28 اگست کو دوپہر 2.30 بجے ہندوستان کی تاریخ کا سب سے بڑا demolation اس وقت عمل میں آیا جب نویڈا کے سیکٹر 93A میں 16سال سے تعمیر ہو رہی مشہور زمانہ عمارٹ ٹوین ٹاورکو جنوبی افریقہ کی ایک کمپنی jet demolation نے بارود لگا کر صرف دس سیکنڈ میں دھول اور ملبے کے امبار میں بدل دیا ۔کچھ لوگوں نے اسے مینار بدعنوانی کا نام دے کر عدالت کا ایک عبرت ناک فیصلہ قرار دیاہے۔ آس پاس کے رہنے والوں نے اپنی چھتوں پر چڑھ کر جشن منایا اور ایسا ہی سماں بپا کردیا جیسا تھالی اور تالی بجاتے وقت کیا گیا تھا ۔ان معصوم بے خبر لوگوں کو شاید یہ علم نہیں ہوگا کہ جن عمارتوں کی چھتوں پر چڑھ کر یہ جشن منا رہے ہیں ان کو بناتے وقت کتنے قوانین کی خلاف ورزیاں ہوئی ہوں گی وہیںکچھ لوگوں نے اس فیصلہ کو ایک غیر منطقی فیصلہ سے بھی تعبیر کیا۔ انکا کہنا تھا کہ اس 90 میٹر اونچی 40فلور کی عمارت کو کھڑا کرنے اور پھر گرا دینے میں جو ہزاروں کروڑ کا خرچ آیا تھا اس میں وہ رقم شامل نہیں ہے جو نوئیڈا کے حکام اور ان کے سیاسی آقاؤں نے پلان کو منظور ی دینے اور FAR بڑھانے میں لی ہوگی ۔یہ وہ تکنیکی ٹرم ہے جو اس بات کوطے کرتی ہے کہ کسی عمارت میں کتنی منزلیں ہونی چاہیں اور بار بار بڑھائے جانے کے نتیجہ میں14فلور کی عمارت 40 فلور کی ہو گئی، حالانکہ سپریم کورٹ نے جن باتوں کانوٹس لیا وہ اس بلڈنگ کا دوسرے ٹاوروں کا فاصلہ بھی تھا جو UP apartment act کے مطابق کم سے کم 15 میٹر ہونا ضروری تھا مزے کی بات یہ ہے کہ س کا نوٹس بھی نوئیڈا اتھارٹی کے حکام یا سرکار نے نہیں لیا تھا بلکہ یہ شکایت علاقہ کی RWAنے کورٹ سے کی تھی جس کے نتیجہ میں عدالت عالیہ نے 2021 میں یہ فیصلہ صادرکیا ،جس کے نتیجہ میں ٹوین ٹاورز کو مسمار کیا گیا۔ فیصلہ پہ تنقید کرنے والوں کا خیال ہے کہ اگر بلڈر سے کوئی غلطی ہوئی تھی یا حکام اور بلڈر کی ملی بھگت سے یہ عمارت 70 فیصد مکمل ہو ہی چکی تھی تو اس کو مسمار کرنے کی ضرورت کیا تھی۔ اسکو سپریم کورٹ اپنی تحویل میںلے کر اس میں کوئی اسکول کوئی ہوسٹل کوئی ہاسپٹل بنا سکتا تھا ۔اس کے علاوہ بھی بہت سے سوالات ہیں جن کو ٹوین ٹاور کے ملبے کے نیچے دبانے کی کوشش کی جائے گی اور اس بدعنوانی کو جو بلڈر اور حکام کی ملی بھگت سے ہوئی اس کو اس دھول میں غائب کر دیاجائے گا جو نوئیڈا کی ہواؤں میں 28 اگست کو اڑی تھی۔ حالانکہ سپر ٹیک کے ڈائریکٹر آروڑا جی نے کہا ہے کہ ان کی کمپنی نے کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی اور جو بھی تعمیر کی وہ مطلوبہ اجازت کے بعد ہی کی گئی۔ بظاہر لگتا بھی یہی ہے کہ اتنا بڑا پروجیکٹ جو نوئیڈا کے اس سیکٹرمیں تعمیر ہو رہا تھا جو 40 سال سے آباد ہے وہ پروجیکٹ بناحکام کی رضامندی کے کس طرح بنایا جا سکتا ہے ۔اس کے علاوہ بھی بہت سے سوالات ہیں جو جواب طلب ہیں ۔
سوال نمبر1: ہندوستان وشو گرو بننے کے دروازے پر کھڑا ہے ، ملک کے سائنٹسٹ اور انجینئرس دنیا کے کونے کونے میں موجود ہر شعبہ حیات میں اپنی خدمت انجام دے رہے ہیں لیکن جب ایک بلڈنگ کو demolish کرنے کا وقت آیا تو سائوتھ افریقہ کی ایک کمپنی کو hire کرنا پڑا ، کیا یہ تکنیکی اعتبار سے خود کفالت کا دعویٰ کرنے والے ملک کے لیے جو لاکھوں انجینئر پیدا کرتا ہو جس ملک میں ہزاروں یو نیور سٹیاں ہوں ، کیا اس ملک کے لیے یہ لمحہ فکریہ نہیں ہے؟ کہ پورے ملک میں ایک کمپنی ایسی نہیں تھی جو اس کام کو انجام دے سکتی اور بیس کروڑ کا وہ زرے مبادلہ بچ سکتا جو اس کمپنی کو ادا کیا گیا؟
سوال نمبر 2 : ٹوین ٹاور کوئی ریت کا گھروندا نہیں تھا جسے بچے کھیلنے کی غرض سے بناتے ہیں اوربعد مسمار کر دیتے ہیں۔ ٹوین ٹاور 40 منزلہ ایک عمارت تھی جس کو کھڑا ہونے میں 10سال کا وقفہ لگا تھا۔سوال یہ ہے اس طویل مدت میں وہ حکام کہاں تھے جو نوئیڈا میں قانون کی حفاظت پرمعمور تھے؟
سوال نمبر 3 :کیا یہ ممکن ہے کہ 10 سال تک حکام کی نظر اس لا قانونیت پہ نہیں پڑی جس کی شکایت کسی عام آدمی کو کرنی پڑی۔ یہ واقع اس ریاست میں ہوا جہاں ہر شہر میں بلڈوزر دندناتے گھومتے ہیں اور سرکار کے ایک اشارے پرسونگھ لیتے ہیں کہ کونسی عمارت نا جائز ہے جس کو گرانا ہے۔آناً فاناً میں کسی بھی عمارت کو ملبہ کا ڈھیر بنا دیتے ہیں۔ یقینا یہ کام کسی حاکم وقت کے اشارے یا حکم سے ہوتا ہے لیکن جب کسی بڑے بلڈر کی بات ہو تو وہی حکام اس بلڈر کے ایر کنڈیشن آفس میں بیٹھ کر کوئی بھی کاغذبنا چیک کیے کیسے پاس کر دیتے ہیں۔ کیا عدالت عالیہ کو ان حکام کی نشاندہی کر کے ان کو سزا نہیں دینی چاہیے؟ جو اس بد عنوانی کے لیے بلڈر سے زیادہ ذمہ دارہیں۔ خبر یہ ہے کہ ان افسروں میں سے کئی تو اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں۔ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ جو بچے ہیں انہیں کیا سزاء ملتی ہے۔ ہمارے عدالتی نظام کی جو حالت ہے اس سے تو یہی لگتا ہے کہ جب تک ان کے مقدمے طے ہوں گے وہ بھی اللہ کو پیارے ہو چکے ہوں گے۔
سوال نمبر 4 : اس ڈمولیشن کے نتیجہ میں جو ملبہ پیدا ہوا اس کا وزن 80000 ٹن ہے ۔کہا یہ جا رہاہے کہ اس میں پہلے اسٹیل کو الگ کیا جائے گا، پھر باقی بچے ملبے کو ریت میں تبدیل کر کے دوبارہ استعمال میں لایا جائے گا۔ اس عمل کا ٹھیکہ بھی کسی حیدرآباد کی فرم کو دے دیا گیا ہے ۔سوال یہ ہے کہ اگر بدعنوانی کی عمارت کو Recycle کر کے اس کے ملبہ کو دوبارہ استعمال کیا جا سکتا ہے تو پوری عمارت کو اورکسی مقصد کے لیے کیوں استعمال نہیں کیا جا سکتا تھا؟ کیا عدالت کو صرف ان لوگو ںکے تفریح کا خیال تھا جن کو اپنی چھتوں پر چڑھ کر شور بپا کرنے اور فوٹو لینے کا موقع ملا ۔کیا وہ سرمایہ جو اس عمارت کو بنانے اور مسمار کرنے میں خرچ ہوااسکو بچایا نہیں جا سکتا تھا؟
سوال نمبر 5 :کیا ٹوین ٹاور وہ واحد عمارت تھی جس کی تعمیر میں ضابطوں کی خلاف ورزی ہوئی تھی؟ حقیقت تو یہ ہے کہ تقریبا ًسبھی بلڈر ضابطوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور سارے ہی نقشے حکام کی ملی بھگت سے پاس ہوتے ہیں۔ کیا عدالتیں دوسری عمارتوں کے ساتھ بھی وہی سلوک کریں گی جو ٹوین ٹاورکے ساتھ ہوا اور کیا اس انہدام کے بعد ملک میں کوئی ایسی عمارت نہیں بنے گی جس میں ضابطوں کی خلاف ورزی نہیں ہوگی؟اور بھی بہت سے سوالات ہیں ملک جن کے جوابات چاہتا ہے لیکن کیا ان سوالات کے جوابات کبھی ملیں گے یا ان جوابات کو بھی twin tower کے ملبہ کی طرح کسی نئی بنتی سڑک کے نیچے دبا دیا جائے گا۔
[email protected]
بد عنوانی کے ٹاور کے انہدام سے اٹھے کئی سوال
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS