یوکرین جنگ میدان جنگ کے باہر بھی لڑی جارہی ہے۔ روس کو اقتصادی طورپر کمزور کرنے اور اس کے تجارتی مفادات کو نقصان پہنچانے کے لئے امریکہ اوراس کے حلیفوں نے اس پر بہت ساری اقتصادی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ روس نے بھی یوکرین پر حملہ اوراس سے قبل ہی یوروپ کو اپنے ملک کو ملنے والی قدرتی گیس اور پٹرولیم کی سپلائی روک دی تھی اوراس جنگ کی وجہ سے غذائی اجناس کی ترسیل اور نقل و حمل میں جو دشواریاں پیش آئیں اس کو پوری دنیا نے جھیلااورابھی تک جھیل رہی ہے۔
ان صفحات میں پہلے بھی عرض کیا جاچکا ہے کہ روس اور یوکرین دنیا میں غذائی اجناس سپلائی کرنے والے اہم ترین ممالک ہیں اوراس سپلائی کے رکنے سے افریقہ اور ایشیا کے کئی ممالک میں غذائی بحران اور افریقہ کے کئی ملکوں میں فاقہ کشی تک کی نوبت آگئی تھی۔ بعد میں حالات زیادہ خراب ہوگئے تو اقوام متحدہ کی مداخلت اور اس کے ایما پر ترکی نے مصالحت کراکے بحراسود سے غذائی اجناس لے جارہے بحری جہازوںکو راہداری فراہم کرائی مگراب جیسے جیسے سردیاں قریب آرہی ہیں یوروپی ملکوں میں شدید موسم کے امکانات کے سبب توانائی کے بحران کے آثاردکھائی دے رہے ہیں اور روس کی حکمت عملی بھی ہے کہ اب وہ توانائی کی سپلائی پر روک لگا کر اوراس کو مشروط بنا کر میدان جنگ کے باہرلڑی جارہی جنگ میں اپنی پوزیشن بہتربنائے۔
امریکہ اورمغربی ممالک کی روس پر اقتصادی پابندیوںکی وجہ سے وہ اپنا دفاعی سازوسامان دیگر حلیف ممالک سے خرید نہیں پارہا ہے۔ اب اس کو شمالی کوریا سے گولہ باروداور دوسرا سامان خریدنا پڑ رہا ہے۔ یہ جنگ غیرمتوقع طورپر طویل ہورہی ہے اور جنگ جتنی طویل ہوگی روس کے لئے اتنی ہی پریشانیاں بڑھیںگی۔ روس کے لئے یہ حالات اس قدر پریشان کن ہیں کہ اس کو ان چھوٹے چھوٹے ممالک سے جنگی سازوسامان اور ہتھیار خریدنے کے لیے مجبور ہونا پڑ رہا ہے جوکہ مغرب کے اول درجہ کے دشمن ہیں۔ اس فہرست میں شمالی کوریا کے علاوہ ایران بھی شامل ہے۔ روس ایران سے ڈرون خرید رہا ہے۔ روس اور شمالی کوریا ایک دوسرے کے ساتھ دوستی نبھارہے ہیں۔شمالی کوریا نے روس کا ساتھ دیتے ہوئے شمالی یوکرین کے ڈونیسک(Donesk) اور لوہانسک(Luhansk) کی خودمختاری کو بھی تسلیم کرلیا ہے۔
ایران کی ڈرون صنعت کافی ترقی یافتہ بتائی جاتی ہے۔ روس کے ڈرون کے ماہرین نے ایرانی ڈرون کو چلانے اور دیگر تکنیکی نکات کو سمجھنے کے لیے ٹریننگ بھی حاصل کی ہے، اس سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ روس کو کس قدر کے شدید مسائل کا سامنا ہے اور یہ سب کچھ بین الاقوامی پابندیوں کا نتیجہ ہے۔
دراصل اسی جنگ میں بہت سی خارجی طاقتیں یہاں تک کہ غیریوروپی ممالک بھی شامل ہوگئے، روس کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے امریکہ نے خزانے کے منہ کھول دیے ہیں۔درج ذیل فہرست سے حقائق کا پتہ لگایاجاسکتا ہے:
3اگست 2022تک یوکرین پہنچنے والی اقتصادی امداد کچھ اس طرح ہے:
امریکہ : 25بلین امریکی ڈالر
برطانیہ : 4.03بلین امریکی ڈالر
پولینڈ : 1.8بلین امریکی ڈالر
جرمنی : 1.2بلین امریکی ڈالر
کناڈا : 0.93بلین امریلی ڈالر
چیک جمہوریہ : 0.34بلین امریکی ڈالر
ڈنمارک : 0.27بلین امریکی ڈالر
لاٹیویا : 0.25بلین امریکی ڈالر
اسٹوتیا : 0.25بلین امریکی ڈالر
آسٹریلیا : 0.25بلین امریکی ڈالر
عالمی بازاربھی ہیں میدان جنگ کا حصہ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS