محمد عباس دھالیوال
سعودی عرب جہاں عالم اسلام یعنی مسلمانوں کے دو مقدس مقامات موجود ہیں جن کی وجہ سے یہ ملک پوری دنیا مسلمانوں کے لیے ایک خاص دلکشی کی حیثیت رکھتا ہے۔سعودی عرب جو کہ حرمین شریفین کی سرزمین کہلاتی ہے کیونکہ یہاں اسلامی تاریخ کے دو سب سے اہم و مقدس مقام یعنی مکّہ مکرمہ اور مدینہ منورہ موجود ہیں۔ جغرافیائی اعتبار سے دیکھیں تو سعودی عرب جس کی سرحدیں شمال مغرب میں اردن، شمال میں عراق اور شمال مشرق میں کویت، قطر اور بحرین اور مشرق میں متحدہ عرب امارات، جنوب مشرق میں سلطنت عمان، جنوب میں یمن سے ملی ہوئی ہے، جبکہ خلیج فارس اس کے شمال مشرق اور بحیرہ قلزم اس کے مغرب میں واقع ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق سعودی ریاست کا ظہور تقریباً 1750 میں عرب کے وسط سے شروع ہوا جب ایک مقامی رہنما محمد بن سعود معروف اسلامی شخصیت اورمحمد بن عبدالوہاب کے ساتھ مل کر ایک نئی سیاسی قوت کے طور پر ابھرے۔ دریں اثنا اگلے ڈیڑھ سو سال میں آل سعود کی قسمت کا ستارہ طلوع و غروب ہوتا رہا جس کے بیچ جزیرہ نما عرب پر تسلط کے لیے ان کے مصر، سلطنت عثمانیہ اور دیگر عرب خاندانوں سے اکثر اوقات تصادم بھی ہوئے۔ بالآخر بعد ازاں سعودی ریاست کا باقاعدہ قیام شاہ عبدالعزیز السعود کے دور میں عمل میں آیا۔ 1902 میں عبدالعزیز نے حریف آل رشید سے ریاض شہر چھین لیا اور اسے آل سعود کا دار الحکومت قرار دیا۔ اپنی فتوحات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے انہوں نے 1913 سے 1926ء کے دوران میں الاحساء، قطیف، نجد کے باقی علاقوں اور حجاز (جس میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے شہر شامل تھے) پر بھی قبضہ کر لیا۔ 8 جنوری 1926 کو عبدالعزیز ابن سعود حجاز کے بادشاہ قرار پائے۔ 29 جنوری 1927 کو انہوں نے شاہ نجد کا خطاب حاصل کیا۔ جبکہ اس کے بعد 20 مئی 1927کو معاہدہ جدہ کے مطابق برطانیہ نے تمام مقبوضہ علاقوں (جو اس وقت مملکت حجاز و نجد کہلاتے تھے) پر عبدالعزیز ابن سعودکی حکومت کو تسلیم کر لیا۔
دریں اثنا 1932میں برطانیہ کی رضامندی حاصل ہونے پر مملکت حجاز و نجد کا نام تبدیل کر کے مملکت سعودی عرب رکھ دیا گیا۔مارچ 1938میں تیل کی دریافت نے ملک کو معاشی طور پر زبردست مستحکم و مضبوطی بخشی اور مملکت میں خوشحالی کا دور دورہ شروع ہوا۔ اس وقت سعودی عرب عالم اسلام کی سب سے بڑی مملکت سمجھی جاتی ہے۔ اس مملکت کے بانی یوں تو شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمن آل سعود ہیں جو 15 جنوری 1877 کو پیدا ہوئے تھے مگر اس سلطنت کے قیام کی جدوجہد کا آغاز 18 ویں صدی میں ہوا تھا جب 1725 میں آل سعود کے سربراہ امیر سعود بن محمد بن مقرن کی وفات ہوئی۔ یہاں قابل ذکر ہے کہ امیر سعود بن محمد کے سب سے بڑے صاحبزادے کا نام محمد بن سعود تھا۔ وہ درعیہ کے حکمران بنے اور انھوں نے شیخ محمد بن عبدالوہاب کی مدد سے درعیہ میں اپنی حکومت قائم کی اور آہستہ آہستہ اسے مستحکم کرنا شروع کیا۔
محمد بن سعود اور شیخ محمد عبدالوہاب کے درمیان 1745ء میں ایک تاریخی ملاقات ہوئی جس میں دونوں نے عہد کیا کہ اگر کسی وقت محمد بن سعود نجد و حجاز میں اپنی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوئے تو وہاں شیخ محمد بن عبدالوہاب کے عقائد کو رائج کریں گے۔
1765میں شہزادہ محمد اور 1791میں شیخ محمد بن عبدالوہاب کی وفات ہو گئی۔ اس وقت تک جزیرہ نما عرب کے بیشتر علاقے پر آل سعود کی حکمرانی قائم ہو چکی تھی۔ شہزادہ محمد کے بعد امام عبدالعزیز علاقے کے حکمران بنے مگر 1803میں انھیں قتل کر دیا گیا۔ امام عبدالعزیز کے بعد ان کے بیٹے سعود حکمران بنے جو 1814 میں وفات پا گئے۔ سعود کے بیٹے عبداللہ ایک بڑے عالم دین بھی تھے۔ ان کے دور حکمرانی میں ان کے علاقے کا ایک بڑا حصہ ان کے ہاتھ سے نکل گیا اور درعیہ سلطنت عثمانیہ کے زیر نگیں آگئی اور اس کے ساتھ ہی امام عبداللہ قیدی بنا لیے گئے اور انھیں استنبول لے جا کر سزائے موت دے دی گئی۔مگر اس کے بعد جلد ہی ان کے بھائی مشاری بن سعود اپنی حکومت واپس لینے میں کامیاب ہو گئے مگر وہ زیادہ عرصے تک حکمرانی نہ کر سکے اور ان کا علاقہ دوبارہ سلطنت عثمانیہ کے قبضے میں چلا گیا۔ اگلی کئی دہائیوں تک آل سعود کی قسمت کا ستارہ طلوع و غروب ہوتا رہا اور جزیرہ نما عرب پر تسلط کے لیے مصر سلطنت عثمانیہ اور دیگر عرب قبائل میں تصادم ہوتے رہے۔ آل سعود کے ایک حکمران امام عبدالرحمن تھے، جو 1889 میں بیعت لینے میں کامیاب ہوئے۔ امام عبدالرحمن کے بیٹے شہزادہ عبدالعزیز کی ایک مہم جو شخصیت تھی اور 1900میں انھوں نے اپنے والد کی زندگی میں ہی ان کی کھوئی ہوئی سلطنت واپس لینے اور اسے وسعت دینے کی کوششیں شروع کر دیں۔1902 میں انھوں نے ریاض شہر پر قبضہ کیا اور اسے آل سعود کا دارالحکومت قرار دیا۔اپنی فتوحات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے انھوں نے الاحسائی، قطیف اور نجد کے متعدد علاقوں پر قبضہ کر لیا۔سلطنت عثمانیہ کے آخری دور میں حجاز پر (جس میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے علاقے شامل تھے) شریف مکہ حسین کی حکمرانی تھی، جنھوں نے 5 جون 1916 کو ترکی کے خلاف بغاوت کا اعلان کر دیا۔حسین کو نہ صرف عربوں کے مختلف قبائل کی بلکہ برطانیہ کی تائید بھی حاصل تھی۔7 جون 1916 کو شریف مکہ حسین نے حجاز کی آزادی کا اعلان کیا۔ 21 جون کو مکہ پر ان کا قبضہ مکمل ہوا اور 29 اکتوبر کو انھوں نے پورے عرب کا حکمران ہونے کا باضابطہ اعلان کر دیا۔ ساتھ ہی انھوں نے تمام عربوں کو دعوت دی کہ وہ ترکوں کے خلاف جنگ کا اعلان کریں۔ 15 دسمبر 1916 کو حکومت برطانیہ نے حسین کو شاہ حجاز تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا۔ اسی دوران امیر عبدالعزیز ابن عبدالرحمن آل سعود نے مشرقی عرب کا ایک بڑا حصہ مسخر کر لیا اور 26 دسمبر 1915کو برطانیہ کے ساتھ دوستی کا ایک معاہدہ بھی کر لیا۔5 ستمبر 1924 کو انھوں نے حجاز کو بھی فتح کر لیا۔عوام نے امیر عبدالعزیز کا ساتھ دیا اور شریف مکہ شاہ حسین نے حکومت سے دست بردار ہو کر اپنے بیٹے علی کو شاہ حجاز بنا دیا۔ مگر امیر عبدالعزیز کی بڑھتی ہوئی پیش قدمی کے باعث انھیں بھی اپنا تخت چھوڑنا پڑا۔13 اکتوبر 1924 کو شاہ عبدالعزیز نے مکہ معظمہ پر بھی قبضہ کر لیا۔5 دسمبر 1925 کو انھوں نے مدینہ کا اقتدار حاصل کر لیا۔ 19 نومبر 1925کو شریف مکہ علی نے اقتدار سے مکمل دستبرداری کا اعلان کیا اور یوں جدہ پر بھی آل سعود کا قبضہ ہو گیا۔ 8 جنوری 1926کو شاہ حجاز عبدالعزیز ابن عبدالرحمن آل سعود نے ایک خصوصی تقریب میں مملکت نجد و حجاز کے مکمل اختیارات سنبھالنے کا اعلان کر دیا۔ 20 مئی 1927 کو برطانیہ نے تمام مقبوضہ علاقوں پر جو اس وقت مملکت حجاز و نجد کہلاتے تھے عبدالعزیز ابن سعود کی حکمرانی کو تسلیم کر لیا۔ 23 ستمبر 1932 کو شاہ عبدالعزیز ابن سعود نے مملکت حجاز و نجد کا نام تبدیل کر کے ’المملکتہ العربیتہ السعودیہ‘ رکھنے کا اعلان کر دیا اور شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمن آل سعود نے جلد ہی اپنی مملکت کو اسلامی رنگ میں ڈھال دیا۔ دوسری جانب ان کی خوش قسمتی سے سعودی عرب میں تیل کے ذخائر کی نشاندہی ہوئی۔ سنہ 1933میں شاہ عبدالعزیز نے کیلیفورنیا پٹرولیم کمپنی کے ساتھ تیل نکالنے کا معاہدہ کیا۔ ابتدائی چند برس جدوجہد میں بسر ہوئے مگر 1938 میں جب کیلیفورنیا پٹرولیم کمپنی کے ماہرین ناکام ہو کر ملک لوٹنے ہی والے تھے کہ اچانک ایک کنویں سے خزانہ ابل پڑا اور اتنا تیل نکلا کہ جس پر وہ ماہرین خود بھی دنگ رہ گئے۔یہ واقعہ نہ صرف سعودی حکمرانوں اور کیلیفورنیا کمپنی کے لیے حیران کْن تھا بلکہ پورے جزیرہ نما عرب کے لیے ایک معجزہ تھا۔ تیل کی دریافت نے سعودی عرب کو معاشی طور پر زبردست استحکام بخشا اور مملکت میں خوشحالی کا دور دورہ ہو گیا۔
سعودی عرب کے موجودہ حکمرانوں کو یعنی شہزادہ بن سلمان وغیرہ کو اس بات کا بخوبی احساس ہے کہ سعودی عرب کے تیل کے ذخائر ہمیشہ رہنے والے نہیں ہیں یہ تمام پٹرولیم مصنوعات ایک نہ ایک دن ختم ہو جائیں گی اس لیے اب سعودی عرب کے موجودہ حکمران و اہلکار اپنے ملک میں سیر و تفریح یعنی ٹورازم کو فروغ دینے کے لیے مختلف پالیسیوں کو قیام میں لانے جا رہے ہیں۔
[email protected]