عبیداللّٰہ ناصر
گزشتہ دنوں ملک کے ایک ممتاز دانشور اور کبھی لال کرشن اڈوانی جی کے سیاسی مشیر رہے سدھیندر کلکرنی صاحب جو اب مودی حکومت کے سخت مخالف ہیں، کا ایک موقر انگریزی روزنامہ میں مضمون شائع ہوا تھا جس میں انہوں نے راہل گاندھی کی ’بھارت جوڑو یاترا‘ کی تعریف ہی نہیں کی تھی بلکہ اسے ملک کی ضرورت بھی بتایاتھا۔ انہوں نے اس بات کی بھی تعریف کی تھی کہ راہل کی اس یاترا میں بہت سی سماجی تنظیمیں، غیر سرکاری تنظیمیں(این جی او) شامل ہیں اور راہل گاندھی بھی سب سے مل رہے ہیں اور ان کی یاترا سے ملک میں ایک خوش گوار ماحول بن رہا ہے۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ مشورہ بھی دیا کی راہل کسی کو اچھوت نہ سمجھیں اور آر ایس ایس سے رابطہ قائم رکھیں۔ کلکرنی جی کے اس مضمون سے کانگریس کے اندر بیٹھے سنگھیوں اور نرم ہندوتو کے علمبرداروں کو حوصلہ ملا اور انہوں نے اپنا رنگ دکھانا شروع کردیا۔یاترا کے ابتدائی دنوں میں کانگریس کے کسی جوشیلے حامی نے ایک ویڈیو وائرل کیا، جس میں آر ایس ایس کی خاکی نیکر کو جلتے ہوے دکھایا گیا تھا، اس کا پیغام یہ تھا کہ راہل کی یاترا کی کامیابی سے آر ایس ایس جل بھن رہی ہے۔سنگھی کانگریسی اسے لے اڑے، اسے غیر ذمہ دارانہ کہا اور آئندہ احتیاط برتنے کا مشورہ بھی دیا۔یہ بھی اطلاع ہے کہ کچھ سینئر کا نگریسیوں نے راہل کو کلکرنی جی کے مشورہ پر عمل کرنے کی صلاح دی اور کہا کہ کیرالہ میں کمیونسٹوں کے ہاتھوں آر ایس ایس کے جن کارکنوں کی موت ہوئی ہے، راہل کو ان کے گھر تعزیت کے لیے جانا چاہیے۔کسی کی موت پر اس کے گھر تعزیت کے لیے جانا اچھی بات ہے لیکن صرف آر ایس ایس کے کارکن ہی تو نہیں ہلاک ہوئے، دونوں پارٹیوں کے کارکنوں کے درمیان ہونے والے تشدد کے واقعات میں لیفٹ کے بھی کئی کارکن ہلاک ہوئے ہیں، ان کانگریسیوں نے راہل کو ان کے گھر تعزیت کے لیے جانے کا مشورہ کیوں نہیں دیا۔ ویسے بھی یاترا کا سب سے زیادہ وقت کیرالہ میں گزارنے کو لے کر لیفٹ راہل کی اس یاترا پر سوال اٹھا رہی ہے، اگر راہل آر ایس ایس کے کارکنان کے گھر چلے گئے تو دونوں پارٹیوں کے تعلقات میں مزید تلخی پیدا ہو جائے گی۔ کانگریس والوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ لیفٹ ان کا قدرتی ہی نہیں سب سے قابل اعتماد حلیف بھی ہے۔دوسرے راہل گاندھی اور کانگریس کی اصل لڑائی ہی آرایس ایس کے فرقہ وارانہ تفریق پسند نظریہ سے ہے جسے مودی حکومت اور بی جے پی کی ریاستی حکومتیں پوری دلجمعی سے تمام آئینی، قانونی اور اخلاقی پہلوؤں کو ہی نہیں خود سناتن دھر م کی اصل تعلیمات کو نظر انداز کر کے محض مسلمانوں سے دشمنی کی بنا پر لاگو کر رہی ہیں اور اصل لڑائی اسی ماحول کو بدل کر ملک کو آئین کے تحت چلانے کی ہے۔ ایسے میں جو لوگ بھلے ہی وہ کانگریس کے لوگ ہی کیوں نہ ہوں، راہل کو آر ایس ایس سے رابطہ رکھنے کا امشورہ دے کر راہل کی جنگ کو کمزور ہی نہیں کرنا چاہتے بلکہ انہیں اس جنگ میں شکست سے دو چار کرنا چاہتے ہیں۔ کانگریس میں تطہیر کا دور چل ہی رہا ہے، ان چھپے ہوئے سنگھیوں کی شناخت کر کے انہیں پارٹی سے نکال باہر کرنا چاہیے ۔
یہ دھیان رکھنا ہوگا کہ کانگریس اگر آر ایس ایس کے نظریہ کو چمٹی سے بھی چھوئے گی تو وہ اس کی گود میں کھیلنے کے مترادف ہوگا۔ کانگریس گزشتہ کئی دہائیوں سے نرم ہندوتو کی پالیسی اختیار کرنے کی قیمت ادا کر رہی ہے، اب راہل اسے حقیقی نہرو ماڈل پر لا رہے ہیں لیکن آستین کے سانپ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آ رہے ہیں، چاہے وہ پارٹی چھوڑ کر بھاگنے والے ہوں یا پارٹی کے اندر رہ کر آر ایس ایس کے لیے کام کرنے والے ہوں، یہی کانگریس کے اصلی گھن ہیں، ان سے نجات حاصل کرنا ضروری ہے جس کے بغیر راہل کی اصل لڑائی کامیاب نہیں ہو سکتی۔
راہل گاندھی کی ’بھارت جوڑو یاترا‘ کامیابی کے ساتھ دوسرے ہفتہ میں داخل ہو گئی ہے۔اس یاتر اکو عوام میں جو مقبولیت مل رہی ہے اور جس طرح لوگ جوق در جوق نہ صرف جگہ جگہ ان یاتریوں کا خیر مقدم کر رہے ہیں بلکہ اس یاترا میں شامل بھی ہو رہے ہیں، وہ بقول علامہ اقبالؔ آنے والے دور کی دھندلی سی ایک تصویر ضرور دکھا رہا ہے۔جس والہانہ انداز میں سماج کے ہر طبقہ کے لوگ امیر، غریب، عورتیں، مرد، بچے، بزرگ راہل سے مل رہے ہیں اور راہل جس تپاک سے ان لوگوں سے مل رہے ہیں، وہ ناقابل یقین سا دکھائی دے رہا ہے۔جنوبی ہند کے اس علاقہ سے راہل بھلے ہی لوک سبھا پہنچے ہیں لیکن یہاں بولی جانے والی کسی بھی ریاست کی زبان تمل، ملیالم، کنڑ، تیلگو سے وہ واقف نہیں ہیں لیکن پھر بھی ایسا لگتا ہے کہ دل دل کی بات سن اور سمجھ رہا ہے، ان مناظر کو دیکھ کر حسن کمال صاحب کا یہ شعر یاد آ جاتا ہے:
سبب سے مدھر بولی وہی سب سے سرل بھاشا وہی
بولے جو نینا با ورے سمجھے جو سیاں سانورے
بی جے پی کے آئی ٹی سیل اور ٹرول بریگیڈ نے اس یاترا کو لے کر اپنے آزمودہ نسخہ پر عمل شروع کر دیا تھا، کبھی آٹا اور لیٹر والا معاملہ اٹھایا، کبھی راہل کی چالیس ہزار کی ٹی شرٹ کا معاملہ اٹھایا، کبھی راہل پر یاترا شروع کرنے سے پہلے سوامی وویکا نند کے مجسمہ پر گلپوشی تک نہ کرنے کا الزام لگایا لیکن اس بار کانگریس کا سوشل میڈیا سیل بھی چوکس تھا اور بی جے پی کے ہر جھوٹ کا نہ صرف پردہ فاش کیا بلکہ اینٹ کا جواب پتھر سے دے کر بی جے پی کے ٹرول بریگیڈ کی بولتی بند کر دی۔ملک میں بڑھ رہی گرانی کا ذکر کرتے ہوئے راہل گاندھی نے بہت سی اشیا تیل، دودھ، ڈیزل، پٹرول وغیرہ کے دام بتائے، اسی رو میں آٹا بھی لیٹر میں بتایا اور اگلے ہی لمحہ کلو کہہ کر اسے درست بھی کر دیا لیکن بی جے پی کا ٹرول بریگیڈ ان کے بیان کے اس حصہ کو اڑا کے لیٹر والی بات پھیلانے لگا جواب میں کانگریس نے بھی مودی جو کی ’لڑکی پڑھاؤ لڑکی پٹاؤ‘ سمیت درجنوں بار ان کی فصلی زبان کا ویڈیو جاری کر دیا، اس میں سب سے خوش آئند بات یہ ہے کہ بی جے پی کے ٹرول بریگیڈ کو یہ منہ توڑ جواب دینے میں کانگریس کی سوشل میڈیا سے زیادہ تیز رفتاری عام نوجوانوں نے دکھائی۔ اسی طرح جب راہل کی چالیس ہزار کی ٹی شرٹ کی بات بی جے پی والوں نے اچھالی تو اس کے جواب میں مودی کا10ہزار کا سوٹ، لاکھوں کا چشمہ، ہزاروں کی گھڑی وغیرہ کے ویڈیو جاری کر دیے گئے۔سب سے زیادہ چھیچھا لیدر اسمرتی ا یرانی کی ہوئی جنہوںنے یہ الزام لگایا تھا کہ راہل گاندھی نے یاترا شروع ہونے سے پہلے سوامی وویکانند کے مجسمہ کی گلپوشی نہیں کی، اسمرتی ایرانی کے اس احمقانہ اور جھوٹے بیان کے ساتھ ہی راہل کا سوامی جی کے مجسمہ پر پھول چرھانے والا فوٹو وائرل کر کے اسمرتی ایرانی کا جھوٹ سامنے لے آیا گیا لیکن لوگوں نے یہیں پر اکتفا انہیں کیا بلکہ ان کی نجی زندگی کے معاملات بھی سامنے لا کر انہیں اور رسوا کیا گیا۔
سب سے زوردار حملہ کیاگیا آر ایس ایس کی خاکی نیکر کوسلگتے ہوئے دکھلا کر۔ در اصل پارٹی اس کے ذریعہ یہ پیغام دینا چاہتی تھی کہ راہل گاندھی کی ’بھارت جوڑو یاترا‘ کی کامیابی سے آر ایس ایس کو جلن محسوس ہو رہی ہے، وہ اندر ہی اندر بلبلا رہی ہے، تلملا رہی ہے، ہمارے اودھ کے علاقہ میں سلگنا اسی جذبہ کے اظہار کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جس میں کسی حد تک ضم کا پہلو بھی رہتا ہے لیکن جوباتیں بی جے پی کے منہ پھٹ اور غیر ذمہ دار ترجمان سمبت پاترا نے کہی یعنی اس کے ذریعہ کانگریس آر ایس ایس کے کارکنوں کو جلا کے مار ڈالنے کا اشارہ دے رہی ہے، یہ با لکل نہیں تھا۔ بہرحال اس وائرل ویڈیو کو سنجیدہ طبقہ نے پسند نہیں کیا لیکن کانگریس کی جانب سے اس طرح منہ توڑ جواب دینے کا فائدہ یہ ضرور ہوا کی بی جے پی نے بھی اپنی زبان کو لگام دے دی ہے اور فی الحال کئی دنوں سے اں کی جانب سے یاترا پر اوچھے حملوں کا سلسلہ بند ہوگیا ہے۔ جے رام رمیش کہہ بھی چکے ہیں کہ کانگریس اب تک صبر و تحمل سے کام لے رہی تھی لیکن اب اینٹ کا جواب پتھر سے دے گی۔
(مضمون نگار سینئر صحافی و سیاسی تجزیہ نگار ہیں)
[email protected]