اظہارالحسن/ محمد غفران آفریدی
نئی دہلی ، (ایس این بی ) : ایسے وقت میں جب سپریم کورٹ میں حجاب کے معاملے کی سماعت اور وارانسی ضلع کورٹ میں گیان واپی مسجد معاملے کی سماعت جاری ہے، اترپردیش اور اتراکھنڈ میں مدارس کے سروے کا حکم صادر ہوچکا ہے اور پورے ملک میں پی ایف آئی کے نام پر چھاپے مارے گئے ہیں، آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے مسلم کمیونٹی تک اپنی رسائی کو آگے بڑھاتے ہوئے جمعرات کو ملک کی راجدھانی میں واقع ایک مسجد اور ایک مدرسہ کا دورہ کرکے خبروں کا رخ اپنی طرف کرلیا ہے اور میڈیا میں اس پر بحث ہونے لگی ہے۔ یہ بات سبھی کیلئے باعث حیرت ہے۔ آر ایس ایس کے ایک عہدیدار جو اس دورے پر بھاگوت کے ساتھ تھے نے کہا کہ یہ پہلا موقع ہے، جب سرسنگھ چالک نے ملک میں کسی مدرسہ کا دورہ کیا ہے۔مسجد میں ہوئی ملاقات کے بعد آل انڈیا امام آرگنائزیشن کے سربراہ ڈاکٹر عمیر احمد الیاسی نے موہن بھاگوت کو ‘فادر آف دی نیشن‘ قرار دیا۔ آر ایس ایس کے ’سرسنگھ چالک‘ وسطی دہلی میں کستوربا گاندھی مارگ واقع مسجد گئے اور پھر شمالی دہلی کے تحت آزاد مارکیٹ علاقے میں واقع مدرسہ تجوید القرآن کا دورہ کیا۔
اس سلسلے میں ڈاکٹر امام عمیر الیاسی کے بھائی اور مولانا جمیل الیاسی کے بیٹے صہیب الیاسی نے صحافیوںکو بتایا کہ آج ان کے والد مولانا جمیل الیاسی (مرحوم)کی برسی ہے، اس موقع پر آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کو دعوت دی گئی تھی جس کے بعد انہوں نے صبح تقریباً 10 بجے مولانا عمیر الیاسی سے ان کے دفترمیں آ کر ملاقات کی اور قبر پر بھی گئے ۔صہیب الیاسی نے بتایا کہ یہ ملاقات مکمل طور پر نجی تھی، اس میں کسی بھی طرح کی سیاسی بات نہیں کی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ چونکہ ان کے والدمولاناجمیل الیاسی ایک اسلامی اسکالر تھے اور انہیں تمام مذاہب کے لوگ عزت کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے اسی لیے آر ایس ایس بھی انہیں ہمیشہ عزت و احترام سے یاد کرتا ہے اور آج چونکہ مولانا جمیل الیاسی کی برسی ہے اسی لیے موہن بھاگوت اوردیگر آر آیس ایس رہنمائوں نے ان سے ملاقات کرکے ان کے والد کی قبر پر گل پوشی کی۔اس اہم ملاقات کے بعد سر سنگھ چالک موہن بھاگوت نے امام عمیراحمدالیاسی کے ساتھ آزاد مارکیٹ علاقہ کے تحت شیواجی روڈ پر واقع 70سالہ قدیمی مدرسہ تجوید القرآن (مسجدتکیہ والی) کا دورہ کیا، جس میں انہوں نے طلبا و مدرسین سے طویل گفتگو کی ۔اس موقع پر مدرسہ کے مہتمم مولانا محمود الحسن نے موہن بھاگوت کا استقبال کیا اور مدرسے کا تعارف کرایا۔ موہن بھاگوت نے بچوں سے تفصیلی بات چیت کی، قرآن کریم سنا اور ترجمہ بھی سماعت کیا ،ساتھ ہی حفظ قرآن کرنے والے طلبا سے خصوصی بات چیت کی۔موہن بھاگوت نے بچوں سے کہاکہ سب لوگ مل جل کر رہیں ، ملک کو ترقی کی راہ پر لے کر جا نے کی کوششیں کریں، نیز جدید تعلیم ضرورحاصل کریں۔انہوں نے کہاکہ ہمارامقصد یہ ہو نا چاہئے کہ ملک و قوم کی ترقی میں حصہ داربنیں۔واضح رہے کہ پہلی بار کسی مدرسہ میں اچانک سر سنگھ چالک پہنچے تھے ، مدرسہ میں زیر تعلیم بچوں سے ملاقات کی ۔ بتایا یہ بھی جاتا ہے کہ آر ایس ایس کے کسی بھی قائد کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ ہے،جب کسی سر سنگھ چالک نے پہلے مسجد پھر مدرسہ میں تعلیم حاصل کر نے والے طلبا سے گفتگوکی اور انہیں ملک کی ترقی میں اہم کردار نبھا نے کی ترغیب دی ۔ موہن بھاگوت کے ساتھ آر ایس ایس کے سینئر عہدیدار ڈاکٹرکرشنا گوپال،آر ایس ایس کے پرچارک رام لال جی اورآر ایس ایس کی ذیلی تنظیم مسلم راشٹریہ منچ کے قومی صدرڈاکٹر اندریش کمار بھی موجود تھے۔ وہیں ان دنوں مدرسوں کے سروے اور انہیں ختم کر نے کی بھی باتیں سامنے آرہی ہیں ،ایسے میں موہن بھاگوت کی جانب سے مدرسے کادورہ کرناکافی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے ۔ موہن بھاگوت سے ملاقات کے بعد آل انڈیا امام آرگنائزیشن کے سربراہ امام عمیر احمد الیاسی نے موہن بھاگوت کو ’راشٹر پتا (فادر آف نیشن) اور راشٹر رشی‘قرار دیا ہے۔ امام عمیرالیاسی نے کہا کہ ہم سب کا ڈی این اے ایک ہے، جبکہ صرف خدا کی عبادت کرنے کا طریقہ مختلف ہے۔ انہوںنے مزید کہاکہ ’موہن بھاگوت جی کا ہمارے پاس آنا ایک اعزازہے، بھاگوت جی ہم سے ملاقات کےلئے امام ہا¶س آئے اور وہ ہمارے راشٹر پتا اور راشٹر رشی ہیں، ملک کی یکجہتی اور سالمیت کو برقرار رکھا جائے، ہم سب مختلف طریقے سے عبادت کر سکتے ہیں، لیکن اس سے پہلے ہم سب انسان ہیں، ہندوستان میں رہتے ہیں اور ہندوستانی ہیں۔
(باقی مغربی یوپی صفحہ 9 پر)
ڈاکٹر الیاسی نے یہ بھی کہاکہ ’ہندوستان وشو گرو بننے کے راستے پر ہے اور ہم سب کو اس کےلئے کوشش کرنی چاہیے‘۔
اس دورے کے بعد ایک بیان میںآر ایس ایس کے پرچار پرمکھ سنیل امبیڈکر نے کہا، ’سرسنگھ چالک زندگی کے تمام شعبوں کے لوگوں سے ملتا ہے۔ یہ عام بات چیت کے عمل کا حصہ ہے۔’آر ایس ایس سربراہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو مضبوط کرنے کےلئے مسلم دانشوروں سے بات چیت کر رہے ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں دہلی کے سابق لیفٹیننٹ گورنر نجیب جنگ، سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر لیفٹیننٹ جنرل ضمیر الدین شاہ، سابق ایم پی شاہد صدیقی اور تاجر سعید شیروانی سے ملاقات کی تھی۔ اس میٹنگ میں بھاگوت نے ہندوو¿ں کےلئے لفظ ’کافر‘کے استعمال کا مسئلہ اٹھایا اور کہا کہ اس سے اچھا پیغام نہیں جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی مسلم دانشوروں نے دائیں بازو کی کچھ تنظیموں کی طرف سے مسلمانوں کو ’جہادی‘ اور ’پاکستانی‘کا لیبل لگانے پر اعتراض کیا تھا۔ اس ملاقات میںمسلم دانشوروں نے بھاگوت کو یہ بھی بتایا تھا کہ لفظ ’کافر‘کے استعمال کے پیچھے ایک مختلف مقصد تھا، لیکن کچھ طبقوں میں اسے اب ’غلط لفظ‘کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ آر ایس ایس کے سربراہ نے دانشوروں کے خدشات کا نوٹس لیا اور اس بات پر زور دیا کہ تمام ہندوو¿ں اور مسلمانوں کا ڈی این اے ایک جیسا ہے۔اس سے قبل ملک مسلمانوں کی معتبر تنظیم جمعیة علماءہند کے رہنما مولاناسید ارشد مدنی بھی30 اگست2019 کو دہلی کے جھنڈے والان میں سنگھ ہیڈکوارٹر پہنچ کر موہن بھاگوت سے ملاقات کر چکے ہیں۔ حالانکہ مسلم راشٹریہ منچ کے لیڈر اندریش کمار کی پہل پر ہوئی اس میٹنگ پر بھی کافی بحث ہوئی تھی۔اس وقت ایودھیا (9 نومبر 2019) میں رام مندر پر سپریم کورٹ کے فیصلے سے پہلے فیصلہ آنے کے بعد دونوں سرکردہ رہنماو¿ں کی اس ملاقات کو دونوں برادریوں میں امن برقرار رکھنے کے نقطہ نظر سے بہت اہم مانا گیا تھا۔
فی الحال ایسی بحث چل رہی ہے کہ آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت آنے والے دنوں میں کشمیر کے کچھ مسلم لیڈروں سے بھی ملاقات کر سکتے ہیں۔ کشمیر میں انتخابی سیاست کے دوبارہ شروع ہونے کے بعد وادی میں امن برقرار رکھنے کے نقطہ نظر سے اسے اہم سمجھا جاتا ہے۔ مانا جا رہا ہے کہ یہ رہنما کشمیری علیحدگی پسند رہنماو¿ں کو وادی میں دوبارہ سرگرم ہونے سے روکنے اور کشمیری نوجوانوں کو نئے بھارت سے جوڑنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔مانا جاتا ہے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے لیڈر مسلمانوں کو اعتماد میں لینے کی مسلسل کوشش کر رہے ہیں۔ جب بھاگوت مسلمانوں کے بغیر ہندوستان کے مکمل نہ ہونے کی بات کی، تب وزیر اعظم نریندر مودی نے بی جے پی کی حیدرآباد نیشنل ایگزیکٹو میں اعلان کیا کہ پارٹی کا مشن مسلمانوں کے قریب پہنچنا ہونا چاہیے۔ کشمیر کے لیڈر غلام علی کھٹانہ کو راجیہ سبھا میں بھیجنا بھی سنگھ پریوار کی اسی سوچ کی ایک مثال کے طور پر دیکھا جا رہا ہے تاکہ مسلمانوں کو قریب کیا جاسکے۔ سنگھ اور بی جے پی میں مسلمانوں کی طرف آنے والی اس تبدیلی کی کیا وجہ ہے؟ کیا یہ بین الاقوامی مسلم کمیونٹی میں ہندوستان کی شبیہ کو بہتر بنانے کی کوشش ہے یا سنگھ اس کے ذریعے کوئی بڑی تبدیلی کا منصوبہ بنا رہا ہے؟
مسلمانوں کے قریب پہنچنے کی یہ بی جے پی اور آر ایس ایس کی پہلی کوشش نہیں ہے۔ دونوں تنظیمیں کافی عرصے سے ہندو مسلم اتحاد کی بات کر رہی ہیں۔ بی جے پی میںاپنے قیام کے بعد سے بہت سے مسلم رہنما اس کے اعلیٰ ترین رہنماو¿ں میں شامل رہے ہیں۔ سکندر بخت کی مقبولیت عام لوگوں میں بھلے ہی کم رہی ہو، لیکن پارٹی تنظیم میں ان کی اہمیت اٹل بہاری واجپائی اور ایل کے ایڈوانی جیسی ہی رہی۔
آر ایس ایس نے کئی مواقع پر یہ بھی واضح کیا ہے کہ اسے ان مسلمانوں سے کوئی مسئلہ نہیں ہے جو ہندوستان کو اپنی مادر وطن مانتے ہیں اور اس کی ثقافت کو اپنا سمجھتے ہیں۔ یہ سلسلہ گرو گولوالکر نے شروع کیا تھا، جس کی جھلک 2018 میں آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کے اس بیان سے بھی ملتی ہے جب انہوں نے کہا تھا کہ ہندوستان مسلمانوں کے بغیر نامکمل ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتانے کی کوشش کی کہ ہندو اور مسلمانوں کا ڈی این اے ایک ہی ہے اور دونوں اس ملک کے اصل باشندے ہیں۔ اس ملک کی ثقافت کو بچانا ان دونوں کی ذمہ داری ہے۔
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS