اپیندر رائے
چیف ایگزیکیٹوآفیسر
اینڈ ایڈیٹران چیف
سہارانیوز نیٹ ورک
دنیا کی پانچویں سب سے بڑی اقتصادیات بن جانے کی خبر بھلے ہی ایک ہفتے پرانی پڑگئی ہو لیکن ملک میں اس سے جڑے جوش اور فخر کااحساس مسلسل تازہ دم بنا ہوا ہے۔ تجزیے کے لحاظ سے اس تبدیلی کی کئی جہتیں ہو سکتی ہیں، لیکن ملک کا عام شہری تو اسی احساس سے پر مسرت ہے کہ 250 سال تک جن انگریزوں نے ہم پر حکومت کی اور جاتے جاتے ہمارا خزانہ بھی خالی کر گئے، آج ہم نے دوبارہ اس خزانے کو نہ صرف پائی پائی بھرا ہے، بلکہ اسے انگریزوں سے بھی بڑا کر دکھایا ہے۔
صدیوں کی بات چھوڑ کر حالیہ دہائیوں کی ہی بات کریں، تو دس سال پہلے جب ہماری اقتصادیات 11 ویں پائیدان پر تھی، برطانیہ تب بھی پانچویں مقام پر تھا۔ پھر 2014 میں جب ملک کا اقتدار بدلا تب اس وقت امریکی ڈالر میں ہندوستانی اقتصادیات 2 ٹریلین تھی اور ہم ایک پائیدان چڑھ کر دسویں پائیدان تک پہنچ گئے تھے۔ 3 ٹریلین ڈالر کے ساتھ برطانیہ تب بھی پانچویں مقام پر ہی تھا۔ فرانس، برازیل، اٹلی اور روس بالترتیب چھٹے، ساتویں، آٹھویں اور نویں مقام پر تھے۔ پچھلے 8 برسوں میں ہندوستانی اقتصادیات نے روس، اٹلی، برازیل اور فرانس کو ایک ایک کرکے پیچھے چھوڑا ہے۔ آج ہندوستانی اقتصادیات 3.5 ٹریلین کی قابل احترام سطح پر ہے اور برطانیہ کو پیچھے چھوڑ کر یہ پانچویں مقام پر مضبوطی سے کھڑی ہے۔
اچھے مظاہرے کا فائدہ؟
تازہ صورت حال اس بات کا اشارہ ہے کہ ہم نے اقتصادی سیکٹر میں کچھ اتنا اچھا مظاہرہ کیا ہے کہ ہم اس مقام تک پہنچے ہیں، یا اتنا اچھا نہیں بھی کیا ہے، تو کم سے کم برطانیہ سے توبہتر ہی کیا ہے۔ اب اس کا ہمیں فائدہ کیا ملے گا؟ فوراً کسی بڑے فائدے کا امکان کم ہے، لیکن اگر ہم اس مظاہرے کو آگے بھی قائم رکھیں گے، تو متوسط سے لمبی مدت میں یقینا اس کے مثبت اثرات دکھیںگے۔ سب سے بڑا اثر تو یہ ہوگا کہ اس سے دنیا میں ہماری گروتھ اسٹوری کو لے کر نئے سرے سے اعتماد بحالی کا ایک ماحول تیار ہوگا۔ یہ سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ ایکسپورٹ کے نئے اور انقلابی مواقع پیدا کرے گا۔ میک اِن انڈیا اور پروڈکشن لنکڈ اِن سینٹو کو لے کر حکومت کا یہ دعویٰ اور مضبوط ہوگا کہ سرمایہ کاروں کے لیے آج بھارت بہترین امکانات والا ملک ہے۔ چین کی سست پڑتی اقتصادیات کے بیچ یہ سونے پر سہاگہ والی بات بن سکتی ہے۔ کیونکہ بڑھی ہوئی غیر ملکی سرمایہ کاری روزگار کے نئے مواقع پیدا کر کے اس وقت کی بھارت کی سب سے بڑی پریشانی بے روزگاری کے بحران کے بیچ حکومت کو کافی راحت پہنچاسکتی ہے۔
کہانی میں جب آتا ہے ٹوئسٹ
یہ تھوڑاعجیب و غریب ہے کہ چین کا جہاں بھی ذکر آتا ہے، وہاں کہانی میں اپنے آپ ٹوئسٹ آ جاتا ہے۔ اقتصادیات کے محاظ پر برطانیہ کو پیچھے چھوڑنے کی ہماری حصولیابی بھی اس سے بچ نہیں پائی ہے۔ انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عالمی اقتصادیات کا پانچواں پائیدان ہمیں صرف اپنے بہتر مظاہرے کے بوتے نہیں ملا ہے، بلکہ اس میں برطانیہ اور ہماری آبادی کا فرق بھی ایک بڑی وجہ ہے۔ جہاں ہماری آبادی 140 کروڑ ہے، وہیں برطانیہ کی آبادی صرف 6.8 کروڑ ہے۔ ایسے میں ہمیں جی ڈی پی کو حقیقی معنوں میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ بھارت کی فی کس آمدنی جہاں 2,500 ڈالر (تقریباً 2 لاکھ روپے) ہے،تو وہیں برطانیہ کی فی کس آمدنی 47,000 ڈالر یعنی تقریباً 37,60,000 روپے ہے۔ ہمیں اپنے ملک کے شہریوں کو اس سطح تک لانے کے لیے طویل سفر طے کرنا ہوگا۔ اس لیے برطانیہ کے بجائے چین سے تقابل شاید ہمیں صحیح تصویر کے زیادہ قریب لاتا ہے۔ عالمی بینک کے آنکڑے کے مطابق چین کی فی کس آمدنی 2021 میں بھارت سے تقریباً چھ گنا (12,556 ڈالر) تھی۔ 1990 تک ہم اور چین تقریباً برابری کی سطح پر تھے۔ لیکن چین کو لے کر آج سب سے بڑی اقتصادیات بننے کی چرچا چل رہی ہے۔ دوسرا، لبرالائزیشن کے بعد سے بھارت کی ترقی بے حد غیر مساوی رہی ہے۔
عالمی غیر مساوی رپورٹ، 2022 کے مطابق، بھارت میں 10 فیصد لوگوں کی آمدنی کل قومی آمدنی کا 57 فیصد ہے، جبکہ 50 فیصد حصے کے کھاتے میں 13 فیصد آمدنی جاتی ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ 10 فیصد امیر اور دولت مند ہو جائیں اور غریب اور زیادہ غریب ہو جائیں تو بھی اپنی بڑی آبادی کی وجہ سے بھارت پانچویں سب سے بڑی اقتصادیات بنا رہ سکتا ہے۔ یہ مذمت یہ زیادہ تشویش کا موضـوع ہے کیونکہ اگر کوئی دنیا کے باقی حصے کے مقابلے گر رہا ہے، اور کسی کی آبادی بڑھ رہی ہے، اس کا مطلب ہے کہ دنیا کے مقابلے، اس کے شہری غریب ہوتے جا رہے ہیں۔
ایسے میں ہمارے لیے آگے کا راستہ کیسا ہے؟
حصولیابیوں کے درمیان چنوتیاں بھی کم نہیں ہیں۔ مینوفیکچرنگ سیکٹر کی 4.8 فیصد کی دھیمی رفتار تشویش کاموضوع ہے۔ 600 بلین ڈالر کے ریکارڈ ایکسپورٹ کے باوجود امپورٹ کا ابھی بھی اس سے زیادہ ہونا حکومت کا سردرد بڑھا رہا ہے۔ یہ بھی اندیشہ ہے کہ مانسون کا اس بار غیریقینی پیٹرن زراعت کی ترقی اور یہی مانگ کو متاثر کرے گا۔ مسلسل چھ مہینوں سے 6 فیصد کی سطح کے اوپر بنی مہنگائی کی شرح الگ سے چنوتی بڑھا رہی ہے۔ سبھی طرح کی اقتصادی سرگرمیوں کو ملا لیا جائے تو صارفین خرچ کا حصہ قریب قریب 55 فیصد تک بیٹھتا ہے جو کھانے کے تیل اور گاڑی چلانے کے ایندھن کی قیمتوں میں آگ لگنے سے بری طرح متاثر ہے۔ اس لیے مہنگائی کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے ریزرو بینک کو کچھ نئے اُپائے تلاش کرنے ہی ہوں گے۔
کاروباری سرگرمیوں کے پٹری پر لوٹنے کے اشارے
کئی مثبت اشارے بھی ہیں جیسے جی ایس ٹی کلیکشن پچھلے لگاتار چار مہینوں سے 1.4 لاکھ کروڑ سے اوپر کی اعلیٰ سطح پر بنا ہوا ہے۔ یہ کاروباری سرگرمیوں کے پٹری پرلوٹ آنے کا سب سے بڑا اشارہ ہے۔ مئی اور جون کے لیے صنعتی پروڈکشن انڈیکس میں بھی دو نمبروں کا اضافہ ہوا ہے۔ یہاں تک کہ اس اگست کے آنکڑوں کے مطابق بینک قرض اضافہ 11 برسوں میں سب سے زیادہ ہے۔ اس میں ہاؤسنگ اور ریٹیل لون بھی شامل ہیں۔ لیکن عالمی سطح پر اتھل پتھل مچی ہے، اس سے بھارت کی قسمت بھی متاثر ہو رہی ہے۔ حالانکہ دنیا جہاں مندی کے کگار پر ہے، وہیں بھارت 7 فیصد کی شرح سے بڑھ رہاہے۔ برطانیہ میں مہنگائی 10 فیصد اور امریکہ میں 9 فیصد کی ریکارڈ سطح پر ہے جبکہ بھارت میں یہ6-7 فیصد ہے جو مقابلتاً عام ہے۔ اپریل-جون سہ ماہی میں چین کی ترقی کی شرح بھی 0.4 فیصد رہی ہے۔ وہیں دیگراندازے بتاتے ہیں کہ سالانہ بنیاد پر بھی بھارت کے مقابلے میں چین پیچھے رہ سکتا ہے جیسے اقتصادیات کے سائز میں ہوا تازہ اضافہ کھپت سے متاثرہے، جو گھریلو مانگ خاص کر سروس سیکٹر کی بحالی کا اشارہ ہے۔ جس طرح دوسال کی وبائی پابندیوں کے بعد صارفین اب باہر نکل رہے ہیں، اور خرچ کر رہے ہیں، اسے دیکھتے ہوئے سروس سیکٹر میں آئے اس اچھال کو اگلے مہینے تہواروں کے سیزن سے بڑھاوا ملنے کی امید ہے۔
ایسے میں اقتصادیات کی عالمی رینکنگ میں بھارت کی اس بالکل نئی حصولیابی کو کس نظریے سے دیکھا جانا چاہیے؟ وزیراعظم مودی نے اس حصولیابی کو غیر معمولی بتایا ہے۔ تیزی سے بڑھ رہی ہندوستانی اقتصادیات کے لیے یہ یقینا ایک میل کا پتھر ہے۔ اپریل-جون سہ ماہی میں بھارت کی جی ڈی پی میں 13.5 فیصد کی توسیع ہوئی، جو اس مدت میں سب سے تیز عالمی گروتھ ہے۔ اگر ہم دنیا کی سب سے تیزی سے بڑھتی اقتصادیات کی اس پہچان کو بنائے رکھنے میں کامیاب رہے تو اگلے کچھ برسوں میں ٹاپ-3 میں شامل ہونے کے دنیا کے اندازے اور ہمارے ارمان، دونوں پورے ہو سکتے ہیں۔n