زمانے سے اساتذہ کو مرکزی مقام حاصل ہے۔
ازقلم: امام علی فلاحی ۔
متعلم: جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن۔
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد ۔
ملک ہندوستان میں ہر سال پانچ ستمبر کو یوم اساتذہ منایا جاتا ہے، یوں تو یوم اساتذہ پوری دنیا میں مختلف دن کو منایا جاتا ہے، عرب امارات میں پانچ اکتوبر کو منایا جاتا ہے، اسی طرح عالمی یوم اساتذہ بھی پانچ اکتوبر کو منایا جاتا ہے لیکن ہمیں اس بات پر فخر ہے اور ہونا بھی چاہئے کہ ہمارے یہاں ملک ہندوستان میں گرو اور چیلے کی روایت اساطیری دور سے چلی آرہی ہے جسکی مثال ہمیں پوری دنیا میں نہیں ملتی کیونکہ کہ ہمارے یہاں استاد کی تکریم کو لیکر ایک عظیم روایت ہے جس نے ایک عظیم نظریہ گرو دکشنا کے روپ میں پوری دنیا کو دیا ہے۔
ہر مذہب و ملت میں، ہر ملک میں، ہر ایک تہذیب و ثقافت میں استاذ کے لئے کوئی نہ کوئی نظریہ موجود ہے لیکن ملک ہندوستان میں اساتذہ کو لیکر جو نظریہ پایا جاتا ہے اور اس نظریہ کے پیچھے جس شخصیت کا بڑا عمل دخل رہا ہے وہ مایہ ناز شخصیت اور عظیم رہنما ڈاکٹر سرو پلی رادھا کرشنن ہیں جنکی یوم پیدائش پر یوم اساتذہ منا کر تمام اساتذہ کو عزت بخشی جاتی ہے۔
1962 میں جب وہ ہندوستان کے صدر بنے تو ان کے طلبا اور احباب نے ان سے درخواست کی کہ وہ 5 ستمبر کو ان کی سالگرہ منانے کی انہیں اجازت دے دیں، رادھا کرشنن نے اپنے طلبا اور دوستوں کی درخواست سننے کے بعد نہایت ہی شائستگی سے جواب دیاکہ میری یوم پیدائش منانے کے بجائے بہتر ہوگا کہ اس دن کو پوری اساتذہ برادری کے احترام میں یوم اساتذہ کے طور پر منایا جائے۔
ایسا ہونے سے مجھے بھی خوشی ہوگی، اس لیے کہ یوم اساتذہ ان اساتذہ کو خراج تحسین پیش کرنے کا دن ہے جو اپنے طلبا کی مجموعی ترقی میں زیادہ سے زیادہ حصہ لیتے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کی یوم پیدائش پر یوم اساتذہ منانے کی کیا ضرورت ہے ؟
اس کی ضرورت اور اہم وجہ یہ ہے کہ وہ نائب صدر اور ہند کے دوسرے صدر جمہوریہ ہونے کے باوجود بھی خود کو ایک استاذ کہلوانا پسند کرتے تھے، اس کی دوسری اہم وجہ یہ بھی ہے کہ وہ خود مفکر، مدبر، مجتہد، فلسفی اور ایک باشعور استاذ تھے، انھوں نے اپنی حیات کے چالیس سال تعلیم و تعلم میں صرف کردیے تھے، اس درمیان انھیں یہ محسوس ہوا کہ اساتذہ کئی قسم کے مسائل کے درمیان محصور ہونے کے باوجود مع صبر و استقلال کے اپنی محنت شاقہ سے طالب علموں کی شخصیات کو نکھارنے اور ان کے اندر ہنر پیدا کرنے میں لگے رہتے ہیں، اس طرح سے ان کی زندگی کو باوقار بنانے کے ساتھ ساتھ ملک کی ارتقائی راہوں کو بھی ہموار کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ صدر جمہوریہ کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد جب ان کے ہردلعزیز شاگرد ان کی یوم پیدائش منانے کے لیے ان سے اجازت لینے گیے تو انھوں نے ان سے اس کی جگہ یوم اساتذہ مناکر استاذوں کی عزت افزائش کے لیے کہا۔
ایک عمدہ استاذ کے بارے میں ان کا قول ہے کہ:
“استاذ وہ ہے جو علم حاصل کرے اور دوسروں تک علم پہنچائے، ایک استاذ کو اپنے علم کے ذریعہ ضیا پاشی کرنا چاہیے کیونکہ ایک اچھا استاذ وہی ہوتا ہے جو خود تو شمع کی مانند جلے اور دوسروں کو روشنی پھیلائے”۔
اساتذہ کی تکریم و تعظیم کے سلسلے میں دانشوروں نے جو کہا ہے وہ بھی ملاحظہ کریں:
کبیر داس جی نے اساتذہ کی تکریم کے سلسلے میں کہا تھا کہ:
“اگر بھگوان اور میرے استاد ایک ساتھ دھرتی پر آجائیں تو میں کشمکش میں مبتلا ہوجاؤں گا کہ پہلے کس کا پیر چھوؤں؟ تو پہلے میں اپنے استاد کو فوقیت دوں گا وہ معرفت الٰہی تک پہونچانے کا ذریعہ بنے”۔
ہندوستان کے سابق صدر ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام نے ایک بار کہا تھا کہ ’’تعلیم ایک بہت ہی معزز پیشہ ہے جو ایک فرد کا کردار، صلاحیت اور اس کے مستقبل کی تشکیل کرتا ہے۔ اگر لوگ مجھے ایک اچھے استاد کے طور پر یاد رکھیں تو یہ میرے لیے سب سے بڑا اعزاز ہوگا۔
اسی طرح بابائے قوم مہاتما گاندھی نے کہا تھا کہ: “میں نے ہمیشہ سے یہ محسوس کیا ہے کہ شاگرد کے لئے سچی نصابی کتاب اس کا استاد ہے”۔
اسی طرح ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام نے کہا تھا کہ: “اگر کسی ملک کو بدعنوانی سے پاک اور اعلی خطوط پر معیاری قوم بنانا ہے تو مجھے شدت سے محسوس ہوتا ہے کہ اس معاشرے میں تین شخصیات تبدیلی لاسکتی ہیں۔ وہ باپ، ماں اور استاد ہیں”۔
بہر کیف پتہ یہ چلا کہ ہمارے ملک ہندوستان میں اساتذہ کی قدر و منزلت دیگر ممالک کے بنسبت زیادہ بڑھی ہوئی ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ تعلیم و تدریس نہایت ہی مقدس اور معزز پیشہ ہے ، ہر مذہب اور ہر سماج میں اساتذہ کو بڑا احترام حاصل رہا ہے کیوںکہ سماج میں جو کچھ بھلائیاں اور نیکیاں پائی جاتی ہیں اور خدمت خلق کا جو سروسامان موجود ہے وہ سب در اصل تعلیم و تدریس ہی کا کرشمہ ہے اسی لئے ہمارے وزیر اعظم نریندرمودی نے بھی کہا تھا کہ “آدھی روٹی کھاؤ بچوں کو پڑھاؤ”۔ “بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ”۔
مشہور مفکر اور مجاہد آزادی مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی کہا تھا کہ تعلیم حاصل کرو، گود سے گور تک۔
اور زندگی کے تمام پیشے اور تمام شعبے پیشہ تعلیم و تدریس کے ہی کوکھ سے ہی جنم لیتے ہیں۔
زندگی کا کوئی بھی شعبہ خواہ عدلیہ، فوج، سیاست، بیوروکریسی، صحت، ثقافت، صحافت یہ تمام کے تمام تعلیم و تدریس ہی کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں اور ایک استاد کی صلاحیتوں کی عکاسی کرتے ہیں اگر مذکورہ شعبہ جات میں عدل ،توازن اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے تو یہ صالح اساتذہ کی تعلیمات کا پرتو ہوتا ہے اور اگر اساتذہ کی تعلیمات میں کہیں کوئی نقص اور کوئی عنصر خلاف شرافت و انسانیت آجائے تب وہ معاشرہ رشوت خوری، بدامنی اور ظالم حکمرانوں کی منہ بولتی تصویر بن جاتا ہے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ دنیائے علم نے استاد کی حقیقی قدر و منزلت کو کبھی اس طرح اجاگر نہیں کیا جس طرح اسلام نے انسانوں کو استاد کے بلند مقام و مرتبے سے آگاہ کیا ہے، اسلام نے استاد کو بے حد عزت و احترام عطاکیا، اللہ رب العزت نے قرآن میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان بحیثیت معلم بیان کی ہے، خود رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’انمابعثت معلما‘‘ (مجھے معلم بنا کر بھیجا گیاہے ) فرما کر اساتذہ کو رہتی دنیاتک عزت و توقیر کے اعلی منصب پر فائز کردیا ہے۔ اسلام میں استاد کا مقام و مرتبہ بہت ہی اعلی و ارفع ہے۔ استاد کو معلم و مربی ہونے کی وجہ سے اسلام نے روحانی باپ کا درجہ عطا کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’انماانا لکم بمنزلۃ الوالد،اعلمکم‘‘ (میں تمہارے لئے بمنزلہ والد ہوں،تمہیں تعلیم دیتا ہوں)۔
امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ اتنی بڑی اسلامی مملکت کے خلیفہ ہونے کے باوجود آپ کے دل میں کوئی حسرت باقی ہے؟ آپ نے فرمایا ’’کاش میں ایک معلم ہوتا”۔
باب العلم خلیفہ چہارم حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول استاد کی عظمت کی غمازی کرتا ہے ’’جس نے مجھے ایک حرف بھی بتا یا میں اس کا غلام ہوں”۔ وہ چاہے تو مجھے بیچے، آزاد کرے یا غلام بنائے رکھے”۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما فقہاء صحابہ میں سے ہیں، حدیث کی نقل و روایت اور فہم و درایت میں بھی بڑے اعلیٰ درجے کے مالک ہیں اور تفسیر و فہم قرآن کا کیا پوچھنا کہ اُمت میں سب سے بڑے مفسر مانے گئے ہیں، لیکن اس مقام و مرتبہ کے باوجود صورتِ حال یہ تھی کہ حضرت زید بن ثابت انصاری کی سواری کی رکاب تھام لیتے تھے اورکہتے تھے کہ ہمیں اہل علم کے ساتھ اسی سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔ (مستدرک حاکم :۳؍۴۲۳)۔
خلف احمر مشہور امام لغت گزرے ہیں امام احمد رحمہ اللہ ان کے تلامذہ میں سے ہیں لیکن علومِ اسلامی میں مہارت اور زہد و تقوی کی وجہ سے امام صاحب کو اپنے استاذ سے بھی زیادہ عزت ملی، اس کے باوجود امام احمد رحمہ اللہ کبھی ان کے برابر بیٹھنے کو تیار نہیں ہوتے تھے اور کہتے تھے کہ آپ کے سامنے بیٹھوں گا، کیونکہ ہمیں اپنے اساتذہ کے ساتھ تواضع اختیار کرنے کا حکم ہے۔ (تذکرۃ السامع و ا لمتکلم،ص:۸۷)۔
امام شافعی رحمہ اللہ امام مالک رحمہ اللہ کے شاگردوں میں سے ہیں، کہتے ہیں کہ جب میں امام مالک کے سامنے ورق پلٹتا تو بہت نرمی سے کہ کہیں آپ کو بارِ خاطر نہ ہو ، (حوالہ سابق،ص:۸۸)۔
خود قرآن مجید نے حضرت موسیٰ ں اور حضرت خضر کے واقعہ کو تفصیل سے بیان کیا ہے باوجودیکہ حضرت موسیٰ مقامِ نبوت پر فائز تھے لیکن انھوں نے نہایت صبر و تحمل کے ساتھ حضرت خضر کی باتوں کو برداشت کیا اور بار بار معذرت خواہی فرمائی۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں منقول ہے کہ اپنے استاذ حماد رحمہ اللہ کے مکان کی طرف پاؤں کرنے میں بھی لحاظ ہوتا تھا، امام صاحب رحمہ اللہ خود اپنے صاحب زادہ کا نام اپنے استاذ کے نام پر رکھا، قاضی ابویوسف رحمہ اللہ کو اپنے استاذ امام ابوحنیفہ سے ایسا تعلق تھا کہ جس روز بیٹے کا انتقال ہوا اس روز بھی اپنے استاذ کی مجلس میں حاضری سے محرومی کو گوارا نہیں فرمایا ۔
شاعر مشرق مفکر اسلام علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ معلم کی عظمت کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’استاد دراصل قوم کے محافظ ہیں کیونکہ آئندہ نسلوں کو سنوارنا اور ان کو ملک کی خدمت کے قابل بنانا انہیں کے سپرد ہے، سب محنتوں سے اعلیٰ درجے کی محنت اور کارگزاریوں میں سب سے زیادہ بیش قیمت کارگزاری ملک کے معلموں کی کارگزاری ہے، معلم کا فرض سب فرائض سے زیادہ مشکل اور اہم ہے کیونکہ تمام قسم کی اخلاقی، تمدنی اور مذہبی نیکیوں کی کلید اس کے ہاتھ میں ہے اور ہر قسم کی ترقی کا سرچشمہ اس کی محنت ہے”۔
کہا جاتا ہے کہ ایک بار فاتحِ عالم، سکندر اپنے استاد ارسطو کے ساتھ گھنے جنگل سے گزر رہے تھے کہ راستے میں ایک بڑا برساتی نالہ آیا جو تازہ موسلا دھار بارش کی وجہ سے بھرا ہوا تھا، یہاں استاد اور شاگرد کے درمیان تکرار شروع ہوگئی کہ پہلے نالہ پار کون کرے گا؟
سکندر بضد تھے کہ نالے کی دوسری طرف پہلے وہ جائیں گے، بالآخر ارسطو نے ہار مان لی اور پہلے سکندر نے ہی نالہ پار کیا، جب عالم اور طالب نے نالہ پار کرلیا تو ارسطو قدرے سخت لہجے میں سکندر سے مخاطب ہوئے اور پوچھا کہ، “کیا تم نے مجھ سے پہلے راستہ عبور کرکے میری بے عزتی نہیں کی؟”
سکندر نے انتہائی ادب سے قدرے خم ہو کر جواب دیا، “ہرگز نہیں استادِ محترم، دراصل نالہ ابھرا ہوا تھا اور میں یہ اطمینان کرنا چاہتا تھا کہ کہیں آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچے، کیونکہ ارسطو رہے گا تو ہزاروں سکندرِ اعظم وجود میں آئیں گے لیکن سکندر ایک بھی ارسطو کو وجود میں نہیں لا سکتا۔”
تاریخ کے اوراق کھنگالیں تو معلوم ہوگا کہ ہر زمانے میں استاد کو والدین کے بعد سب سے زیادہ محترم حیثیت حاصل ہے، بادشاہ ہوں یا سلطنتوں کے شہنشاہ، خلیفے ہوں یا ولی اللہ سبھی اپنے استاد کے آگے ادب و احترام کے تمام تقاضے پورے کرتے نظر آئیں گے۔
چنانچہ خلیفہ ہارون رشید کے دو صاحبزادے امام نسائی کے پاس زیرِ تعلیم تھے، ایک بار استاد کے جانے کا وقت آیا تو دونوں شاگرد انہیں جوتے پیش کرنے کے لیے دوڑے، دونوں ہی استاد کے آگے جوتے پیش کرنا چاہتے تھے، یوں دونوں بھائیوں میں کافی دیر تک تکرار جاری رہی اور بالآخر دونوں نے ایک ایک جوتا استاد کے آگے پیش کیا، خلیفہ ہارون رشید کو جب اِس واقعے کی خبر پہنچی تو بصد احترام امام نسائی کو دربار میں بلایا۔
مامون رشید نے امام نسائی سے سوال پوچھا کہ، “استادِ محترم، آپ کے خیال میں فی الوقت سب سے زیادہ عزت و احترام کے لائق کون ہے؟ مامون رشید کے سوال پر امام نسائی قدرے چونکے پھر محتاط انداز میں جواب دیا کہ، “میں سمجھتا ہوں کہ سب سے زیادہ احترام کے لائق خلیفہ وقت ہیں”۔
خلیفۂ ہارون کے چہرے پر ایک گہری مسکراہٹ اتری اور کہا کہ “ہرگز نہیں استادِ محترم، سب سے زیادہ عزت کے لائق وہ استاد ہے جس کے جوتے اٹھانے کے لیے خلیفۂ وقت کے بیٹے آپس میں جھگڑیں۔”
پتہ یہ چلا کہ وقت گزرگیا، زمانے نے چال بدلی ڈالی اور نئی روایتوں نے جنم لے لیا، حکایتیں بدل چکیں، نہیں بدلا تو استاد کا ادب و احترام نہیں بدلا کیونکہ زمانے سے اساتذہ کو مرکزی مقام حاصل تھا اور آج بھی اسی مقام پر فائز ہیں۔