پانچ وقت کا امام بنانے کے لیے ہی مدارس نہیں ہیں، ان کا دائرۂ کار کافی وسیع ہے۔ علم کو تقسیم کرکے دیکھنے والوں کی زبان میں کہیں تو وہ ’دینی‘ علوم کا بھی مرکز ہیں، ’دنیاوی‘ علوم کا بھی۔ ویسے یہ بات الگ ہے کہ علم، علم ہے۔ اس کی ایسی تقسیم ٹھیک نہیں۔ اسی تقسیم نے مدرسے اور کالج کے درمیان خلیج پیدا کی ہے جبکہ 7 ویں سے 15 ویں صدی تک بڑی تعداد میں ایسے مسلمان تھے جو ایک طرف عصری علوم کے ماہر تھے اوردوسری طرف مذہبی علوم کے بھی اچھے جانکار تھے۔ ریاضی اور فلکیات میں البتانی اور ابی الوفاء البوزجانی کے بعد سب سے زیادہ شہرت ابن یونس کو ملی۔ ان کے والد محدث اور عالم دین ہونے کے ساتھ اپنے وقت کے مشہور مؤرخ تھے۔ عبداللہ بن زہراپنے والد کی طرح ہی فقیہ تھے مگر طب کی تاریخ میں آج بھی ان کا شمار بڑے اطبا میں ہوتا ہے۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے کینسر کا پتہ انہوں نے ہی لگایا تھا۔ ابن الہیثم طبعیات، ریاضی، ہندسیات، فلکیات اور ادویات میں اپنے کاموں کی وجہ سے عالمی شہرت رکھتے ہیں۔ آنکھوں اور روشنی سے متعلق ان کے ریسرچ کو آج بھی بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔ ابن الہیثم نے شروع میں بڑی دلجمعی سے مذہبی تعلیم ہی حاصل کی تھی۔ ابن خلدون کو مورخ اور فلسفی کی حیثیت سے بڑی شہرت ملی تو دوسری طرف وہ مانے ہوئے فقیہ تھے۔ یوروپ کے میڈیکل سائنس میں صدیوں چھائے رہنے والے ابن سینا نے پہلے قرآن و حدیث کی تعلیم حاصل کی، قرآن حفظ کیا اور پھر عصری علوم کی طرف رخ کیا تھا۔ البیرونی محتاج تعارف نہیں ہیں، وہ ایک بڑے محقق اور سائنس داں تھے۔ انہوں نے مذہبی تعلیم کے ساتھ ہی عصری تعلیم بھی حاصل کی تھی۔ عبدالرحمن جامی معروف صوفی شاعر اور مؤرخ تھے۔ انہوں نے دیگر عصری علوم کے ساتھ اسلامی فلسفے کی بھی تعلیم حاصل کی تھی۔ ابن رشدنے بھی پہلے فقہ اور احادیث پڑھنے پر ہی توجہ دی تھی۔ وہ اپنے وقت کے مشہور فلسفی، طبیب اور فلکیات کے ماہر تھے۔ نصیرالدین طوسی کا شمار تاریخ کے بڑے سائنس دانوں میں ہوتا ہے۔ ان کی زندگی سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بچہ اگرپہلے ہی پہلے مذہبی تعلیم حاصل کر لیتا ہے تو اس کے ذہن اور اس کی سوچ کو ایک سمت مل جاتی ہے، اسے سنجیدگی سے پڑھنے اور غور فکر کی عادت پڑ جاتی ہے، اس کا فائدہ عصری تعلیم حاصل کرتے وقت اسے ہوتا ہے۔ مذہبی تعلیم عصری علوم کے حصول میں رکاوٹ بننے کے بجائے معاون بنتی ہے، یہ بات نصیرالدین طوسی کی زندگی سے اس طرح ثابت ہوتی ہے کہ انہوں نے پہلے قرآن و حدیث کی ہی تعلیم حاصل کی تھی۔ اصل میں اس وقت کے لوگ تعلیم کو خانوں میں بانٹ کر نہیں دیکھتے تھے۔ قرآن پڑھتے وقت یہ سوچتے تھے کہ اللہ بندے سے کیا چاہتا ہے، یہ کائنات اس نے کیوں بنائی ہے، اس کے اسرارورموز کو کیسے سمجھا جا سکتا ہے، اس کے لیے سوچنے کا انداز کیا ہونا چاہیے، چنانچہ یہ بات ذہن سے نکالنی چاہیے کہ عصری علوم کے حصول میں مذہبی تعلیم رکاوٹ ہے۔n
عصری علوم کے حصول میں رکاوٹ نہیں مذہبی تعلیم!
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS