پروفیسر اخترالواسع: ناطقہ سر بہ گریباں کہ اسے کیا کہیے

0

پروفیسر اخترالواسع

گزشتہ چند دنوں میں ایسا لگ رہا ہے جیسے کہ مسلمان گہری آزمائش سے دو چار ہیں۔ مدارس و مکاتب کا سروے ہو یا حجاب کو لے کر سپریم کورٹ میں بحث یا پھر مسجد و مندر کے جھگڑے اور یا پھر سرعام نماز کی ادائیگی کو لے کر فتنہ و فساد کا ماحول پیدا کرنا۔
مدارس و مکاتب کے سروے پر اگرچہ ہم پہلے بھی اپنا موقف واضح کرچکے ہیں اور آج پھر اس بات کو دوہرانا چاہتے ہیں کہ ہمیں سرکار کی نیتی سے اختلاف نہ ہو لیکن نیت پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ وہ مدارس جو آپ سے کوئی مدد نہیں لیتے ہیں، ان سے کسی طرح کی جواب طلب کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ ہم نے پہلے بھی کہا ہے اور پھر کہتے ہیں کہ سرکار کی بے توجہی اور لاپروائی کی وجہ سے ہمارے بوریا نشین لیکن اولوالعزم اکابرین نے اپنی کمیونٹی کے بچوں میں خواندگی پیدا کرنے کے لیے تمام غربت و افلاس کے ہوتے ہوئے بھی مدارس و مکاتب قائم کیے اور یہاں ایک بات واضح رہنی چاہیے کہ مدرسوں کا قیام اور وہاں کی تعلیم کا بنیادی مقصد مسلمانوں کی مذہبی ضروریات کی کفالت کرنا ہے۔ امام، مؤذن، قاضی، مفتی، مفسر، محدث، فقیہ اور متکلم تیار اور فراہم کرنا ان کا فریضہ رہا ہے۔ اب مدرسے کے جو فارغین جدید تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں، ان کے لیے جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ہمدرد نئی دہلی، مدرسہ عالیہ یونیورسٹی کولکاتا، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد اور انتہا یہ کہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی نئی دہلی تک نے اپنے دروازے کھول رکھے ہیں اور اگر سرکار کو اس پر کوئی شبہ ہے تو ان یونیورسٹیوں میں فاضلینِ مدرسہ کا سروے کرانا چاہیے۔ حضرت مولانا ارشد مدنی، حضرت مولانا محمود مدنی، بیرسٹر اسدالدین اویسی صاحب، ملّی کونسل کے بانی جنرل سکریٹری ڈاکٹر منظور عالم صاحب، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب اور اسی طرح بہت سے مسلم زعماء نے مدارس کے سروے کو لے کر سرکار کے اعلان، نیت اور طریق کار پر تنقیدیں کی ہیں اور بجا طور پر یہ سوال اٹھایا ہے کہ سروے صرف مدرسوں کا کیوں ہو رہا ہے، دوسرے تعلیمی اداروں کا کیوں نہیں؟
سپریم کورٹ میں حجاب کو لے کر تادمِ تحریر بحث جاری ہے۔ سوال یہ ہے کہ مسلمان لڑکیاں اسکول اور کالج یونیفارم کو لے کر اعتراض نہیں کر رہی ہیں، وہ صرف اسکارف یا حجاب کے استعمال کا مطالبہ کر رہی ہیں جو کہ قرآن کریم کی سورۂ نور کے مطابق ہر مسلمان خاتون کے لیے لازم کر دیا گیا ہے اور اس طرح یہ ان کے عقیدے کا حصہ ہے۔ اور کس کا کیا عقیدہ ہے؟ ایک جمہوری ملک میں اس کو اس کا فیصلہ کرنے کا پورا اختیار ہے۔ اس میں کسی کو غیر ضروری مداخلت کا حق نہیں دیا جا سکتا۔ افسوس تو یہ ہے کہ حقائق سے زیادہ جذباتیت اور اپنے انتہا پسندانہ طرزِ فکروعمل سے ایک اقلیت کو خوفزدہ کرنا مقصود ہے اور بیٹیاں بچاؤ اور بیٹیاں پڑھاؤ کے نعرے کی نفی مقصود ہے۔ کچھ لوگوں کو شاید اس بات کی تکلیف ہے کہ مسلمان بچیاں اتنی بڑی تعداد میں ذوق و شوق کے ساتھ نہ صرف تعلیم کے لیے آگے آ رہی ہیں بلکہ زندگی کے ہر میدان میں ملک و ملت کے لیے فخر کا باعث بن رہی ہیں۔
اسی طرح لگتا ہے کہ ہندوستان بھر میں اکثر مساجد اور عیدگاہیں مندروں کو منہدم کرکے تعمیر کی گئی ہیں اور اس لیے ان کے خلاف عدالتوں میں پٹیشن ڈالے جا رہے ہیں اور اس کی وجہ سے ملک بھر میں ایک ہیجانی فضا پیدا ہو رہی ہے جو کہ ملک کی سماجی ہم آہنگی اور معاشی ترقی دونوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ آر ایس ایس کے سربراہ شری موہن بھاگوت نے کچھ دنوں پہلے کہا تھا کہ مخصوص حالات و وجوہات کی بِنا پر سنگھ پریوار بابری مسجد کے تنازع میں ایک فریق کی حیثیت سے شامل ہوا تھا لیکن اب ایسے کسی قضیہ میں ہمارا حصہ دار بننے کا سوال نہیں اٹھتا۔ انہوں نے اسی موقع پر یہ بھی کہا تھا کہ یہ ہر جگہ کیا شیولنگ تلاش کرتے پھر رہے ہو؟ سَنگھ کے سربراہ کے اس قدر واضح اور واشگاف انداز سے سب کچھ کہہ دینے کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ کسی پر کوئی اثر نہیں ہوا ہے۔ سب سے زیادہ تعجب اور افسوس کی بات مرکزی حکومت کے ذمہ داروں کی خاموشی کی ہے۔ 1991 کے عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کی جس طرح نفی کی جا رہی ہے، اس سے آنے والے دنوں میں جو صورتحال پیدا ہوسکتی ہے، وہ اس ملک کی مذہبی رواداری، جمہوری عمل کی پاسداری اور پارلیمانی نظام کی ناقدری کا سبب بنے گی اور اگر خدا نخواستہ ایسا ہوتا ہے تو یہ کسی کے حق میں اچھا نہیں ہوگا۔
آج سے کوئی ایک صدی سے زیادہ پہلے اکبر الٰہ آبادی نے کہا تھا کہ:
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں
کہ اکبرؔ نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں
اب تک اکبرؔ کے اس شعر کو تفنن طبع کا اظہار سمجھا جاتا تھا لیکن کچھ دنوں سے یہ شعر جگہ جگہ حقیقت حال کا مظہر بنتا جا رہا ہے۔ اگر ایک طرف کسی شاپنگ مال، ریلوے اسٹیشن، بس اسٹینڈ یا سڑک کے کسی کونے میں نماز کے وقت نکلنے اور قضا ہوجانے کے ڈر کے مارے کچھ لوگ اپنے اس مذہبی فرضِ عین کو ادا کر لیتے ہیں تو فوراً بجرنگ دل اور وی ایچ پی اور ان جیسی تنظیموں کے لوگ اسے موضوع بنا کر ایک سماجی فساد پیدا کر دیتے ہیں اور افسوس یہ ہے کہ نظم و نسق کو نافذ کرنے والی مقامی ایجنسیاں بھی ان کی بھرپور مدد کرتی ہیں۔ ایک ایسے ملک میں جہاں کی پہچان ہی مذہبی رنگا رنگی سے ہوتی ہو، جہاں ہوائی اڈّوں پر بھی عبادتوں کے لیے گوشے فراہم کیے جاتے ہوں، وہاں ایسی کسی صورتحال کو پیدا کیے بغیر کہ جب عام زندگی اس سے متاثر ہوتی ہو، جب لوگوں کی آمدورفت میں کوئی رکاوٹ پیش آتی ہو، نماز کی ادائیگی کس طرح سے پریشانی کا سبب ہوسکتی ہے؟ اور آزادی کے 75 برسوں میں اگر پریشانی کا سبب 70 سال سے زیادہ عرصے تک نہیں ہوا تو آج اچانک یہ سب کچھ کیوں آنکھوں میں کھٹک رہا ہے اور ایک مخصوص سوچ کے ماننے والے اس پر مرنے مارنے کو کیوں تیار ہوئے جا رہے ہیں اور اکثر حکومتیں بھی ان کا ہی ساتھ دیتی نظر آ رہی ہیں۔
اس ساری صورت حال میں ہمارا مسلمانوں کو یہی مشورہ ہوگا کہ وہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں۔ اللہ رب العزت سے مدد چاہیں کہ وہ ہندوستان جنت نشان کو ہر طرح کے عناد و فساد اور تعصب و نفرت سے محفوظ رکھے۔ ساتھ ہی ہم مرکزی اور ریاستی حکومتوں سے بھی یہ استدعا کریں گے کہ وہ مسلمانوں سے ایک بامعنی اور ایماندارانہ مکالمے کا آغاز کریں کیوں کہ کسی بھی سماجی گروہ کا اندر ہی اندر گھٹتے رہنا اور خوف کا شکار ہونا نہ اس طبقے کے لیے اچھا ہے اور نہ ملک کے لیے۔ اگر ملک کو سچ مچ آگے بڑھنا ہے اور جس طرح اس نے اپنی خارجہ پالیسی میں امتیاز حاصل کیا ہے، اسی طرح داخلی سطح پر بھی اسے سب کے ساتھ یکساں سلوک اپنا کر ایسا ماحول پیدا کرنا چاہیے کہ ہر ہندوستانی ایک بار پھر یہ کہہ اٹھے کہ:
ہے رنگِ لالہ و گل نسریں جدا جدا
ہر رنگ میں بہار کا اثبات چاہیے
(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے
پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS
Previous articleچین کا عالمی ترقیاتی منصوبہ بی آر آئی: کامیاب یا ناکام؟
Next articleشنگھائی اجلاس:مودی و پوتن کی ملاقات کے معنی!
Akhtarul Wasey (born September 1, 1951) is the president of Maulana Azad University, Jodhpur, India, and a former professor of Islamic Studies. He taught at Jamia Millia Islamia (Central University) in New Delhi, where he remains professor emeritus in the Department of Islamic Studies. Early life and education: Wasey was born on September 1, 1951, in Aligarh, Uttar Pradesh to Hairat bin Wahid and Shahida Hairat. He is the oldest of six children. Wasey attended Primary School No. 16, the City High School of Aligarh Muslim University, and Aligarh Muslim University where he earned a Bachelor of Arts (Hons.) in Islamic studies in 1971, a Bachelor of Theology in 1975, a Master of Theology in 1976, and an Master of Arts in Islamic studies in 1977. He also completed a short-term course in the Turkish language from Istanbul University in 1983. Career: On August 1, 1980 he joined Jamia Millia Islamia, Delhi as lecturer and worked there till 31 August 2016.Wasey was a lecturer, reader and professor at Jamia Milia Islamia University in New Delhi from 1980-2016, serving as the director of Zakir Husain Institute of Islamic Studies and later becoming head of the Department of Islamic Studies and Dean of the Faculty of Humanities and Languages. He is currently the president of Maulana Azad University in Jodhpur and remains a Professor Emeritus in the Department of Islamic Studies at Jamia Millia Islamia. In March 2014, Wasey was appointed by Indian President Shri Pranab Mukherjee to a three-year term as Commissioner for Linguistic Minorities in India, and became the first Urdu-speaking commissioner since 1957. Wasey is the editor of four Islamic journals: Islam Aur Asr-e-Jadeed; Islam and the Modern Age; Risala Jamia; and Islam Aur Adhunik Yug. Awards and honors: 1985 Award from Urdu Academy, Delhi and UP Urdu Academy on "Sir Syed Ki Taleemi Tehreek" 1996 Maulana Mohammad Ali Jauhar Award 2008 Fulbright Fellowship 2013 Padma Shri award from President Pranab Mukherjee of India 2014 Makhdoom Quli Medal from the President of Turkmenistan 2014 Daktur-e-Adab from Jamia Urdu, Aligarh