عبدالماجد نظامی
کسی بھی مسئلہ کے حل کے کئی طریقے ہوسکتے ہیں لیکن بنیادی طور پر جنگ اور بات چیت دو ہی ایسے وسائل ہیں جن پر عام طور سے انحصار زیادہ کیا جاتا ہے۔ پہلا وسیلہ تو وہی ہے جس کا استعمال عموماً دشمنوں کے ساتھ کیا جاتا ہے جیسا کہ اس وقت روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ کی شکل میں پوری دنیا دیکھ رہی ہے اور اس کے نہایت مہلک نتائج سے صرف یہ دو ممالک ہی نہیں بلکہ کم و بیش کرۂ ارضی پر بسنے والے تمام لوگ دوچار ہو رہے ہیں۔ جنگوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ بم و بندوق سے کبھی مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ ان میں مزید پیچیدگیاں پیدا ہوجاتی ہیں جن کو سلجھانے میں کئی نسلوں کی ذہنی و فکری قوت غارت ہوجاتی ہے اور معاشرہ رفاہ و ترقی کے راستہ سے ہٹ کر انجماد و انتشار کے دلدل میں پھنس جاتا ہے۔ اسی لیے جنگ کو ایک اچھا وسیلہ نہیں بتایا گیا ہے۔ ہر ممکن طور پر اس کو ٹالتے رہنے کا مشورہ دانشوران اور خود جنگ کے ماہرین نے بھی دیا ہے۔ جرمنی میں پیدا ہونے والا فلسفی نطشے(Nietzsche) گرچہ سماج کے ارتقاء کے لیے جنگ کو ضروری قرار دیتا تھا لیکن دو عظیم عالمی جنگوں میں بڑی قیمت چکانے والے اس ملک میں آج جنگ کی حمایت کرنے والا طبقہ بہت محدود ہے کیونکہ جرمنی نے اس درد کو جھیلا ہے اور لاکھوں بیش قیمتی جانوں کو کھو کر یہ کڑوا سچ قبول کیا ہے کہ جنگ کبھی مسئلے حل نہیں کرتی بلکہ مسائل پیدا کرتی ہے۔ خود ہمارا ملک ہندوستان اپنی پوری تاریخ میں بہت کم جنگوں میں شامل ہوا ہے اور اسی لیے یہ بالکل عین قرین عقل و قیاس بات تھی کہ مہاتما گاندھی جیسا عدم تشدد کا پیغامبر اس دھرتی سے اٹھے جہاں کلنگا کے میدان میں261قبل مسیح میں جنگ جیتنے کے باوجود اشوک نے خود کو شکست خوردہ محسوس کیا تھا کیونکہ اس جنگ کے نتیجہ میں اتنی بے شمار جانیں قربان ہوگئی تھیں کہ اس کے مقابلہ میں یہ جیت اشوک کو ہیچ معلوم ہونے لگی اور انہوں نے ہمیشہ کے لیے جنگ سے توبہ کرلی اور بودھ دھرم کو قبول کرلیا۔ گاندھی کی اہنسا پر مبنی تحریک میں اشوک کا وہ عنصر بھی موجود تھا جس نے انسانوں کے درمیان محبت و رواداری کے ذریعہ مسائل کے حل کا راستہ دکھایا تھا۔ گاندھی جی کے نظریۂ تشدد میں یہ محبت و انسیت کا ہی وہ ابدی پیغام تھا جس نے ٹالسٹائے جیسے حساس ادیب اور دردمند دل رکھنے والے انسانیت نواز شخص کو بھی متاثر کر دیا تھا اور ان سے رو برو ملاقات نہ ہونے کے باوجود ٹالسٹائے نے صرف گاندھی جی کے ساتھ ہوئے مراسلوں سے اندازہ لگا لیا تھا کہ ہندوستان کی سر زمین سے دور جنوبی افریقہ میں مظلوموں کو انصاف دلانے کے لیے کوشاں رہنے والا یہ لاغر جسم لیکن مضبوط قوت ارادی کا انسان جنگ کی تہذیب میں ڈوبی اس دنیا کو عدم تشدد کا وہ سبق پڑھا رہا ہے جس کی ضرورت انسانی سماج میں ہر مرحلہ میں پڑے گی۔ شاید ہندوستان کی اسی شان دار تاریخ کے ابواب کے چند روشن اوراق مسلم دانشوران کی آنکھوں کے سامنے بھی رہے ہوں گے جن کے مطالعہ سے انہیں یہ حوصلہ ملا ہوگا کہ ملک میں پھیلی بے چینی اور خوف و ہراس کے ماحول میں جی رہے مسلمانوں کے لیے ایک ایسا دروازہ کھولا جائے جہاں سے محبت و آشتی کا پیغام آئے اور گھٹن کے اس ماحول میں تھوڑی راحت کی سانسیں لینے کا موقع ملے، اس لیے انہوں نے دوسرا وسیلہ یعنی بات چیت کو اختیار کیا اور ہندو-مسلم تصادم سے احتراز کی راہ ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ جن مسلم دانشوروں نے آ ر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کے ساتھ بات چیت کا اقدام کیا ہے، ہمیں ان کی نیت پر شک نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ان میں تقریباً ہر شخص نے اس ملک کی ترقی میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ کسی نے فوج میں اعلیٰ عہدہ سنبھالا ہے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جیسے عظیم مرکز علم و عرفاں کے وائس چانسلر رہے ہیں تو کسی نے الیکشن کمیشن کا چیف رہ کر ملک کے ووٹروں کا مزاج پہچانا ہے۔ کسی نے دلی جیسے مرکز میں لیفٹیننٹ گورنر کی ذمہ داریاں سنبھالی ہیں اور جامعہ ملیہ اسلامیہ جیسی عظیم درس گاہ کا وائس چانسلر ہونے کا شرف حاصل کیا ہے۔ کسی نے میڈیا اور سیاست میں برسوں عرق ریزی کی ہے تو کسی کو تجارت و سیاست کا اچھا خاصا تجربہ حاصل ہے۔ گویا یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان میں بحیثیت مجموعی وہ تمام صلاحیتیں موجود ہیں جو آر ایس ایس جیسی ہندوتو کی تنظیم سے گفتگو کے لیے مطلوب ہیں۔ ان دانشوران کو غالباً یہ اندازہ تھا کہ چونکہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو فکری غذا آر ایس ایس سے ملتی ہے، اس لیے پہلے موہن بھاگوت سے ہی بات چیت کی جائے تاکہ مرکزی حکومت تک بھی یہ پیغام جائے کہ ملک کی اقلیتوں میں جو خوف کا ماحول پایا جاتا ہے اور بطور خاص مسلم اقلیت کے خلاف آر ایس ایس کی ذیلی تنظیموں اور خود بی جے پی کے لیڈران اور وزراء کے ذریعہ جو تشدد آمیز بیانات جاری ہوتے رہتے ہیں، ان پر روک لگے اور مسلم اقلیت کو حاشیہ پر ڈالنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔ کیونکہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو ملک کی معیشت کمزور ہوگی، سیاسی انتشار اور انارکی کا خطرہ بڑھے گا اور خود سماج کے اندرونی ڈھانچہ کو سخت نقصان پہنچے گا جو کسی کے لیے بھی مفید نہیں ہوگا۔ ان مسلم دانشوران کے بقول آر ایس ایس کے سربراہ کا ردعمل مثبت تھا اور مزید ملاقاتوں کی امید ظاہر کی جا رہی ہے۔ اس ملاقات کے بارے میں مثبت اور منفی ہر طرح کی آرا میڈیا میں سامنے آئی ہیں اور ان مسلم دانشوروں نے منفی ردعمل کا جواب بھی دیا ہے۔ دراصل جنہوں نے اس ملاقات سے مایوسی کا اظہار کیا ہے، ان کی باتوں میں بھی دم ہے کیونکہ گزشتہ آٹھ سالوں میں مسلمانوں کے لیے سارے مسائل آر ایس ایس اور بی جے پی نے ہی پیدا کیے ہیں اور پوری مسلم اقلیت کو حاشیہ پر ڈال دیا ہے۔ ایسے میں اس ملاقات کا کوئی مطلب بھی نکلے گا یا نہیں کچھ کہنا مشکل ہے۔ لیکن جنہیں امید ہے غالباً وہ یہ سوچتے ہیں کہ شاید جس ہندو-مسلم دشمنی سے فائدہ اٹھاکر سنگھ اور بی جے پی نے اقتدار حاصل کیا ہے، وہی اس وقت بہتر پوزیشن میں ہے کہ ماحول کو فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے سازگار کرے اور ملک کو نفرت کی مسلسل چل رہی آندھی سے نکالنے کی ذمہ داری نبھائے۔ اس کا قوی امکان ہے کہ موہن بھاگوت بھی اس ضرورت کو محسوس کر رہے ہوں گے اور شاید اسی لیے انہوں نے ایسے وقت میں مسجد و مدرسہ کی زیارت کرنے کا فیصلہ کیا جب ایک طرف گیان واپی مسجد اور مدارس کو کٹہرہ میں کھڑا کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آر ایس ایس سربراہ اس جہت میں مزید کیا اقدامات کرتے ہیں اور مرکزی و صوبائی سطح پر بی جے پی حکومتیں مسلم اقلیت کے تئیں اپنی دستوری ذمہ داریاں کس حد تک نبھا پاتی ہیں۔ اگر سنگھ پریوار اپنے فکر و عمل میں تبدیلی پیدا کرکے مسلم دشمنی کا ماحول ختم کرپاتا ہے تو سمجھا جائے گا کہ گاندھی جی کے نظریۂ عدم تشدد کو آج بھی اس ملک میں اہمیت حاصل ہے اور جس ہندو-مسلم یکجہتی کی راہ میں انہوں نے اپنی جان کی قربانی پیش کر دی تھی، وہ قربانی رائیگاں نہیں گئی۔ اگر ایسا نہیں ہوپاتا ہے تو پھر اس ملک کا اللہ ہی محافظ ہے اور کوئی بھی شخص ایسی ملاقاتوں کو سنجیدگی سے لے، اس کا کوئی جواز نہیں بچے گا۔ میرا خیال ہے کہ ایسی ملاقاتیں اور بات چیت ضرور ہونی چاہیے لیکن جن مقاصد کے لیے ایسے اقدامات کیے جاتے ہیں، ان کی تکمیل کے لیے کوشش کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے تاکہ اعتماد کا ماحول پیدا ہوسکے کیونکہ بے اعتمادی کی فضا ہی ہر مشکل کے لیے ذمہ دار ہے۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]