دنیا کے سب سے پیچیدہ ترین مسئلے فلسطین نے پوری دنیا میں انصاف اورانسانیت پسندوں کے لیے بہت بڑاچیلنج پیش کررکھاہے۔ 1993میں اوسلومعاہدے کی بنیادی نکات میں دوریاستی فارمولہ بھی شامل تھا۔ مگراب 30سال کا عرصہ گزرنے کے بعد اسرائیل کے کارگزار وزیراعظم یائر لیپڈ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطے میں قیام امن کے لیے اسی مسئلہ کو حل کرنے کی ضرورت پر زور دیاتھا اوراس کی بنیاد دوریاستی فارمولہ پراصرار کیا۔ ان کا یہ موقف اس وقت سامنے آیاہے چند دن بعدیکم نومبر کو وہاں ووٹ ڈالے جائیں گے ۔ یہ انتخابات اسرائیل کی اندرونی سیاست میں تبدیلیوں کی طرف اشارہ تو کرتا ہی ہے مگر اس سے اس بات کا اندازہ بھی لگاناآسان ہے کہ پوری دنیا میں اسرائیل کی ہٹ دھرمی اور ظالمانہ کارروائیوں سے ناراضگی ہے اورمغربی طاقتوں کو بھی لگنے لگاہے کہ اسرائیل ان کا استعمال اپنے صیہونی عزائم کی تکمیل کے لیے کررہاہے۔
اسرائیل کے کارگزار صدر یائرلیپڈ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کہاہے کہ ہم اپنے بچوں کے روشن مستقبل کے لیے اوراسرائیل کی معیشت اور سیکورٹی کے لیے کام کررہے ہیں۔ مگراسی دوران کارگزار وزیراعظم نے اسرائیل کے تحفظ کی شرط اس پیش کش سے مربوط کرکے اہل مغرب اورصیہونی ریاست کے پرانے ہتھکنڈے پرمصر رہنے کا اشارہ بھی دے دیا ہے۔ اسرائیل کے جابر اور خالص حکمراں اپنے تحفظ کو آگے کرکے اپنے استبدادی ہتھکنڈوں کو جواز فراہم کرتے ہیں۔ اس لیے اسرائیلی وزیراعظم کی اس پیش کش پر کوئی والہانہ ردعمل ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔ یائرلیپڈ معتدل لیڈرسمجھے جاتے ہیں۔ اب انتخابات سے عین چند روز قبل اس طرح کا بیان اسرائیل کی اندرونی سیاست اور عوامی مزاج پر کیاردعمل ڈالتا ہے دیکھناہوگا۔ کیونکہ بنجامن نتن یاہو جیسے سخت گیر سیاست داں مٹھی بھر عناصر کی ’معتدل مزاجی‘ اورمیانہ روی کو سیکورٹی کے تئیں نرم روی‘قرار دے کر سخت گیرصیہونیوں میں گرفت مضبوط بنارہے ہیں۔
نتن یاہو اسرائیل میں دوریاستی فارمولے کے سب سے سخت مخالفت کہے جاتے ہیں۔ فلسطینی اس علاقے میں اپنی آزاد ریاست بنانے کا مطالبہ کررہے ہیں جس پر اسرائیل نے 1967میں قبضہ کرلیا تھا۔ یہ علاقے مغربی کنارہ، غزہ اورمشرقی یروشلم ہیں۔ اسرائیل مغربی کنارے میں فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کے لیے سرگرم طریقہ سے مہم چلائے ہوئے ہے۔ تمام بین الاقوامی ادارے اورمغربی طاقتیں ان کی اس استبدادی حرکتوں کی مذمت کرتے ہیں مگراس کے باوجودوہ فلسطینیوں کو بے گھر کرنے اور ان کے مکانات اورزمین پردنیا بھر سے یہودیوں کو لاکر بسارہاہے۔ دراصل اسرائیل کے حوصلے اس لیے بھی بلند ہیں کہ ڈونالڈ ٹرمپ کے دوراقتدار میں امریکہ مشرقی یروشلم کو اسرائیل کی راجدھانی تسلیم کرچکا ہے اور وہاں پر اپنا سفارتی دفتربھی کھول چکاہے۔
فلسطینیوں کااصرارہے کہ یروشلم ان کی آزاد ریاست کی راجدھانی ہوگی، جس کومنفرد بین الاقوامی شہر کا رتبہ حاصل ہوگا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں یائرلیپڈکی پرفلسطینیوں کا محدود ردعمل سامنے آیاکیونکہ گزشتہ50سال سے زائد عرصے اوراس سے پہلے 75سال کے لیے فلسطینی اپنے حقوق کا اتلاف اوراسرائیلی بربریت کا ننگاناچ بلاروک ٹوک جاری ہے اور اس بربریت میں ہروز نئے ابواب شامل ہورہے ہیں اوراسرائیل مسلمانوں کو روحانی تکلیف اورصدمات سے دوچار کرنے کے لیے نئے نئے ہتھکنڈے اختیار کررہاہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کارگزاروزیراعظم کا حالیہ یہ موقف سنجیدہ حکمت عملی کا نتیجہ ہے یا محض انتخابی ہتھکنڈہ!
دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ کے بعدصیہونیوں کو ایک مخصوص ریاست دینے کے لیے صیہونیوں کے مذہبی استعمال پر اقوام متحدہ کے سہارے اسرائیل وجود میںآیا۔ ان مغربی طاقتوں نے جنگیں کرکے اورمعاہدے کرکے دونوں طریقوں سے عربوں اور مغربی ایشیا کے مسلمانوں اورمسلم ملکوں کو تقسیم کیا۔ 1915میں عرب ملکوں سے وعدہ کیاگیا کہ وہ سلطنت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کرتے ہیں ان کو آزاد کردیاجائے گا۔اس معاہدے میں برطانیہ پیش پیش تھا بعدازاں فرانس اور برطانیہ نے خفیہ منصوبہ بندی کرکے پورے خطے کو منقسم کرنے پر اتفاق کیا۔ ادھر1917میں یہودیوں سے وعدہ کیا گیا کہ ارض فلسطین ان کے لیے علیحدہ ریاست بنادیں گے۔
کئی یوروپی ملکوں کی طرح عرب فرانس اوربرطانیہ نے آپس میں طے کرلیا کہ وہ کن کن ممالک میں اپنی حکومتیں کریں اور کن ملکوں کو دوسروں کے لیے چھوڑ دیں گے اور 1920میں جب برطانیہ نے فلسطین پر پورا قبضہ جمالیا تو یوروپ کے مختلف ملکوں میں منقسم یہودیوں کومنصوبہ بند طریقے سے یہاں لاکر بسانا شروع کردیا۔ اس وقت فلسطین کی سرزمین میں مقامی یہودیوں کی آبادی محض9فیصد تھی۔ مغربی طاقتوں بطور خاص برطانیہ اورفرانس نے اس علاقے کو یہودی آبادی سے پر کرنا شروع کردیا۔ ان یہودیوں میں زیادہ تر وہ لوگ تھے جو مختلف یوروپی ممالک میں اہل یوروپ، عیسائیوں کے مظالم کا شکار ہورہے تھے۔ 1935تک یہ سلسلہ چلتا رہا اور یہودیوں نے برطانوی سامراجی طاقت کی نگرانی میں بڑے پیمانے پر ہتھیار اور حربی آلات جمع کرکے عام فلسطینیوں کو پریشان کرنا اور ارض فلسطین کو چھوڑنے پر مجبور کرناشروع کردیا۔ بعدازاں 1947 میں مغربی طاقتوں نے اپنے غلبہ والی اقوام متحدہ پرذمہ داری منتقل کردی کہ وہ اس کے بچے ہوئے ’مشن‘ کو پورا کردے۔ اس سے اسرائیل کے قیام کو قانونی جواز بھی فراہم کردیاگیا۔ اس منصوبے کے مطابق یہودی ریاست اسرائیل کا فلسطین کی 65فیصد آبادی پرقبضہ ہوگیا۔ اس وقت فلسطین میں صرف500,000فلسطینی آبادی رہ گئی تھی۔ آج اسرائیل میں اسرائیل کی آبادی کا محض19فیصد رہ گئے ہیں اور یہ آبادی کل اسرائیلی سرزمین (مقبوضہ فلسطین) کے 3فیصد میں مقید ہوکر رہ گئے ہیں۔ 1967کے بعد اسرائیل نے دیگر فلسطینی علاقوں غزہ، مغربی کنارہ اور مشرقی یروشلم پرحملہ کرکے قبضہ کرلیا۔ آج کی صورت حال سب پرعیاں ہے۔
آج جب روس نے یوکرین پرحملہ کرکے کئی علاقوں پرزبردستی قبضہ کرلیا ہے تو پورامغرب ایک زبان ہوکر اس کی مذمت کررہاہے مگراسرائیل کے معاملہ میں ان کے زبان بند ہے۔ صیہونی ریاست کی حرکتوں کے خلاف آواز اٹھانے والے اوراس کی نسل پرستی کے خلاف پرامن مہم چلانے والے گروپوں پربرطانیہ جیسے ’انسانیت نواز‘ ممالک پرپابندیاں عائد کرتے ہیں جبکہ آج فلسطینیوں پراسرائیل نے جو مظالم ڈھائے ہیں یاڈھائے جارہے ہیں، مغربی برادری خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔اتنہایہ ہے کہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں اسرائیل نے 250ناجائز اورغیرقانونی بستیاں بساکر فلسطینیوں کو وہاں سے نکال دیا ہے اور دنیا بھر سے یہودیوں کو لاکر ان علاقوں میں بسارہاہے۔
اسرائیل فلسطینیوں کو گھربنانے نہیں دیتا ہے اورانتظامیہ کے پاس مکانات کی تعمیر نو کی جودرخواستیں آتی ہیں، ان میں سے 99فیصد رد کردی جاتی ہیں۔
اسرائیل ان علاقوں میں2009سے اب تک 12,800سے زیادہ مکانات کو اندھادھند طریقے سے مسمار کرچکاہے۔
1948میں فلسطین کو صیہونی ریاست قرار دے دیاگیا۔ اس دوران ظالم یہودیوں نے 15,000فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔تقریبا!750,000کو گھروں سے نکال دیا۔n
اسرائیل کو دوریاستی فارمولے کی یادآئی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS