عبدالسلام عاصم
کسی فرقے کو تکلیف پہنچانے والے کسی فیصلے یا واقعے کو زبان و قلم سے بھرپور نشانہ بنا کر زیادتی کا ازالہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے لیے ادعائیت کے غلبے والے معاشرے میں انسانی ماحول سازی کی اشد ضرورت ہے۔ سیاسی لڑائیوں کو جب تک حق و باطل کی لڑائی پر محمول کیا اور کرایا جاتا رہے گا، ایک فرقے کا کمزور دوسرے فرقے کے طاقتور کا نشانہ بنتا رہے گا۔ کل تک تاریخی حوالوں سے ایسے واقعات سے ہم جہاں نظری طور پر گزرتے رہے، وہیں آج ایسی وارداتوں کا عملی مشاہدہ کر رہے ہیں۔ ایسا نہیں کہ کبھی اس منظر نامے کو بدلنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ دستیاب وسائل کے اعتبار سے ہر عہد میں اس رُخ پر کوششیں کی گئی ہیں، جن میں وقتی کامیابی بھی ملی ہے۔ایسا نہ ہوتا تو آج پوری دنیا کی حالت ایک جیسی ہوتی۔ تو کیا بے پناہ سائنسی پیش رفت والے اطلاعاتی ٹیکنالوجی کے موجودہ عہد میں ایسی کسی کامیابی کو دائمی یا قابلِ لحاظ حد تک طویل مدتی بنانا ممکن نہیں۔ میرے خیال میں ممکن ہے ،بشرطیکہ بیزاری کے نام پر اندیشوں کی تجارت بند کی جائے اور بیدار حلقے اندیشوں کو امکانات میںبدلنے کی حکمت کی دھار اور تیز کریں۔
وقت آگیا ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بہتر ہونے کی عقیدہ جاتی سوچ کو ختم کرنے کی اب تک کی علمی کوششوں سے اور زیادہ مربوط طور پر کام لیں اور نسل انسانی کو کائنات کی تخلیق کے(روزافزوں روشن ہوتے)مقصد سے عملاً ہم آہنگ کریں۔ راستے ہر قدم پر ابھی بھی دشوار ہیں لیکن انہیں عبور کرنے کے وسائل اب محدود نہیں۔ اگر ایک ایسے عہد میں بھی جس میں ذہانت کے محاذ پرانسان اور روبوٹ کے درمیان یومیہ بنیاد پرفاصلے کم ہوتے جارہے ہیں، عصری غور و فکر کے میدان میں اگر ہم اب بھی اِس رُخ پر بیداری پیدا کرنے میں ناکام رہے تو ظلم اور زیادتی کی ایک ہی کہانی کل بھی دہرائی جاتی رہے گی۔ یعنی وقفے وقفے سے ظالم مظلوم میں اور مظلوم ظالم میں بدلتے رہیں گے۔ یہ مصلحتِ خداوندی ہرگز نہیں، جس کی ہم میں سے بیشتر آڑ لینے کے عادی چلے آرہے ہیں۔
عالمی اور علاقائی اختلافات کے بیش و کم جاری سلسلوں کے درمیان بھی دیکھا جائے تو ایک سے زیادہ اقوام کے درمیان مفاہمت کی خبریں جتنی آج عام ہیں، اُتنی سابقہ صدی کی کسی دہائی میں نظر نہیں آتیں۔ اطلاعاتی ترقی کے لحاظ سے موجودہ عہد کی رفتا ر چونکہ سابقہ تمام زمانوں کی (مرحلہ وار بڑھتی ہوئی) رفتار سے تیز ہے، اس لیے بعض حلقوں میں اب باتیں بگڑتی کم اور بننے زیادہ لگی ہیں۔ ضرورت صرف اس تبدیلی کو ایماندارانہ طور پرمحسوس کرنے اور اس کا دائرہ بڑھانے کی ہے۔ جن خطوں کی اقوام نے اِس کا عملاً ادراک کرلیا ہے، وہیں انقلابی تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ ایسا نہیں کہ اڑچنیں سرے سے ختم ہوگئیں۔ رُکاوٹیں وہاں اب بھی موجودہیں لیکن خلل پسندوں کو منھ لگانے والے نسبتاًکم دستیاب ہیں۔ اس کے برعکس برصغیر سمیت بعض ایشیائی ملکوں میں آج بھی ذہنوں کو نفرت اور دلوں کو حرص کے دائرے سے باہر نکالنے والے کم اور دونوں خرابیوں کا دھندہ کرنے والے زیادہ سماج پر حاوی ہیں۔
میڈیا کا ایک حلقہ بشمول سوشل میڈیا بھی انہی عناصر میں سے ایک ہے جسے رات دن بس بُری خبروں کی تلاش رہتی ہے۔ کچھ خبروں کی سرخیاں پڑھ کر متن میں اُتریں توکہیں کوئی متعلقہ تفصیل موجود نہیں ہوتی۔ ابھی پچھلے دنوں ایک خبر نظر سے گزری کہ فلاں کو فلاں تقریب میں مدعو کرنے پر فلاں حلقے میں ناراضگی پھیل گئی ہے۔ متن میں اس ناراضگی کا اظہار کرنے والے کسی بندے یا بندی کا کہیں کوئی ذکر نہیں تھا۔ خبروں کی جگہ نظروں کا یہ کاروبار ملک میں بہو چرچت اکثریت اور ہر وقت تذکرے میں رہنے والی اقلیت دونوں کی زندگی اجیرن کیے ہوئے ہے۔ کچھ لوگ تو ایسی خبروں کے ایسے عادی ہو گئے کہ کسی بھی حوالے سے ملاقات کی بزم آراستہ کی جائے،وہ ایکدم سے نفرت سے آلودہ سیاست کی بات چھیڑ دیتے ہیں۔ نئی نسل کا بیدار حلقہ اِس سے سخت پریشان ہے۔ تقریباً ہر گھر میں پرانی اور نئی سوچ کی لڑائی چل رہی ہے۔ چنگاری کہیں دبی دبی ہے تو کہیں شعلے میں تبدیل ہونے کی دیر نظر آتی ہے۔
گزشتہ دنوں ایک اخباری سُرخی نظر سے گزری کہ ’’جیلوں میں مسلم قیدیوں کی تعداد میں کمی، ہندو قیدیوں کی تعداد میں اضافہ‘‘، میرے خیال میں اس سرخی کو دیکھنے والا کوئی بھی قاری ایسا نہیں ہوگا جو مکمل یا ایک حد تک متن سے نہ گزرا ہو۔ ہر چند کہ متن کی کیفیت سُرخی سے مختلف تھی یعنی اس میں وہ بات نہیں تھی جو خلفشار سے دوچار ماحول میں خبر کی سُرخی پیدا کر رہی تھی، پھر بھی اس خبر نے ہر اُس عام آدمی کو متوجہ کیا جس کا اکیڈمک خبروں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ پوری خبر اکیڈمک نوعیت کی تھی۔ فراہم کردہ معلومات علمی جستجو سے علاقہ رکھتی تھیں۔ اگرچہ رپورٹ میں یوپی کی جیلوں کی بعض امکانی سرگرمیوں کو بھی اجاگر کیا گیا تھا جو ممکن ہے اپنے اندر سیاسی ڈوز بھی رکھتی ہو،لیکن اس خبر کو سیاسی خبر کے طور پر مخصوص سرخی کے ساتھ نمایاں کرنا جانے انجانے میں حالات کے ہتھّے چڑھنے جیسا ہے۔
بلاسفیمی سے تعلق رکھنے والا نیویارک کا حالیہ سانحہ ہو یااپنے ملک میں مجرم قرار دیے جانے والے آبرو ریزوں کی رہائی کا افسوسناک واقعہ یا پھرکہیں آبادی کے تناسب میں مبینہ تبدیلی پر کسی کا بظاہر فتنہ انگیز تبصرہ، میڈیا کا ایک حلقہ فوراً ان ریڈی میڈ چیزوں کو اپنی تجارت کے لیے دوبارہ خام مال میں تبدیل کر دیتا ہے۔ایسا کرنے والے لوگ اگر اتنے غیر ذمہ دار ہیں تو اس غیر ذمہ داری کے پنپتے رہنے کا ذمہ دار کون ہے!اس کے ذمہ دار ہم سب ہیں اور ہم میں زیادہ ذمہ دار وہ لوگ ہیں جو رات دن بس سُرخیوں میں رہنا چاہتے ہیں۔
دیکھا جائے تو ہر مکتب فکر کے پڑھے لکھے لوگ اِس تفہیم کے قائل ہیں کہ مذہب کو ماننا اور سمجھنا ایک دوسرے کی ضد نہیں ہے۔ اُن کے نزدیک مذہب کا تعلق عالمی اقدار سے ہے۔ دوسرا حلقہ اُن لوگوں کا ہے جو مذہب کو ماننے اور سمجھنے کو ایک دوسرے کی ضد سمجھتے ہیں۔ اُن سے اِس باب میں کوئی بھی ڈسکورس دیکھتے ہی دیکھتے مناظرے میں بدل جاتا ہے۔ یہ ہے وہ نمایاں تقسیم جسے سمجھنے والے بر صغیر میں بہت کم ہیں۔ جہاں تک مذہب کو ماننے اور جاننے سے اتفاق کرنے والوں کا تعلق ہے ، وہ بھی عملاً دو خانوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ اُن کا ایک حلقہ اپنی مذہبی شناخت کو اپنے حق میں ’’خدا کا انتخاب‘‘ سمجھتا ہے۔ دوسرا حلقہ یہ سمجھتا ہے کہ مذہبی شناخت کسی کی آفاقی طور پر طے شدہ پہچان نہیں، اس لیے مذاہب کا تقابلی جائزہ لے کر کسی کو بھی اپنی شناخت سے مطمئن یا اُسے بدلنے کا حق ہے۔
مذکورہ دونوں حلقوں میں علمی ڈسکورس والے معتدل اور مناظرہ بازی والے انتہا ئی طبیعت کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ اپنی پیدائشی شناخت کو ’’خدا کا انتخاب‘‘ ماننے والا معتدل حلقہ اُن لوگوں کو اپنا دشمن نہیں سمجھتا جو پیدائش کو ’’اتفاق‘‘ مانتے ہیں۔ وہ اس معاملے کو اللہ پاک پر چھوڑ دیتا ہے۔اسی طرح دوسرے حلقے میں بھی اعتدال پسند اور شدت پسند دونوں قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ جو معتدل طبیعت کے ہیں، وہ اختلاف رائے کو عین فطری مانتے ہیں اور جو فکری یکطرفگی کے اسیر ہیں وہ صرف اپنی بات منوانے پر یقین رکھتے ہیں خواہ اس کا انجام دونوں کے حق میں بُرا کیوں نہ ہو۔ عصری منظرنامہ دونوں حلقوں کے انتہا ئی سوچ رکھنے والوں کی وجہ سے نفرت اور تشدد سے آلودہ ہے۔
کہتے ہیں گھُپ اندھیرے میں روشنی کا تواتر کے ساتھ ذکر بھی تاریکی میں بھٹکنے والوں کی آنکھوں میں امید کی ایک ایسی چمک پیدا کر دیتا ہے جس کے نتیجے میں جستجو پسند لوگوں کو پہلے سُجھائی پھر دِکھائی دینے لگتا ہے۔ بعض حلقے ان دنوں نئی نسل کو اسی حوالے سے حساس کم اورباشعور زیادہ بنانے کے رُخ پر سرگرم ہیں۔ اُن کی کوشش ہے کہ دنیا کو جو بساطِ آخرت ہے اُسے اُلٹ کر رکھ دینے والی مذہبی محاذ آرائیوں سے بچانے کو اولین ترجیح دی جائے تاکہ خالص دینی اور خالص دنیاوی علوم کے علمبرداران کے درمیان رابطے کا ایک پل قائم کیا جا سکے جس پر مختلف راہوں سے گزر کر آنے والے جب بھی ملیں ایک دوسرے سے انسانی اقدار کی بہتری کیلئے استفادہ کر یں۔اُن کی ہر ملاقات تصادم کا سبب نہ بنے۔
طے ہے یومِ حساب جب تو پھر
کیوں نہ دنیا میں چین سے جی لیں
موت برحق تو زندگی حق ہے
دونوں اِس پر تو اتفاق کریں
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]