کبھی مائیں بچوں کو لوری گاکر سلاتی تھیں، ’چندا ماما دور کے۔۔۔‘ ۔ شاعر اپنے محبوب کے حسن کی تشبیہ چاند کے حسن سے دیا کرتے تھے، دیکھنے والوں کے لیے چاند بہت دور تھا مگر کائنات پر غور کرنے اور اس کے اسرارورموز جاننے کی جستجو رکھنے والوں کی دلچسپی اس بات سے تھی کہ چاند اصل میں کیسا ہے۔ اسی جستجو کا نتیجہ ہے کہ آدمی نے چند پر قدم رکھنے کی جدوجہد شروع کی۔ اس جدوجہد میں کامیابی 20 جولائی، 1969 کو ملی جب امریکہ کے خلاباز نیل آرمسٹرانگ چاند پر قدم رکھنے والے پہلے انسان بن گئے۔ چاند پر قدم رکھنے کے بعد نیل آمسٹرانگ نے بجا طور پر یہ کہا تھا کہ ’آدمی کے لیے یہ چھوٹا سا قدم انسانیت کے لیے بڑی چھلانگ ہے۔‘اس میں دو رائے نہیں ہے کہ 20 جولائی، 1969 کا دن سائنس، بالخصوص اسپیس سائنس کی ترقی کا ایک بڑا مرحلہ تھا۔ یہ اتنا ہی اہم دن تھا جتنا اہم دن وہ تھا جس دن کمپیوٹر کی ایجاد ہوئی تھی اور اس سے صدیوں پہلے جس دن پہیے بنانے میں کامیابی ملی تھی، کیونکہ اس دن نے لوگوں کے سوچنے کا انداز بدل دیا۔ وہ چاند سے آگے کی سوچنے لگے۔ یہ بات الگ ہے کہ اردو کے مقبول شاعر علامہ اقبالؔ نے 1969 سے بہت پہلے ہی یہ کہہ دیا تھا کہ ’ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں‘۔ مگر ان کے اس تصور میں ان کی زبان کے لوگ رنگ نہیں بھر سکے، ورنہ انہیں بھی مون مشن کے حوالے سے یاد کیا جاتا۔ ویسے آج بھی یہ کہنا مشکل ہے کہ اردو بولنے والے لوگ اس سلسلے میں کتنا سوچتے ہیں۔ دراصل سوچ کا سلسلہ تب دراز ہوتا ہے، سوچ میں تب وسعت آتی ہے جب مقصد بڑا ہو۔ آج امریکہ ایک بار پھر سے مون مشن کی طرف توجہ دے رہا ہے تو اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ اس کا مقصد بڑا ہے۔ وہ یہ دیکھ رہا ہے کہ اس کے حریف چین نے گزشتہ دو دہائی میں مون مشن پر بڑی تیزی سے کام کیا ہے اوریہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ وہ بھی اسپیس میں اپنی دھاک جمانا چاہتا ہے، چاند کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننا چاہتا ہے اور چاند سے آگے، بہت آگے جانا چاہتا ہے مگر امریکہ نے آرتمیس پروگرام سے یہ اشارہ دے دیا ہے کہ وہ ایک بار پھر سے چاند پر توجہ مرکوز کر رہا ہے، ایک بار پھر سے چاند پر انسانوں کو بھیجنے کا سلسلہ شروع کرنا چاہتا ہے اور اس کا یہ مون مشن کافی بڑا ہے۔ اس کا مون مشن ٹھیک طرح سے چلا تو 2024 سے چاند پر ایک بار پھر سے انسانوں کے جانے کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ اس سے اسپیس سائنس کو کچھ اور وسعت ملے گی، اسپیس سائنس کی مقبولیت میں اضافہ ہوگا اور اس کا فائدہ خاص طور پر ان لوگوں کو ملے گا جو ابھی سے اس سے وابستہ ہوں گے یا وابستہ ہونا چاہیں گے، کیونکہ مختلف بنیاد پر دنیا بھر میں برتی جانے والی تفریق حقیقت ہے تو حقیقت یہ بھی ہے کہ بلا کی صلاحیت رکھنے والوں کو تفریق کبھی روک نہیں سکی ہے۔
1960 کی دہائی میں امریکہ کے مون مشن کا نام ’اپولو-1‘ یونانی دیوتا اپولو کے نام پر رکھا گیا تھا ۔ قدیم دور کے یونانی اپولو کو دیگرکئی چیزوں کے ساتھ سورج اور روشنی کا بھی دیوتا مانتے تھے اور اب امریکہ کا مون مشن آرتمیس-1 اور آرتمیس -2 یونانی کی ہی دیوی آرتمیس کے نام پر رکھا گیا ہے۔ اپولوکی جڑواں بہن آرتمیس کو قدیم یونان کے لوگ ’چاند کی دیوی‘ مانتے تھے۔ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ جدید دور کے لوگ بھی یونان کو بھلا نہیں پائے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیوں نہیں بھلا پائے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اپنے دور میں سائنس اور ٹیکنالوجی میں یونان کا عروج مثالی تھا۔ ویسے سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں آج کے امریکہ کا عروج بھی کم مثالی نہیں ہے۔ امریکہ کے مون مشن کے بارے میں ناسا کے خلاباز رینڈی بریسنک کا کہنا ہے کہ ’آرتمیس-1میں ہم جو بھی کر رہے ہیں وہ یہ ثابت کرنے کے لیے کر رہے ہیں کہ ہم کیا کر سکتے ہیں، اور اس سے آرتمیس-2 ہیومن مشن پرجو بھی خطرے ہوں گے انہیں دور کیا جا سکے گا۔‘ امریکی حکومت نے مون مشن کو کتنی اہمیت دی ہے، اس کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتاہے کہ آرتمیس مشن کی پہلی چار لانچنگ پر کافی زیادہ زیادہ خرچ ہوگا یعنی ہر لانچنگ پر 4.1 ارب ڈالر خرچ ہوگا۔ ہندوستان کے روپیوں میں یہ رقم 325 ارب سے زیادہ بنتی ہے مگر امریکی حکومت جانتی ہے کہ مون مشن کی کامیابی کا مطلب کیا ہے۔ مون مشن کے بارے میں ناسا کے ایڈمنسٹریٹر بل نیلسن کا کہنا ہے کہ ’ہم سب لوگ جو چاند کو نہارتے ہیں، اس دن کا خواب دیکھتے ہیں کہ انسان پھر سے چاند پر قدم رکھے، ساتھیو! ہم یہاں آگئے ہیں۔ ہم دوبارہ وہاں جا رہے ہیں۔ اور وہ سفر، ہمارا یہ سفر آرتمیس-1کے ساتھ شروع ہو رہا ہے۔‘انتظار واقعی اس دن کا کیا جائے گا جب ایک بار پھر انسان چاند پر قدم رکھے گا۔n
چاند پرپھر پڑیں گے انسانوں کے قدم
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS