نئی دہلی، (ایجنسیاں) : کرناٹک حجاب کیس کی سپریم کورٹ میں بحث آخری مرحلے پر پہنچ گئی ہے۔ بدھ کوسماعت کے 9ویں دن، کرناٹک حکومت اور کالج میں حجاب سے انکار کرنے والے کالج کے اساتذہ سے جرح کی گئی۔ جمعرات کو درخواست گزار فریق کو جواب دینے کا موقع ملے گا، اس کے بعد حکم نامہ محفوظ رکھا جائے گا۔ریاستی حکومت کی جانب سے ایڈووکیٹ جنرل پربھولنگ کے نواڈگی نے اپنا موقف جسٹس ہیمنت گپتا اور سدھانشو دھولیا کی بنچ کے سامنے پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ عوامی نظم و ضبط کی پابندی ہر ایک کے لیے ضروری ہے۔ مثال دیتے ہوئے ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ اپنی زمین پر گھر بنانے کاحق ہے، لیکن جس علاقے میں گھر بن رہا ہے، وہاں کے بلڈنگ رولز پر عمل کرنا ہوتا ہے۔ اسی طرح اگرا سکول میں بھی یونیفارم کا تعین کیا گیا ہے تو اس پر عمل ہونا چاہیے۔
ایڈووکیٹ جنرل نے یہ بھی کہا کہ ہر چیز کو مذہب کا لازمی حصہ بتا کر پیش نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ کچھ لوگوں نے عید الاضحی پر گائے کی قربانی کو بھی اسلام کا حصہ قرار دیتے ہوئے چیلنج کیا تھا، لیکن عدالت نے پایا تھاکہ یہ ضروری حصہ نہیں ہے۔ ایک ساتھ 3 طلاق کی حمایت میں بھی اسی طرح کے دلائل پیش کئے گئے تھے، لیکن عدالت نے اسے درست نہیں سمجھا۔ریاستی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل کے ایم نٹراج نے بھی اپنا موقف رکھا۔ انہوں نے کہا کہ معاملہ کسی مذہب کا نہیں، نظم و ضبط کا ہے۔ اگر کوئی کل ائیرپورٹ پر منہ دکھانے سے انکار کر دے تو کیا اجازت دی جا سکتی ہے؟ ہون کرنا ہندو مذہب کا حصہ ہے، لیکن کیا کوئی کورٹ میں آ کر ہون کر سکتا ہے؟ سماعت کے دوران بنچ کے صدرجسٹس ہیمنت گپتا نے کہا کہ میں ذاتی معلومات شیئر کر رہا ہوں، پاکستان کے لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج اپنی اہلیہ اور 2 بیٹیوں کے ساتھ اکثر ہندوستان آیا کرتے تھے، میری ان سے ملاقات ہوتی تھی۔ میں نے کبھی بھی ان تینوں خواتین کو حجاب پہنے ہوئے نہیں دیکھا۔دن بھر کی سماعت کے آخر میں کالج اساتذہ کی جانب سے آر وینکٹ رمانی، وی موہنا سمیت 4 سینئر وکلانے دلائل پیش کئے۔ یہ وہ ٹیچر ہےں، جنہوں نے کالج میں لڑکیوں کو حجاب پہننے سے روکا اور حجاب کے حامی درخواست گزاروں نے انہیں مدعا علیہ بنایا۔ ان اساتذہ کی جانب سے بتایا گیا کہ اگر بچوں میں پہلے سے ہی تفریق پیداہوگئی تو اچھی تعلیم دینا مشکل ہو جائے گا۔ نظم و ضبط کے بغیر پڑھائی کیسے ہو سکتی ہے؟ استاد کو بچوں سے بلا تفریق بات کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ حجاب سے الگ شناخت بنانے کی کوشش درست نہیں۔ایک استاد نے یہ بھی دلیل دی کہ وہ لوگ تعلیم کی بات کر رہے ہیں، لیکن کچھ لوگ مذہب کی بات کر رہے ہیں۔ اگر پتلون یونیفارم ہے تو کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ میں اسے نہیں پہنوں گا؟ یہ میرے مذہب کے خلاف ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ نوبل انعام یافتہ 50 فیصد سے زائد ایسے مذہب سے تعلق رکھتے ہیں ،جس نے تعلیم کو مذہب سے الگ کر دیا ہے۔دریں اثنا عدالت نے جمعرات کو بھی اس معاملے میں سماعت جاری رکھنے کو کہا ہے۔ ریاستی حکومت نے عدالت کو بتایا کہ اگر کوئی کلاس میں حجاب نہیں پہنتا ہے تو اس کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوتی ہے۔
کرناٹک حجاب معاملے پرسپریم کورٹ میں بحث آخری مرحلے میں،آج پھر ہوگی سماعت
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS