریس سے علیحدگی اور اپنی پارٹی بنا نے کے بعد سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور مسلم اقلیت کے بنیادی مسائل سے بھی وہ بخوبی واقف ہیں اور عمر کے آخری پائیدان پر ہیں کیا ہی اچھا ہوتا کہ مسلم انٹلکچوئل کے اس سمینار میں جس کا عنوان ہی مسلمانوں کے مسائل پر تھا اس حوالہ سے کچھ حق گوئی کا اظہار کرتے اور آزادی کے بعد مختلف مسائل سے الجھتی ہوئی مسلم اقلیت کے بنیادی مسائل پر اپنی رائے رکھتے اور اربابِ اقتدار کی سر پرستی میں ہونے والی چیرہ دستیوں کو بے نقاب کرتے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا ۔
آزادی کے ان 75سالوں میںابھی تک تو مسلم اقلیت گرم ہوا کے تھپیڑے جھیل رہی تھی اب تو وہ حبس کا شکار ہے اور بقول جوش ملیح آبادی حالت یہ ہے کہ لُوکی دعاء مانگ رہے ہیں لوگ۔ بچیوں کے سروں سے نقاب نوچا جا رہا ہے ، فرقہ پرست اور فسطائت کے علمبردار مدرسہ میں گھس کرپوجا کی کوشش کررہے ہیں، مدرسوں پر سرکاری بلڈوزر چل رہا ہے تو کہیں مدرسوں کا سروے کرایا جا رہا ہے اور کسی ریاست میں کامن سول کوڈ کا بلو پرنٹ تیار کیا جا رہا ہے ،ماب لنچنگ ہو رہی ہے، لو جہاد اور گربا ڈانس کولے کر مسلم جوانوں کو عریاں کر کے پیٹا جا رہا ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ پولیس ہی عدالت کا فریضہ بھی انجام دینے لگی ہے۔ مسلم نوجوا نوں کی تھانوں میں قطار میں کھڑا کر کے ڈنڈے برسا کر ہاتھ پائوں توڑ تی ہے اور اکثریت کی مذہبی تقریب پر پتھرائو کے الزام میں کھمبے سے باندھ کر عوام کے درمیان پیٹنے سے بھی گریز نہیں کررہی ہے۔
شرد پوار جیسے سیکولر لیڈر بھی ان مسائل پرخاموش رہیں، سوال تو اٹھے گاہی ، مسلمانوں کی روزی روٹی ، تعلیم اور صحت کے بنیادی سوال الگ رہے شرد پوار بھی اردو اور مسلمانوں کی باتیں کررہے ہیں اور اس حقیقت کو بھول گئے کہ زبانوں کا کوئی مذہب نہیں ہو تا۔ زبا نیں سب کی ہو تی ہیں اردو بھی سب کی زبان ہے جبکہ وہ اردو کا رشتہ مسلمانوں سے جوڑ کر دیکھ رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس خالص ہندوستانی اور سیکو لر زبان کو مسلمانوں کی زبان قرار دے کر اس کو پاتال میں اتارنے کی کوششیں کامیاب ہورہی ہیں اور مسلم دشمنی میں اردو بھی تہ تیغ کی جا تی رہی ہے۔ اردو کو بہار اور یو پی میں سیکنڈ سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے پھر بھی اس کا حق نہیں دیا جا رہا ہے سیکولر سرکاروں کے رہتے اردو اسکولی نصاب سے ہی با ہر نہیں کی گئی کالجوں سے بھی اردو کو باہر کا رستہ دکھا یا گیا، اردو میڈیم اسکول سیکولر سرکاروں نے ہی ختم کئے، سرکاری دفاتر میں ناموں کی پلیٹ پر بھی اب تو اردو نظر نہیں آتی۔ یوپی میں اردو اسا تذہ اور مترجمین کی بھرتی کے باوجود عام طور پر نہ تو سرکاری پرائمری اسکولوں میں اردو پڑھا ئی جا رہی ہے اور نہ سرکاری دفاتر میں اردو میں درخواستیں قبول کی جا تی ہیں دفاتر اور پولیس تھا نوں میں مترجمین کی تقرری بھی کی گئی لیکن اردو میں درخواستیں نہیں دی جاتیں اگرایسا کیا بھی جاتا ہے تواردو کی درخواست ردّی کی ٹوکری میں پھینک دی جا تی ہے ۔ جس اردو زبان کو مسلم اقلیت کی زبان کہا جا رہا ہے اگر یہ زبان مسلم اقلیت کی زبان ہوتی تو اس کی دو نسلیں اردو سے کیوں بے بہرہ ہوتیں ۔اردو تو مساجد ،مقابر امام باڑوں اور خانقاہوںتک سے کان پکڑ کر باہر کی جا چکی ہے، دکانوں پر اردو کے بورڈ اب دکھائی نہیں دیتے، اردو کو اگر کہیں جائے پناہ ملی ہوئی ہے وہ ہمارے دینی مدارس ہیں جہاں اردو ذریعہ تعلیم ہے عام طور پر اردو زبان کی تعلیم کا بندو بست یہاں بھی نہیں ہے ۔ فروغِ اردو کونسل کے ماہنامہ ’اردو دنیا‘ نے راقم الحروف سے دارالعلوم دیوبند اور مظاہر علوم سہارنپور میں اردو زبان کی تعلیم پر ایک مضمون لکھوا یا تھا جو ریکارڈ پر ہے کہ ان بڑے مدارس میں بھی اردو صرف ذریعہ تعلیم ہے ۔بحیثیت زبان یہاں بھی اردو کی تعلیم نہیں دی جا تی غنیمت ہے کہ دینی مدارس نے اردو کو ذریعہ تعلیم مان کر اس کے طرزِ تحریر کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ اب سرکاریں اور فرقہ پرست ان مدارس کے پیچھے پڑے ہیں مدارس کے بعد نشستوں اور مشاعروں میں اردو سنائی پڑتی ہے۔ ان نامساعد حالات میں بھی صرف اردو اخبارات اور جرائد و رسائل اردو کیلئے جہاد کررہے ہیں اور اپنی بساط سے زیادہ اردو کی خدمت میں مصروف ہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS