نئی دہلی، (ایس این بی) اقوام متحدہ نے ایک چیلنج دیا تھا اگر ہندوستان 2030 تک باہری ماحول میں رفع حاجت سے نجات حاصل کر لیتا ہے تو یہ ایک بڑی کامیابی ہوگی، لیکن ہمارے ملک نے 11 سال قبل اقوام متحدہ کے اس چیلنج کو حاصل کر لیا۔ صفائی کے متعلق مہاتما گاندھی نے جو خواب دیکھا تھا، وہ مودی جی کی قیادت میں تیزی سے پورا ہورہا ہے ۔ بھارت رتن اٹل بہاری واجپئی اور موجودہ وزیر اعظم نریندرمودی کے درمیان موازنہ کرنا صہی نہیں ہے۔ میرا مانتا ہے کہ ان دونوں عظیم شخصیات کا وژن ایک جیسا رہا ہے۔ یہ کہنا ہے جل شکتی اور فوڈ پروسیسنگ انڈسٹریز کے وزیرمملکت پرہلاد سنگھ پٹیل کا۔ سہارا سے نیوز نیٹ ورک کے گروپ ایڈیٹررمیش اوتھی نے جناب پٹیل سے ان کی ذاتی زندگی سے لے کر سیاسی سفر کے بارے میں تفصیل سے بات چیت کی ۔ پیش ہے، ان سے ہوئی بات چیت کے اہم اقتباسات:
سوال- آپ نے طالب علمی کے زمانے سے ہی جدوجہد کی زندگی گزاری ہے، آپ کا تعلق ایک کسان گھرانے سے ہے، اس مقام تک پہنچنے کے لیے آپ کو کن چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا۔؟
جواب- کسی بھی انسان کے لیے زندگی کے شروع میںکنبہ کے لوگوں کی بڑی رہنمائی ہوتی ہے۔ جیسی گھریلو تعلیم انسان کو ملتی ہے، اسی بنیاد پر وہ آگے بڑھتا ہے۔ میرے والد ہمیشہ انقلابیوں کی بات کرتے تھے، ناانصافی کو برداشت نہیں کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ اگر کوئی کسی کے ساتھ ظلم کرے گا تو ایک دن اس کے ساتھ بھی ظلم ہوگا۔ بچپن میں، میں نے ناانصافی نہ کرنا اور ناانصافی نہ ہونے دینا سیکھا۔ گاو¿ں میں پرورش پائی اور پڑھائی کےلئے یونیورسٹی پہنچا۔ جے پی تحریک اور جنتا پارٹی کی حکومت کا حصہ تھا۔ کالج کاصدر بنا، جنتا پارٹی کی حکومت گر گئی۔پھریہ طے کرنا تھا کہ آگے کیا کرنا ہے، جن سنگھ کی طرف جاﺅں یا پھر سماجوادیوں کی تحریک میں شامل ہوجاﺅں، کیونکہ جبل پور اس وقت سوشلسٹوں کا گڑھ تھا، لیکن اٹل بہاری واجپئی جی کا انتظار تھا، کیونکہ وہ کچھ اعلان کرنے والے تھے اور دو دن بعد اٹل جی نے پارٹی بنانے کا اعلان کیا اور طے کرلیا کہ اٹل جی کی پارٹی کے ساتھ ہی چلنا ہے۔ پہلا الیکشن جیتنے کے بعدسوچا کہ سنگھ کےلئے نارتھ ایسٹ میں کام کروں، لیکن کئی وجوہات کے سبب ایسا نہیں ہو سکا، حالات اور وقت بدلتے چلے گئے۔
سوال- آپ کے والد کانگریس میں تھے اور آپ کا نظریہ مختلف تھا، کیا باپ بیٹے میں اختلاف تو نہیں ہوا۔؟
جواب- میرے دادا جی سوشلسٹ تھے اور کسی پارٹی میں نہیں تھے۔پہلا الیکشن بطور آزاد امیدوارجیتے تھے۔ میرے والد سے نظریات کے حوالے سے کبھی کوئی اختلاف نہیں ہوا۔ مجھے ایک واقعہ یاد ہے، میرے والد کانگریس پارٹی کی طرف سے بلدیاتی الیکشن لڑے، اس وقت یونیورسٹی میں پڑھنے اور طلبا کی سیاست میں ملوث ہونے کے سبب میرے خلاف کئی مقدمات درج ہوئے، اس لیے میں نے اپنے والد صاحب کے حق میں کانگریس کو ووٹ نہیں دیا۔
سوال- کہا جاتا ہے کہ اٹل جی آپ کو بہت مانتے تھے۔؟
جواب- میں اٹل جی کی محبت کا مقروض ہوں۔ایک بار میں نے اٹل جی سے کہا جسے آپ پہچانتے ہو،اس کےلئے سیاست کرنے کےلئے اتنا ہی کافی ہے۔
سوال- آپ نے اٹل جی کے ساتھ کام کیا اور اب مودی جی کے ساتھ۔دونوں کے کام کرنے کے انداز میں کیا فرق ہے۔؟
جواب- دو نوںعظیم شخصیات کے درمیان موازنہ نہیں ہونا چاہیے۔کام کرنے کے انداز پر بحث ہو سکتی ہے۔ وقت کا فرق ہو سکتا ہے۔ اس وقت عوامی سطح پر رابطے کے ذرائع بہت کم تھے۔ تب ہم اربوں ڈالر کی معیشت کی بات نہیں کرتے تھے۔ آج ہمارے ملک کی معیشت 5 ٹریلین ڈالرس کی معیشت کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ملک کی ترقی کےلئے اٹل جی اور مودی جی کے وژن میں کوئی فرق نہیں نظر آتا ہے۔ ملکی معیشت دنیا میں 5ویں نمبر پر پہنچ چکی ہے۔ 1989 میںاتحاد کی حکومت تھی،اس کے بعد کسی پارٹی نے واضح اکثریت حاصل نہیںکی۔ یہ تاثر تھا کہ مرکز میںبغیر اتحاد کے کسی پارٹی کی حکومت ممکن نہیں ہے، لیکن مودی جی نے 2014 میں عوام کا اعتماد جیت کر واضح مینڈیٹ دیا ۔
سوال-بطور وزیرموجودہ مدت کار کی حصولیابیاں کیا ہیں۔؟
جواب-اقوام متحدہ نے ایک چیلنج دیا تھا اگر ہندوستان 2030 تک باہری ماحول میں رفع حاجت سے نجات حاصل کر لیتا ہے تو یہ ایک بڑی کامیابی ہو گی۔ ملک نے 11 سال قبل اقوام متحدہ کے چیلنج کو حاصل کرلیا۔ہر گھر تک صاف پانی پہنچے،جس کےلئے جل جیون مشن کے تحت گاﺅں گاﺅںپانی کےلئے پائپ لائن بچھائی جا رہی ہے۔ پانی کی فراہمی صرف ایک مقصد نہیں ہے، بلکہ معیاری پانی فراہم کرنا ایک عزم ہے۔
سوال- نرمدا ندی کئی بار سیاست کے مرکز میں رہی ہے۔کانگریس لیڈر دگ وجے سنگھ نے نرمدا ندی کی پریکرما کی تو حکومت چلی گئی۔
جواب- انا کو ختم کرنے والا شخص نرمدا ندی کی پریکرما کرتا ہے۔ نرمدا ندی کی پریکرما کرنا آستھا کی بات ہے۔ ہم نے نرمدا ندی کی پریکرما کی، لیکن یہ کبھی میری خواہش نہیں رہی کہ دولت حاصل ہو ۔ملک اور ریاست کی خوشحالی اور اپنے عقیدے کےلئے نرمدا ندی کی پریکرماکی۔
سوال- 2023 میں مدھیہ پردیش کے اسمبلی انتخابات اور 2024 میں لوک سبھا انتخابات میں ریاست میں کیا چیلنجز ہیں۔؟
جواب- 2017 کا الیکشن ہمارے لیے ایک چیلنج تھا۔ دگ وجے جی کی غلط حکمرانی کو لوگ بھول نہیں پا رہے ہیں۔ 2017 میں غلطی ہوئی، اس الیکشن میں کانگریس کو موقع ملا، لیکن کانگریس نے جس طرح سے غریبوں کا حق مارا، وہ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ وزیر اعظم مودی جی کا کام کرنے کا اندازمدھیہ پردیش میں کارگر ہے اور اب ریاست میں بھارتیہ جنتا پارٹی کےلئے کوئی چیلنج نہیں ہے۔
سوال- کانگریس لیڈر راہل گاندھی ’بھارت جوڑو یاترا‘ نکال رہے ہیں، حکومت پر کیا اثر پڑے گا۔؟
جواب- جسے زمین کی حقیقت نہیں معلوم ہوگی، وہ آسمان نہیں چھو سکتا، کانگریس ختم ہونے کے دہانے پر ہے۔ وہ کانگریس کے بڑے لیڈر ہیں۔ کانگریس کو اپنی غلطیوں کا احساس نہیں ہے، لیکن مودی جی کی طرح راہل میں ہمت نہیں ہے۔
سوال- آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد آپ کشمیر کو کس نظریہ سے دیکھ رہے ہیں۔؟
جواب- کشمیر میں سیاحوں کی آمدورفت میں اضافہ ہوا ہے۔ وہاں کے نوجوان تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد کشمیر نے ترقی کو دیکھا ہے۔
'सहारा समय न्यूज़ नेटवर्क' का विशेष कार्यक्रम 'समय संवाद' :- LIVE@PMOIndia @JPNadda @BJP4India @BJP4MP @SaharaSamayNews @SaharaSamayNHR https://t.co/r9QcnURiNw
— Prahlad Singh Patel ( वृक्ष से जल, जल से जीवन) (@prahladspatel) September 6, 2022