ترقی یافتہ ہندوستان کی تعمیر کی راہ

0

عتیق فاروقی

ہندوستان آزادی کا امرت مہوتسو منانے کے بعد 2047 تک ترقی یافتہ ملک بننے کے ہدف کی جانب دیکھ رہا ہے۔ ایسے میں 75برس کی حصولیابیوں پر فخر کرنے کے ساتھ جمہوریت کی کیفیت کا تجزیہ کرنا بھی ضروری ہے۔ حال میں جو سمت ہم اپنی جمہوریت کو دیں گے، وہی اگلے 25برسوں کیلئے میل کا پتھر ثابت ہوگا۔ ہم سبھی واقف ہیں کہ ہندوستان نے1947 میں جمہوریت کے پارلیمانی نظام کو اپنایا ہے ۔ ہمارا ملک آئین کے مطابق چلتاہے۔ ملک میں تین سطح پر نظام حکومت ہے: مرکز، ریاست اور موضع پنچایت۔ جس وقت ہمارے آئین کی تشکیل ہورہی تھی اُس وقت آئین سازوں نے مقامی سطح پر تیسری سطح کے نظام کیلئے مہاتماگاندھی کی آواز کو نظرانداز کرتے ہوئے دوسطحوں مرکز اورریاست پر حکومت قائم کرتے ہوئے وفاقی ڈھانچے کی تشکیل کی تھی۔ 73ویںاور 74ویں آئینی ترمیم کے تحت پنچایتی راج نظام کو حکومت کی تیسری سطح کی شکل میں قانونی درجہ ملا۔گاندھی جی نے موضع سطح پر جمہوریت کی وکالت بہت پہلے ہی کی تھی ۔
ہندوستان کے آئین میں سیاسی جماعتوں کا مقام یا ان کے کردار کے بارے میں ہمیں واضح طور پر دیکھنے کو نہیں ملتا ہے۔ ایسے میں یہ تعجب خیز ہی ہے کہ گزشتہ سات دہائیوں میں کس قدر ہماری جمہوریت سیاسی جماعت کی مترادف بن گئی ہے۔ آج پارٹی مشین نے جمہوریت پر قبضہ کرلیا ہے۔ سیاسی جماعتوں میں اعلیٰ کمان ذہنیت،غیرقانونی چندہ جمع کرنااورسونے پر سہاگہ عوام کی سوئی قوت ارادی نے سیاسی جماعتوں کو بے لگام بنادیاہے۔ عوام کیلئے جمہوریت کافی حد تک صرف چناوی تہوار کی شکل میں سمٹ کر رہ گئی ہے۔ عام طور پر رائے دہندگان کے پاس دوہی پسند ہوتی ہیں۔ انتخابی مرکز پر جائیں اوراپنی پسند کے اس امیدوار کے حق میں ووٹ دیں جو سیاسی جماعتوں کی طرف سے کھڑے کیے جاتے ہیں یاکسی کو ووٹ نہ دے کر نوٹا دبائیں۔ عوام کی جمہوریت میں شراکت داری کی اس سے زیادہ گنجائش نہیں ہے۔ سیاسی جماعتیں عوام کاجتنا زیادہ پولرائزیشن کرنے کی اہل ہوتی ہیں، اتنی ہی زیادہ وہ پنپتی ہیں۔ اگرحالیہ واقعات پر نگاہ ڈالی جائے توہمیں پتہ چلے گاکہ عوام کے پاس لاچاری سے انہیں دیکھنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔کم ازکم پانچ ریاستوں میں تو مرکز کی حکمراںجماعت نے رکن اسمبلی کی خرید و فروخت کی بدولت وہاں کی سرکاریں گرا دیں۔ دہلی اورپنجاب میں ایسی کوششیں جاری ہیں۔ای ڈی اور سی بی آئی کی مدد سے مخالفین کو ڈرادھمکاکر خاموش کرنے کا عمل جاری ہے۔ بدعنوانی کا چلن حزب اقتدار اور حزب مخالف دونوں طرف ہے۔ رافیل معاملہ، بڑے صنعتی گھرانوں کے ذریعے بینک سے لیے گئے قرضوں کی واپسی کا معاملہ یا بینک سے کروڑوں روپے لے کر وجے مالیہ جیسے صنعت کاروں کا ملک سے فرار ہونے کا معاملہ یا الیکٹورل بانڈ کا نظام، یہ سبھی معاملے حکمراں جماعت کی شبیہ کو خراب ہی کرتے ہیں۔ دوسری طرف بہار میں نتیش کمارکا لالو پرساد سے ہاتھ ملانا، بنگال کی جیل میں بند سابق وزیرتعلیم پارتھ چٹرجی کے قریبی رشتہ داروں کے گھروں سے ملے نوٹوں کے بنڈل سب نے دیکھے۔ یہ واقعہ ممتابنرجی کی شبیہ خراب کرنے کیلئے کافی ہے۔ بہار اورمہاراشٹرمیں جو کچھ ہوا بہرحال وہ عوامی مینڈیٹ کی خلاف ورزی ہے۔ لوگوں کو خیموں میں تقسیم کرکے اپنی سیاست چمکانا جماعتی سیاست کا اٹوٹ حصہ بن چکاہے۔ طاقت کو مرکوز کرکے، جائز ناجائز ہرطریقہ اپناکر اقتدارسے چمٹے رہنا بھی جماعتی نظام میں خوب دیکھنے کو ملتاہے۔ سوال پیدا ہوتاہے کیاجمہوریت کا یہی اصل نظریہ ہے؟کیا ہمارے آئین سازوں نے اسی جمہوریت کا خواب دیکھا تھا؟ اس کاجواب واضح ہے ، بالکل نہیں۔ موجودہ حالات ہماری جمہوریت کی کامل شکل نہیں ہے۔
اگرہم اپنی شاندار تاریخ کا جائزہ لیں تو پتہ چلے گاکہ وید کے دورسے ہی ہمارے دیہی علاقوںمیں مقامی حکومتیں رائج تھیں۔ ہمارا جمہوری ماڈل یونانی اوررومی جمہوریت ماڈل سے بھی قدیم ہے۔ ہمارے تمام مفکرین اور دانشوروں کے ذریعے جمہوری نظام میں اصلاح کی ضرورت پر زور دیا جارہا ہے لیکن اِسے نظرانداز کیا جارہا ہے۔ اِس وقت ہندوستانی جمہوریت کیلئے سب سے زیادہ ضروری ہے اشتراکی جمہوریت کا ایک جدید ماڈل بنانا، ایک ایسی جمہوریت جس کا بہاؤ نیچے سے اوپر کی جانب ہونہ کہ جے پرکاش جی کے الفاظ میں الٹے پرامڈ کے مانندکھڑا ہو ۔
موجودہ پس منظرمیں بغیر جماعت جمہوریت کا تصور عوام کو حیرت زدہ کردیتاہے لیکن اگرتاریخ کاجائزہ لیاجائے تو پتہ چلتاہے کہ ایم این رائے، مہاتماگاندھی اورجے پرکاش نرائن نے بغیر جماعت جمہوریت کا خواب دیکھا تھا۔ ایم این رائے نے 1944ء میں عوامی کمیٹیاں بنانے کی اپیل کی تھی۔ گاندھی جی کی تجویز تھی کہ کانگریس کو تحلیل کردیاجائے اورآزاد ہندوستان میں گرام سبھاؤں کی شکل میں جمہوریت کے بیج بوئے جائیں ۔ بعدازاں جے پرکاش جی نے جماعت پر مبنی سیاست کو خدا حافظ کہہ دیا۔ انہوں نے اپنے خیالات کو پاکیزہ کیا اورعوامی خود حکمرانی کی حمایت میں کھڑے ہوئے۔ انہوں نے چناؤ لڑنے کیلئے عوامی امیدوار یعنی لوگوں کی کمیٹیاں یارائے دہندگان کونسل کے ذریعے چنے گئے امیدواروں کو میدان میں اتارنے کی وکالت کی۔آج بھی کئی مفکر ایسے ہی ماڈل کی وکالت کرتے آرہے ہیں تاکہ اِس تصور کو زمینی سطح پر بھی لوگوں کی قوت ملے۔
آج ہمارے ملک کو انتخابی، عدالتی اور انتظامی اصلاحات کی سخت ضرورت ہے۔ ہمیں یہ بھی سمجھناہوگاکہ سات دہائیوں کے تجربات نے یہ ثابت کردیاہے کہ چنے گئے نمائندے ہمیں متوقع تبدیلی نہیں دیں گے جبکہ ہمارے ملک کو اب مکمل اصلاحات کی ضرورت ہے جسے ’تبدیلیٔ نظام ‘جیسے الفاظ سے بھی پکاراجاسکتاہے۔اس لیے ہماری جمہوریت کو قوت بخشنے اورحالیہ نظام کو درست کرنے کیلئے عوام کو متحدہونا پڑے گا۔ ایک نئی اور وسیع پیمانہ پر مہم کی ضرورت ہے جو اصلاح سے متعلق ایجنڈے کو عوام کے سامنے لے کر آئے ۔ عوام کو اپنے امیدوار کو خود سے انتخاب کرنے کا اختیار ملناچاہیے۔اِس کیلئے سب سے پہلے عوام کو تعلیم کے زیورسے آراستہ کرناہوگا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS